| | | | | | | |

سعودی عرب کیسے وجود میں آیا؟ | سعودی عرب کی تاریخ

یہ آج کا سعودی عرب ہے جو نجد، حجاز، الحساء، حائل اور عسیر کے خطوں پر مشتمل ہے، تقریباً تین صدیوں تک مختلف سلطنتوں اور قبائل نے اس خطے پر تسلط حاصل کرنے کی کوششیں کیں اور اس کی خاطر مختلف قبائل کے درمیان جھڑپیں اور لڑائیاں ہوئیں۔ یہاں اقتدار ایک معمول تھا ان میں سے ایک قبیلہ آل سعود تھا جس کے نام پر موجودہ سعودی عرب قائم ہے یہ قبیلہ کب اور کیسے وجود میں آیا؟ اس کے خاندان کو کیوں جلاوطن کیا گیا؟ ہاؤس آف سعود نے دوبارہ اقتدار حاصل کیا سعودی عرب کیسے وجود میں آیا؟

سعودی عرب کیسے وجود میں آیا؟ | سعودی عرب کی تاریخ

اس کا خلافت عثمانیہ سے کیا تعلق تھا؟ لارنس آف عریبیہ کون تھا اور کیا سعودی عرب کے قیام میں اس کا کوئی کردار تھا؟ آئیے یہ سب کچھ معلوم کرتے ہیں کہ عثمانیوں نے 1516-17 کی فیصلہ کن عثمانی مملوک جنگ میں مملوکوں کو شکست دے کر جزیرہ نما عرب حاصل کیا الاشرف قنسوح الثوری اس وقت مملوک بادشاہ تھا اور اس کے ساتھ اس کی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد عثمانیوں نے موجودہ سعودی عرب میں حجاز پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا، عثمانیوں نے یہ کامیابی سلطان سلیم اول کے دور میں حاصل کی، عرب خطے کو فتح کرنے کے بعد، سلیم اول نے خود کو مسلمانوں کا خلیفہ قرار دیا، خاص طور پر اگر ہم سعودی عرب کی بات کریں،

یہ خطہ تاریخی طور پر پانچ مختلف خطوں پر مشتمل ہے حجاز بحیرہ احمر کے ساحل پر واقع وہ خطہ ہے جہاں مسلمانوں کے مقدس ترین شہر مکہ اور مدینہ ہیں نجد میں، ریاض، جو آج کے سعودی عرب کا دارالحکومت ہے، واقع ہے اور یہ اسی خطے سے تھا۔ کہ جدید سعودی عرب کا قیام شروع ہوا جب کہ خلیج فارس کی طرف الاحساء ایک ایسا خطہ ہے جو سعودی عرب کے مشرق اور جنوب میں پھیلا ہوا سیاہ سونا یعنی تیل 1938 میں شمال میں حائل کے علاقے میں دریافت ہوا تھا جبکہ یمن نجد اور یمن کے درمیان کا حصہ تھا۔ حجاز کو عسیر کا خطہ کہا جاتا ہے یہ سعودی عرب کے مختلف خطوں کا مختصر تعارف ہے لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کیسے وجود میں آیا،

تو آئیے شروع کرتے ہیں جدید سعودی عرب کے قیام کی تاریخ اٹھارہویں صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے۔ 1744ء میں نجد کے ایک قبائلی سردار محمد ابن سعود نے محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر پہلی سعودی مملکت کی بنیاد رکھی، پہلی سعودی مملکت کی بنیاد نجد میں ریاض کے قریب ایک چھوٹے سے علاقے اددیریا میں رکھی گئی اور اس کا نام امارت دریہ رکھا گیا۔ اس ریاست کے معاملات آل سعود قبیلے کے کنٹرول میں تھے جبکہ مذہبی مسائل کو وہابی تحریک کے بانی شیخ محمد بن عبدالوہاب نے دیکھا تھا یہ وہابی اور سعودی اتحاد اس چھوٹی ریاست کو مزید وسعت دینا اور پورے خطے پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ سعودی قبیلہ اس علاقے پر عثمانیوں کے قبضے سے اتنا خوش نہیں تھا

اگلی دہائیوں میں آل سعود نے اپنے عزائم کے مطابق امارت دریہ کو ارد گرد کے علاقوں تک پھیلا دیا اور آج کے سعودی عرب کا بڑا حصہ ان کے زیر اثر آچکا تھا۔ 1806 تک مکہ اور مدینہ کا کنٹرول حاصل کر لیا حجاز کا یہ خطہ عثمانیوں کے مقرر کردہ ہاشمی قبیلے کی حکومت میں تھا اور یہ لوگ اس کے وفادار تھے انہیں شریف مکہ کہا جاتا تھا، آل سعود کی یہ کامیابی ہاشمیوں کے خلاف عثمانی ان کے لیے بہت بڑی غلطی نکلے جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا جب سعودیوں نے ہاشمیوں کو شکست دے کر حجاز مقدس پر قبضہ کر لیا تو عثمانی سلطان نے یہ علاقہ واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ مصطفی چہارم نے مصر کے گورنر محمد علی پاشا کو حجاز پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کا کام سونپا اور اپنے بیٹوں کو یہاں بھیجا اور وہ سعودی افواج کو یہاں سے بھگانے میں کامیاب ہو گئے 1812 تک مکہ اور مدینہ ایک بار پھر اس کے زیر اثر آ گئے۔ عثمانیوں نے بعد میں حجاز کی ہاشمی سلطنت کو بھی بحال کر دیا اس فتح کے بعد ابراہیم پاشا نے آل سعود کی سلطنت پر حملہ کر کے پہلی سعودی ریاست \”امارت دریہ\” کا خاتمہ کر دیا،

سعودی حکمران عبداللہ ابن سعود کو گرفتار کر کے عثمانی دارالحکومت قسطنطنیہ لایا گیا۔ اور یہاں ایک ہجوم کے سامنے اس کا سر قلم کر دیا گیا اس دوران ترک فوجیں ریاض کے علاقے نجد میں موجود رہیں اور ارد گرد کے علاقوں میں ہلکی پھلکی جھڑپیں بھی ہوتی رہیں اور سعودیوں نے بھی کچھ علاقے ترکوں سے واپس لے لیے 1823 میں ترکی بن عبداللہ السعود نے ایک اور سعودی مملکت کی بنیاد رکھی اور اسے \”امارت نجد\” کا نام دیا گیا، یہ نئی سعودی مملکت بھی تیزی سے پھیلنے لگی لیکن جلد ہی انہیں ایک نئے دشمن کا سامنا کرنا پڑا یہ نیا دشمن الراشدی سلطنت تھی حائل کے علاقے کے راشدیوں اور نجد کے سعودیوں کے درمیان پھر سے زبردست جھڑپیں ہوئیں۔

انیسویں صدی میں جگہ کبھی ایک کی پلکیں بھاری ہوتی تھیں تو کبھی دوسرے کی یہاں یہ بات یاد رہے کہ اس دوران آل سعود ترکوں کو اپنا حکمران تسلیم کر رہے تھے، حالانکہ وہ اسے دل سے پسند نہیں کرتے تھے ، اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا۔ ایک اور بات کا خیال رکھیں کہ وہ حجاز مقدس پر حملہ کرنے سے باز رہے اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ ایک بار پھر عثمانیوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے دوسری وجہ یہ تھی کہ برطانیہ اور عثمانیوں کے درمیان تعلقات اتنے خراب نہیں تھے۔ آل سعود کو برطانیہ سے مدد مل رہی تھی اس وقت حجاز پر حملہ کرنا تباہی کے مترادف تھا ترکی ابن سعود کے بعد فیصل ابن سعود اگلے سعودی حکمران بنے وہ ایک بہترین سفارت کار اور مدبر تھے اپنے دور حکومت میں آل سعود کا نیا دور شروع ہوا۔ اس نے اپنی سلطنت کو مضبوط کیا، جب 1865 میں اس کا انتقال ہوا تو سلطنت بکھرنے لگی الرشید ایک بار پھر خطرے کے طور پر ابھرا یہ لوگ اب اتنے طاقتور ہو چکے تھے کہ 1891 میں انہوں نے ریاض پر بھی قبضہ کر لیا، اس طرح ال کی بادشاہت سعود مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ اس شکست کے بعد آل سعود قبیلے کے بیشتر افراد کویت جلاوطن کر دیے گئے جلاوطن ہونے والوں میں اس وقت کے سعودی حکمران عبدالرحمٰن ابن فیصل اور ان کے بیٹے عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن آل سعود بھی شامل تھے عبدالعزیز نے اپنے والد کی جگہ سربراہ مقرر کیا۔

جلاوطنی کے دوران کویت میں موجود خاندان کا وہ اس جلاوطنی کی زندگی سے بالکل بھی مطمئن نہیں تھا اس نے الرشید سے بدلہ لینے اور نجد پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کا فیصلہ کیا 1902 میں وہ مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ ریاض میں داخل ہوا اور واپسی پر اس نے ان کو قتل کر دیا۔ راشدی گورنر اور ریاض پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا اس کے بعد اس نے الراشد سے مزید علاقے چھیننے شروع کر دیے جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے عبد العزیز نے الاحساء کے علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا اس میں الاخوان کا بھی بڑا کردار تھا۔ یہ فتوحات یہ فوج خانہ بدوش قبائل پر مشتمل تھی جو صحرا کی سختیوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے جب جنگ عظیم شروع ہوئی تو عثمانیوں نے مرکزی طاقتوں کا ساتھ دیا جو اتحادیوں کے مخالف بلاک تھے اس صورتحال میں برطانیہ کو ایک حامی کی ضرورت تھی۔ عرب خطے میں انہوں نے عبدالعزیز کی کھل کر حمایت کی بلکہ برطانیہ نے بھی اس دوران سعودی راشد کی جنگ میں آل سعود کو ہتھیاروں کی صورت میں مدد فراہم کی،

بدلے میں انہوں نے سعودیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ کویت، بحرین اور عمان میں مداخلت نہیں کریں گے۔ عرب بغاوت عظیم جنگ کے دوران ہی شروع ہو چکی تھی یعنی عربوں نے عثمانیوں کے خلاف بغاوت کر دی حالانکہ سعودیوں نے جزیرہ نما عرب پر عثمانیوں کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا اور وہ اس کے شدید مخالف تھے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ عثمانیوں کے خلاف اس بغاوت کا ہرگز حصہ نہیں بلکہ اس کا آغاز ان کے اپنے وفادار شریف مکہ حسین ابن علی الہاشمی نے کیا تھا اور ان کے صاحبزادے برطانیہ نے عثمانیوں کے خلاف کسی بھی تحریک کی بھرپور حمایت کی تھی انہوں نے یہاں بھی خطوط کے تبادلے میں ایسا ہی کیا۔ مکہ کے شریف، برطانیہ نے بھی جنگ کے بعد اسے ایک آزاد عرب ریاست دینے کا وعدہ کیا تھا جنگ عظیم کے دوران ہی لارنس آف عریبیہ نامی ایک کردار بھی نمودار ہوا جو جنگ کے دوران عربوں کو برطانیہ کی حمایت کا یقین دلانے کے لیے ایک ایجنٹ کے طور پر آیا تھا۔

برطانوی فوج کے ساتھ اس نے بغاوت میں عربوں کی مدد بھی کی اور انہیں متحد کیا، جنگ عظیم کے بعد سعودی عرب کی تشکیل میں اس کا صرف یہی کردار تھا، وہ جنگ کے بعد یہاں سے برطانیہ واپس آیا، پورے جزیرہ نمائے عرب کو نہیں بلکہ اس کے علاقے۔ عراق اور اردن وغیرہ ہاشمیوں کو دیے گئے ہوں گے جہاں شریف مکہ کے بیٹے حکمران مقرر ہوئے تھے، اردن کا حکمران اب بھی اسی ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتا ہے عراق میں، تاہم، ہاشمی سلطنت صرف 1958 تک قائم رہی۔ خلافت عثمانیہ ختم ہو چکی تھی، حجاز پر ہاشمیوں کا کنٹرول تھا۔ جب آل سعود نجد کے علاقے پر حکومت کر رہے تھے اور اس کے ساتھ الحسّہ دونوں ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے اور پورے جزیرہ نما عرب کو مسخر کرنا چاہتے تھے تاہم اس دوران سعودیوں نے 1920 میں عسیر کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور راشدیوں کو شکست دی۔ 1921، شمالی علاقہ الاحساء پر قبضہ کرنے کے لیے وہ پہلے ہی اپنے زیر اثر تھے،

امارت نجد حجاز کے علاوہ تقریباً پورے سعودی عرب پر پھیل چکی تھی چونکہ جنگ عظیم کے دوران ہاشمیوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا تھا، اب حجاز مقدس کو آسانی سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آل سعود برطانیہ بھی ان کا حامی تھا دونوں طرف سے چھیڑی جانے والی جنگ برطانیہ جیسی سپر پاور کو بھی جنگ میں دھکیل سکتی تھی سعودی شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز اس مسئلے کے ممکنہ حل کے لیے 1919 میں پہلے ہی برطانیہ کا دورہ کر چکے تھے وہ برطانیہ کو قائل کرنے میں کامیاب رہے ہاشمیوں اور آل سعود کے درمیان لڑائی میں کسی کا ساتھ دینا برطانیہ نے بظاہر کسی کا ساتھ نہیں دیا

اور 1925 تک سعودیوں نے حجاز کو بھی فتح کر لیا تھا اگلے ہی سال عبدالعزیز نے خود کو حجاز کا حکمران بھی قرار دیا اس نے نجد اور حجاز پر حکومت کی۔ اگلے 6 سال تک الگ الگ مملکتیں رہیں اور آخر کار 1932 میں اس نے دونوں مملکتوں کو ملا کر مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی جسے ہم جدید سعودی عرب کے نام سے بھی جانتے ہیں ابتدا میں یہ ایک غریب ملک تھا لیکن 1938 میں کالا سونا یعنی تیل دریافت ہوا۔ الحسہ خطہ اس کے بعد سعودی عرب نے جو ترقی کی وہ ہم سب کے سامنے ہے یہ تھی سعودی عرب کیسے وجود میں آیا اس کی کہانی

جنگ میں آبدوزوں کا کردار | آبدوز کی تاریخ، حقائق اور اہمیت

Similar Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *