دنیا کے وہ علاقے جو کوئی ملک نہیں چاہتا | دنیا کے غیر دعوی شدہ علاقے
بگ سوچو میں خوش آمدید! اگر آپ ہماری کرہ ارض کو دیکھیں تو اس کا تقریباً پورا علاقہ کسی نہ کسی ملک کے کنٹرول میں ہے لیکن اس وقت ہماری زمین پر کچھ ایسے زمینی علاقے ہیں جو کسی ملک کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی ملک ان پر اپنی ملکیت ثابت کرنا چاہتا ہے۔
دنیا کے وہ علاقے جو کوئی ملک نہیں چاہتا | دنیا کے غیر دعوی شدہ علاقے
ملک یہاں لاگو نہیں ہوتا اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان علاقوں پر کوئی بھی دعویٰ کر سکتا ہے، یہاں تک کہ آپ بھی! ان علاقوں سے ملحقہ ممالک انہیں اپنانے سے کیوں گریزاں ہیں؟ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ جنگیں بھی ایسے ہی معاملات پر لڑی جاتی ہیں لیکن یہ دلچسپ صورتحال کیسے پیدا ہوئی اور یہ بدقسمت علاقے کون سے ہیں؟ آئیے یہ سب جانتے ہیں بیر تاویل مصر اور سوڈان کی سرحد پر صحرائے صحارا میں واقع ہے اس کا رقبہ تقریباً 21 سو مربع کلومیٹر ہے بیر تاویل سائز میں تین ممالک جیسے سنگاپور کے برابر ہے یہاں ریت اور کنکروں کے سوا کچھ نہیں ہے
یہاں کوئی بھی نہیں رہتا۔ اور اس جگہ پر کوئی انفراسٹرکچر موجود نہیں ہے آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر ممالک ایک مربع کلومیٹر زمین حاصل کرنے کے لیے ہر وقت سرتوڑ کوششیں کرتے رہتے ہیں یہ اب بھی بڑی بات ہے لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے مصر بیر تاویل کے شمال میں واقع ہے۔ اسے لے لو اور جنوب میں سوڈان اسے لینے میں دلچسپی نہیں رکھتا، لیکن کیوں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں دو صدیاں پیچھے جانا پڑے گا جب مصر سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا تب بھی مصر اپنے معاملات میں کافی حد تک خود مختار تھا
اس نے سوڈان اور اس سے ملحقہ کچھ علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ علاقوں میں 1870 میں سوڈان نے مصر کے خلاف مسلح بغاوت کی ابتدا میں انہیں اپنی کوششوں میں زیادہ کامیابی نہیں ملی اسی دوران 1882 میں برطانیہ نے مصر پر کنٹرول حاصل کر لیا اور پھر سوڈان میں بغاوت کو کچلنے کے لیے برطانیہ نے مصر کے ساتھ مل کر یہ سلسلہ اگلے کئی سالوں تک جاری رہا۔ سال سوڈانی افواج کو شکست دینے کے بعد مصر اور سوڈان کے درمیان ایک نئی سرحدی لکیر کھینچنے کا فیصلہ کیا گیا 1899 کے معاہدے کے مطابق 22ویں متوازی کو مصر اور سوڈان کی سرحد کے طور پر تسلیم کیا گیا اسی معاہدے میں سوڈان کو بھی یہ درجہ دیا گیا۔ برطانیہ اور مصر کے کنڈومینیم کا کنڈومینیم ایک ایسی ریاست ہے جس پر دو یا دو سے زیادہ ممالک یا ریاستیں باہمی طور پر متفقہ شرائط کے تحت حکومت کرتی ہیں 1899 میں برطانیہ کی طرف سے طے کی گئی سرحد کے ساتھ ایک مسئلہ تھا
یعنی بیر تاویل کا علاقہ اس سرحدی لکیر کے جنوب میں سوڈان کا حصہ بن گیا یہ خطہ اور اس کے خانہ بدوش قبائل ثقافتی طور پر مصر کے زیادہ قریب تھے جبکہ شمال میں حلیب کا علاقہ جو ثقافتی طور پر سوڈان سے قریب تھا، مصر چلا گیا ہالا ایب کا یہ خطہ بھی رقبے میں کافی بڑا تھا۔ اور بحیرہ احمر سے بھی جڑا ہوا ہے ، مصر کو اس پر زیادہ اعتراض نہیں تھا، لیکن سوڈان کیا برطانیہ نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے 1902 میں سوڈان اور مصر کے درمیان ایک نئی سرحدی لکیر کھینچ دی تھی جس میں اب بیر تاویل مصر کو دے دیا گیا تھا جبکہ ہالا ایب کا علاقہ تھا۔
سوڈان کو دیا گیا یہ لکیر کھینچنے کے بعد مسئلہ وقتی طور پر حل ہو گیا لیکن یہ ایک نئے مسئلے کا آغاز بھی تھا جو برطانیہ سے دونوں ممالک کی آزادی کے بعد جنم لینے والا تھا اس وقت چونکہ دونوں ممالک زیر اثر تھے۔ تاج برطانیہ کا یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا 1922 میں جب مصر نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تو یہ مسئلہ اتنا بڑا ثابت نہیں ہوا لیکن 1956 میں جب سوڈان نے بھی آزادی حاصل کی تو دونوں ممالک کے درمیان یہ سرحدی مسئلہ بن گیا۔ باقاعدہ تنازعہ مصر کا خیال تھا
کہ اصل 1899 22 واں متوازی تھی جبکہ سوڈان یہ نہیں مانتا تھا کہ 1902 میں کھینچی گئی لکیر اصل سرحد تھی جس میں حلیب سوڈان کا حصہ تھا جبکہ بیر تاویل مصر کا حصہ تھا دونوں ممالک کے اپنے اپنے دعووں کی وجہ سے، دونوں حلیب پر دعویٰ کر رہے ہیں جبکہ کوئی ایک ملک بھی بیر تاویل لینے کو تیار نہیں اسی وجہ سے یہ علاقہ ملکوں کی سرحد پر لاوارث پڑا ہوا ہے یہ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا جب 1958 میں سوڈان نے یہاں انتخابات کرانے کی کوشش کی مصری صدر جمال عبدل ناصر نے اپنی فوجیں یہاں بھیجیں اس کے بعد دونوں ممالک نے کچھ عرصہ یہاں مشترکہ طور پر حکومت بھی کی تو مسئلہ سنگین ہو گیا
جب 1992 میں حلیب کے ساتھ بحیرہ احمر کے علاقائی پانیوں میں تیل کے ذخائر کے شواہد ملے اس کے بعد سوڈان نے پہل کی اور مصر نے اس پر سخت اعتراض کیا اور سوڈانی پولیس اور دیگر لوگوں کو علاقے سے نکالنے کے لیے اپنی فوج بھیجی اس طرح یہ علاقہ اس وقت مصر کے کنٹرول میں ہے اس کے علاوہ مصر نے بھی یہاں پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں، دونوں میں سے کوئی نہیں۔ ممالک بیر تاویل کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر مصر بیر تاویل کو اپنی سرزمین کا حصہ مانتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ 1902 میں کھینچی گئی سرحدی لائن کو تسلیم کرتا ہے اور اس صورت میں مصر کو حلیب کو ترک کرنا پڑے گا جو کہ اس سے 10 گنا بڑا ہے۔
رقبہ میں بیر تاویل ورنہ اگر سوڈان بیر تاویل پر اپنا حق ظاہر کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ 1899 میں کھینچی گئی لکیر کو اپنی سرحد سمجھتا ہے اس طرح سوڈان کو حلیب جیسا بڑا اور قیمتی علاقہ ترک کرنا پڑے گا اس طرح دو ممالک نہیں چاہتے۔ حلیب سے دستبردار ہونا اور بیر تاویل کو قبول نہیں کرنا چاہتے اور یہ ایک غیر دعویدار علاقہ ہے سوڈان اور مصر کی سرحد پر واقع اس جگہ کے لیے Terra Nulius کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے یعنی ایسی جگہ جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو اور اس کا دعویٰ کیا جا سکے۔ بیر تاویل کے اس علاقے پر کئی لوگ دعویٰ کر چکے ہیں،
ایک کو ایک امریکی شخص نے 2014 میں بنایا تھا، اس نے یہاں اپنا جھنڈا بھی لگایا اور اس جگہ کا نام کنگڈم آف نارتھ سوڈان رکھ دیا، چند ماہ بعد دو روسی شہریوں نے بھی اس علاقے کو بنانے کا اعلان کیا ہے۔ یہاں 2017 میں، ایک ہندوستانی نے بھی اس جگہ کی ملکیت کا دعویٰ کیا تھا، آپ بتائیں کہ اگر آپ اس پر دعویٰ کرنا چاہتے ہیں تو آپ اس علاقے کو کیا نام دیں گے، اب آئیے یورپ کی طرف چلتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے دلچسپ سرحدی مسئلے پر بات کرتے ہیں۔
یورپ کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ایک ایک انچ کسی نہ کسی ملک کی ملکیت ہے کیونکہ چھوٹے ممالک کی بڑی تعداد ہے لیکن یورپ میں بھی سربیا اور کروشیا کی سرحد پر ایک ایسا علاقہ ہے جسے کوئی بھی ملک پھیلانے کو تیار نہیں۔ 7 مربع کلومیٹر کا یہ رقبہ اتنا بڑا تو نہیں لیکن اتنا چھوٹا بھی نہیں لیکن ویٹیکن سٹی اور موناکو جیسے آزاد ممالک بھی چھوٹے ہیں تو یہاں یورپ میں ایسی صورتحال کیسے پیدا ہوئی؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں 19ویں صدی میں واپس جانا پڑے گا جب سربیا اور کروشیا دونوں آسٹرو ہنگری سلطنت کے زیر تسلط تھے دریائے ڈینیوب کے مشرق میں سربیا تھا جبکہ دریا کے مغرب میں کروشیا آسٹرو ہنگریئن تھا۔ سلطنت نے دریا کو دونوں کے درمیان قدرتی سرحد کا درجہ دے دیا تھا چونکہ دریا ٹیڑھا تھا
آسٹرو ہنگری سلطنت نے نیوی گیشن کو قدرے آسان بنانے کے لیے دریا کا رخ کئی مقامات پر موڑ دیا تھا ایسا کرنے سے دریا کے ذریعے جہاز رانی آسان ہو گئی لیکن اس کی وجہ سے پہلی جنگ عظیم کے بعد ایک نیا مسئلہ پیدا ہوا، آسٹرو ہنگری سلطنت کا خاتمہ ہوا سربیا اور کروشیا پھر یوگوسلاویہ کے زیر تسلط آگئے جب 1990 کی دہائی میں یوگوسلاویہ ٹوٹا تو سربیا اور کروشیا دو نئے ممالک کے طور پر ابھرے، آزادی سے پہلے دونوں ملک تھے۔ کسی ایک ملک یا سلطنت کا حصہ تو یہ سرحد کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا لیکن آزادی کے بعد سربیا نے دریائے ڈینیوب کے بہاو کو اپنی سرحد سمجھنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں اس کی مشرقی جانب تقریباً 100 مربع کلومیٹر کا رقبہ ہے۔
دریا سربیا میں چلا گیا یہ علاقہ کروشیا کو دیا جانا چاہیے تھا اگر دریا کے نیچے کی طرف آنے والے پرانے راستے کو سرحد سمجھا جاتا اسی طرح دریا کے مغربی کنارے کا علاقہ کروشیا میں آیا جو سربیا کا حصہ ہوتا اگر پرانا ہوتا۔ اس صورت حال میں کروشیا کا موقف ہے کہ دریا کے بہاو کا اصل پرانا قدرتی راستہ سرحد ہے جبکہ سربیا دریا کے موجودہ راستے کو سرحد سمجھتا ہے اور اس طرح دونوں ممالک کا دعویٰ ہے۔ دریا کے موجودہ بہاو کے مشرقی علاقے لیکن مغربی کنارے کا دعویٰ نہیں کرتے اس طرح دونوں ممالک کی مختلف پوزیشنوں کی وجہ سے مغربی کنارے کا ایک بڑا علاقہ غیر دعویدار ہو جاتا ہے جس پر کوئی بھی دعویٰ کر سکتا ہے جس کی وجہ یہ علاقہ لبرل لینڈ کہلاتا ہے۔ غیر دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر سربیا دریا کے موجودہ بہاو کے مغربی جانب کے غیر دعوی شدہ علاقے پر دعویٰ کرتا ہے
تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ دریا کے پرانے بہاو کو سرحد سمجھ رہا ہے اس صورت میں سربیا کو 100 مربع کو ترک کرنا پڑے گا۔ کلومیٹر مشرقی جانب اسی طرح، اگر کروشیا دریا کے موجودہ بہاو کے مغربی کنارے پر اس غیر دعویدار علاقے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ دریا کے موجودہ بہاو کو سرحد سمجھ رہا ہے، اس صورت میں، کروشیا کو دینا پڑے گا۔ 100 مربع کلومیٹر تک اور کوئی بھی ملک اتنا بڑا رقبہ چھوڑنا نہیں چاہتا اس لاوارث علاقے میں کوئی انفراسٹرکچر نہیں ہے اور جو لوگ یہاں جاتے ہیں ان کو کروشین آرمی گرفتار کر لیتی ہے جو اس علاقے کے ساتھ موجود ہے
حالانکہ یہ کسی ملک کی ملکیت نہیں ہے۔ چیک سے تعلق رکھنے والے سیاست دان نے 2015 سے اس کی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے بلکہ وہ خود کو آزاد جمہوریہ لبرلینڈ کا صدر سمجھتے ہیں آپ Liberland کی ویب سائٹ پر جا کر صرف چند ڈالروں میں Liberland کی ای-شہریت حاصل کر سکتے ہیں زمین پر اگلا غیر دعویدار علاقہ میری برڈ لینڈ ہے۔ قطب جنوبی پر انٹارکٹیکا میں واقع یہ 1.6 ملین مربع کلومیٹر کا علاقہ کسی بھی ملک کے کنٹرول میں نہیں ہے اور زمین کا سب سے بڑا رقبہ ہے جس پر کسی بھی ملک کا دعویٰ نہیں ہے حالانکہ آسٹریلیا، فرانس، نیوزی لینڈ، ارجنٹائن، چلی، انٹارکٹیکا کے بقیہ حصے پر ناروے اور برطانیہ کے اپنے دعوے ہیں لیکن انٹارکٹیکا کا یہ جنوب مغربی حصہ لاوارث ہے
جس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ کا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے لیکن یہ انتہائی درجہ حرارت ہے جو نقطہ انجماد سے نیچے رہتا ہے بلکہ وہ ممالک جنہوں نے باقی ماندہ حصوں پر دعویٰ کیا ہے۔ براعظم کی یہاں موجودگی برائے نام ہے آپ کو دنیا کے غیر دعویدار علاقوں کے بارے میں یہ ویڈیو کیسی لگی؟ آپ کے خیال میں اس مسئلے کا کوئی حل ہے یا نہیں؟ اگر آپ کے پاس ایسا کوئی حل ہے تو ہمیں کمنٹس میں ضرور لکھیں اور اس طرح کی مزید ویڈیوز دیکھنے کے لیے ہمارے چینل کو سبسکرائب کریں۔ شکریہ!
برونائی | مطلق بادشاہت والا ملک | برونائی کے بارے میں دلچسپ حقائق