برونائی | مطلق بادشاہت والا ملک | برونائی کے بارے میں دلچسپ حقائق
دوستو یہ برونائی ہے جو جنوب مشرقی ایشیا کا ایک چھوٹا اسلامی ملک ہے۔ تقریباً 6000 مربع کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل یہ ملک دنیا کے دس امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ ملک بھی دنیا کے بہترین معیار زندگی میں سے ایک ہے۔ یہاں کے لوگ معاشی طور پر بہت پرامن زندگی گزار رہے ہیں، انہیں کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا، اور تعلیم اور صحت جیسی سہولیات بالکل مفت ہیں۔ لیکن دوستو اس ملک کی شہرت کی اصل وجہ کچھ اور ہے۔ درحقیقت برونائی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں آج بھی بادشاہت کا راج ہے۔ ملک کے تمام معاملات کا ذمہ دار بادشاہ ہوتا ہے
برونائی | مطلق بادشاہت والا ملک | برونائی کے بارے میں دلچسپ حقائق
اور عوام کو اپنا لیڈر منتخب کرنے کا حق نہیں ہے برونائی آج دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے لیکن یہ ملک ہمیشہ ایسا نہیں تھا جو بیسویں صدی میں ہوا تھا۔ جس نے اس ملک کی تقدیر بدل دی؟ اس ملک کی معاشی ترقی کا راز کیا ہے؟ امیر ترین ملک کے بادشاہ کے پاس کتنی دولت ہے؟ یہاں کے لوگوں کو دی جانے والی مفت مراعات کے پیچھے شاہی خاندان کے راز کیا ہیں؟ آئیے یہ سب جانتے ہیں۔ برونائی دارالسلام – تعارف اور مقام اس ملک کا سرکاری نام برونائی دارالسلام ہے۔ یہ براعظم ایشیا کے جنوب مشرقی جانب بورنیو جزیرے پر واقع ہے اس جزیرے کا باقی تمام حصہ انڈونیشیا اور ملائیشیا کا حصہ ہے۔ برونائی یکم جنوری 1984 کو برطانیہ سے آزاد ہوا۔ سنگاپور کے
بعد برونائی جنوب مشرقی ایشیا میں انسانی معیار زندگی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی رپورٹس کے مطابق برونائی کی فی کس قوت خرید دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ برونائی کی بادشاہی کی تاریخ اور نظام دوستو، برونائی کئی صدیوں سے بادشاہت رہا ہے 15ویں سے 17ویں صدی تک، برونائی کی بادشاہت اپنے عروج پر تھی، جو شمالی بورنیو سے لے کر جنوبی فلپائن تک پھیلی ہوئی تھی، 19ویں صدی میں یہ سلطنت کمزور ہونے لگا. برطانیہ اب تک برونائی کے بہت سے معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے 1888 میں برونائی برطانوی کنٹرول میں آگیا۔ اس کے بعد 1984 میں برونائی ایک آزاد ملک بن گیا۔ اور اس وقت کے بادشاہ حسنال بولکیہ نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا دوستو، سلطان حسنال بولکیا گزشتہ 56 سے برونائی کے تخت پر براجمان ہیں وہ 1967 میں 21 سال کی عمر میں برونائی کے 19ویں بادشاہ بنے تھے۔ برونائی میں اب بھی آمرانہ بادشاہت ہے
یہاں پارلیمنٹ تو ہے لیکن انتخابات نہیں ہوتے آپ نے دیکھا ہوگا کہ حالیہ دنوں میں اگر کسی ملک میں ملکہ یا بادشاہ کا عہدہ بھی موجود ہے تو یہ عہدہ صرف علامتی ہے، جب کہ ملک میں وزیر اعظم یا بادشاہ کی حکومت ہے۔ صدر جو منتخب ہوتا ہے۔ لیکن دوستو، برونائی میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ برونائی میں ملک کے تمام معاملات بادشاہ کے زیر انتظام ہیں۔ اس کے برعکس سلطان حسنال بلکیہ کے پاس بہت سے اختیارات ہیں۔ وہ وزیر اعظم، وزیر خزانہ، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھی ہیں۔ عام طور پر جب وزیراعظم کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اسے اپنے وزراء کی رائے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن حسنال بولکیہ چونکہ زیادہ تر وزارتوں پر خود ان کا کنٹرول ہے اس لیے وہ تمام فیصلوں میں خود مختار ہیں۔ قانونی طور پر حسنال بولکیہ کے پاس بھی بہت سے اختیارات ہیں،
اور وہ جو چاہے فیصلہ لے سکتے ہیں، انہوں نے 2006 میں برونائی کے آئین میں کچھ تبدیلیاں بھی کیں، وہ برطانوی رائل نیوی اور ایئر فورس میں اعزازی کمیشن بھی رکھتے ہیں۔ حسنال بولکیہ کی دولت دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہے، ان کی کل دولت 30 ارب ڈالر کے قریب ہے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق برونائی میں ان کا شاہی محل دنیا کا سب سے بڑا رہائشی محل ہے۔ اسے 200,000 مربع میٹر کے رقبے پر بنایا گیا ہے۔ اس شاندار محل میں کل 1788 خوبصورت کمرے، 257 بہترین ڈیزائن کردہ باتھ رومز، 5000 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش والا ایک بڑا ہال، ہزاروں کاروں کے لیے پارکنگ کی جگہ، پانچ سوئمنگ پولز اور ایک خوبصورت مسجد ہے، جس میں 5000 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ 1500 لوگ دوستو اس شاندار محل کے علاوہ بادشاہ کے اور بھی بہت سے محلات ہیں گاڑیوں کی بات کریں تو شاہ حسنال بلکیہ کے پاس ہزاروں لگژری کاریں ہیں۔
اس کے پاس سونے سے بنی رولس رائس ہے اس کے پاس بہت سے فیراری، بینٹلی، بگاٹیس اور میک لارنس بھی ہیں۔ اس کے پاس بہترین پرائیویٹ جیٹ طیارے بھی ہیں۔ ان جیٹ طیاروں پر سونے کی تہہ لگی ہوئی ہے۔ آپ اس حقیقت پر غور کر کے سوچ سکتے ہیں کہ وہ کتنا امیر ہے کہ بادشاہ صرف بال کٹوانے کے لیے 20 ہزار ڈالر ادا کرتا ہے، یعنی تقریباً 56 لاکھ پاکستانی روپے! برونائی کی معیشت کا راز 20 ویں صدی کے اوائل میں برونائی کی سالمیت کو بہت سے خطرات کا سامنا کرنا پڑا – 1888 میں یہ برطانوی راج کے تحت آیا، جس کے بعد اس کے بادشاہ کو کوئی بھی فیصلہ کرنے کے لیے برطانوی رضامندی کی ضرورت تھی اس کی معیشت بھی بری حالت میں تھی۔ یہاں کی کرنسی بے کار ہو چکی تھی لیکن پھر 1929 میں یہاں تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر دریافت ہوئے، جس نے اس کی تقدیر ہمیشہ کے لیے بدل دی! مختلف بین الاقوامی تیل کمپنیوں نے یہاں کام شروع کیا، تیل اور گیس کی برآمدات سے برونائی کی معیشت میں اضافہ ہوا۔ لیکن پھر دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی۔
جاپان نے 10,000 فوجیوں کی مدد سے برونائی اور کچھ قریبی ممالک کا کنٹرول حاصل کر لیا، چار سالوں میں جاپان نے برونائی کی معیشت کو تباہ کر دیا۔ سکولوں میں جاپانی زبان پڑھائی جاتی تھی، سرکاری افسران کو جاپانی سیکھنے پر مجبور کیا جاتا تھا برونائی کی کرنسی کی بجائے یہاں اپنی کرنسی متعارف کروائی جاتی تھی۔ تجارت مکمل طور پر روک دی گئی۔ آخر کار 1945 میں برونائی فوج نے آسٹریلیا کے ساتھ مل کر جاپانی فوجیوں پر حملہ کر دیا۔ امریکہ کے ایٹمی حملوں کے بعد جاپان کمزور ہوا تو جاپان نے برونائی میں ہتھیار ڈال دیئے۔ برونائی کی ترقی کا سفر دوبارہ شروع ہوا۔ 1970 کی دہائی میں برونائی میں اقتصادی ترقی اپنے عروج پر تھی تیل اور گیس کے ذخائر اتنی تیزی سے استعمال ہو رہے تھے کہ ماہرین نے حکام کو خبردار کیا کہ یہ ذخائر ختم ہو سکتے ہیں۔ تیل کی دریافت سے پہلے دیگر شعبوں میں بھی کام ہو رہا تھا لیکن اب ملک کا سارا دارومدار تیل اور گیس پر تھا۔
دوستو، آج برونائی یومیہ 180,000 بیرل تیل پیدا کرتا ہے۔ یہ جنوب مشرقی ایشیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے جو آپ نے شیل پیٹرولیم کے بارے میں سنا ہوگا۔ برونائی میں بھی ایک ایسی ہی کمپنی ہے جس کا نام برونائی شیل پیٹرولیم، بی ایس پی ہے۔ اس کمپنی کا برونائی کی ترقی میں اہم کردار ہے۔ سال 2021 کی اقتصادی رپورٹس کے مطابق ملک کی کل جی ڈی پی کا تقریباً نصف تیل اور گیس سے آیا تھا، سال 2021 میں برونائی کی فی کس جی ڈی پی تقریباً 32500 ڈالر تھی، اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو 2021 کی فی کس جی ڈی پی صرف 1500 ڈالر تھی۔ . یہی وجہ ہے کہ برونائی میں زندگی کا معیار بہت اچھا ہے۔ تمام شہریوں کے پاس زندگی کی بنیادی ضروریات، اچھا گھر اور گاڑی وغیرہ ہے۔ حکومت شہریوں کو مفت پلاٹ، سستے گھر، اور سستی کاریں فراہم کرتی ہے۔
کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں بھی بہت کم ہیں۔ شہریوں کے لیے تعلیم اور طبی سہولیات بھی مفت ہیں۔ کتابیں، ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ بھی مفت ہے اگر کسی شہری کو تعلیم یا علاج کے لیے بیرون ملک جانا پڑے تو اس کے اخراجات بھی حکومت برداشت کرتی ہے۔ دوستو تیل کے ذخائر ختم ہونے کے خطرے کے پیش نظر برونائی کی حکومت نے آج زراعت کے جنگلات اور مچھلی کی پیداوار کو قومی آمدنی کا ذریعہ بنا دیا ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ برونائی کے تیل اور گیس کے ذخائر 2035 تک ختم ہو جائیں گے۔برونائی کے شاہی خاندان کے اعتراضات برونائی برونائی رائلز کو اپنے اخراجات کی وجہ سے عالمی میڈیا کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شاہ حسنال بلکیہ پر اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ انہوں نے ملک میں آمرانہ بادشاہت قائم کر رکھی ہے۔ بادشاہ کے فیصلوں کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔
لوگوں کے حقوق نہیں ہیں۔ برونائی میں اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے عوام کو تھوڑا سا معاشی ریلیف دے کر وہ اور ان کا خاندان کسی قسم کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھاری قومی آمدنی کے باوجود عوام اور بادشاہ کے خاندان کے طرز زندگی میں بہت فرق ہے بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ملکی آمدنی کا بڑا حصہ بادشاہ اور ان کے خاندان حسنال بولکیہ کے پاس ہے۔ 5 بیٹے اور 7 بیٹیاں۔ ان میں سے ایک، پرنس عبدالمتین، ایک مقبول مشہور شخصیت ہیں، انسٹاگرام پر 2.5 ملین فالوورز کے ساتھ وہ مہنگی ترین جگہوں پر چھٹیاں گزارتے ہیں، اور لگژری جیٹ طیاروں میں سفر کرتے ہیں۔ ان کی عمر 31 سال ہے اور لوگ ان کے شاہانہ طرز زندگی پر رشک کرتے ہیں۔ شاہ کے بھائی شہزادہ جعفری بولکیہ پر 15 بلین ڈالر کی چوری کا الزام ہے شہزادہ جعفری 600 سے زیادہ لگژری پراپرٹیز، 2000 لگژری کاریں اور 9 جیٹ طیاروں کے مالک ہیں۔ اسی طرح بلقیہ خاندان کے پاس بھی بہت سی کمپنیاں ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے
عوام کو ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کچھ سہولیات دی جاتی ہیں۔ لیکن بدلے میں، شاہی خاندان بغیر کسی پابندی کے زندگی گزارتا ہے۔ اس کے باوجود بادشاہ اور اس کا خاندان عوام میں بہت مقبول ہیں، انہیں خوب پسند کیا جاتا ہے۔ دیگر دلچسپ معلومات دوستو جس طرح سلطان حسنال بلقیہ کے اخراجات کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔ عربی میں ان کا پورا نام سلطان حاج حسن البلقیہ معاذ الدین والدولہ ابن المرہوم سلطان حاج عمر علی سیف الدین سعد الخیر ودلن ہے۔ ان کی عمر 77 سال ہے۔ یہاں اسکول جانے والے 51 فیصد بچے موٹاپے کا شکار ہیں۔
تعلیم مفت ہے، لہٰذا شرح خواندگی 98 فیصد ہے یہاں اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کی جاتی ہے، شراب پر پابندی ہے برونائی کو ایشیا کا وینس بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں شہر دریا کے کنارے آباد ہیں۔ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ سیاح اس چھوٹے لیکن معاشی طور پر خود مختار ملک کو دیکھنے کے لیے جوق در جوق آتے ہیں۔ کیا آپ بھی برونائی دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہمیں تبصروں میں بتائیں۔ شکریہ!
سعودی عرب کیسے وجود میں آیا؟ | سعودی عرب کی تاریخ