مہاراجہ رنجیت سنگھ کون تھا؟ Who was Maharaja Ranjit Singh? –
یہ بات ہے اٹھارویں صدی کے آخر کی۔ جب ہندوستان پر شاہ عالم ثانی کی برائے نام حکومت تھی۔ مغل سلطنت کا عروج ختم ہو چکا تھا اور انگریزوں کی آمد ہندوستان میں شروع ہو چکی تھی۔ ایسے میں پانچ دریاؤں کی سرزمین پنجاب پر سکھوں کے بارہ آزاد قبیلے یا گروہ تھے۔ سکھ انھیں مثلیں کہتے تھے۔ ہر مثل کی اپنی فوج اور اپنا سردار تھا۔ یہ آپس میں بھی لڑتے رہتے تھے لیکن بیرونی حملے کی صورت میں یہ اکٹھے ہو جاتے تھے۔ اور اس متحدہ فوج کو خالصہ کہتے تھے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کون تھا؟Who was Maharaja Ranjit Singh? –
انھی مثلوں میں سب سے بڑی فوج رکھنے والی مثل گوجرانوالہ کے پاس تھی جسے شکرچکیہ مثل کہتے تھے۔ کہتے ہیں اس کی جنگجوؤں کی تعداد پندرہ ہزار تک تھی۔ لیکن سترہ سو بانوے میں ایک بارہ سالہ لڑکے کو اس مثل کا سردار بنا دیا گیا۔ اور پھر اپنے باپ کا یہ اکلوتا بیٹا، نہ صرف شکر چکیہ مثل بلکہ پورے خالصہ کا سردار بن گیا۔ اس بارہ سالہ نوجوان کے دو بڑے دشمن تھے۔ ایک مغرب سے آنے والے افغانی حملہ آور دوسرے مشرق میں گورے یعنی کمپنی کی حکومت۔
لیکن ایک تیسرا دشمن بھی تھا جس سے اسے روز لڑنا پڑتا تھا اور وہ تھی اس کی اپنی سکھ برادری۔ پاکستانی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے اس لڑکے کو آج دنیا پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے نام سے جانتی ہے۔ میں ہوں فیصل وڑائچ، دیکھو سنو جانو کی وہ کون تھا سیریز میں ہم آپ کو پانچ دریاؤں کی سرزمین کے اسی سکھ مہاراجہ کی کہانی دکھا رہے ہیں۔ سترہ سو ننانوے کا لاہور بھنگی سرداروں کے قبضے میں تھا۔ بھنگیوں سے لاہور کو چھیننا زیادہ م شکل نہیں تھا لیکن اس میں اصل مسئلہ تھا افغانستان سے احمد شاہ ابدالی کے جانشینوں کے حملے۔
وہ کیوں؟ وہ اس لیے کہ جب سے مغلوں کی سطلنت کمزور ہوئی تھی لاہور افغانستان کے حکمران احمد شاہ ابدالی اور اس کے جانشینوں کے کنٹرول میں آ گیا تھا۔ اور وہ کسی دوسرے کے قبضے کوپسند نہیں کرتے تھے اور حملہ کر دیتے تھے۔ اس لیے جب بھنگی سرداروں کا لاہور پر قبضہ ہوا تو احمد شاہ ابدالی کا پوتا شاہ زمان واپس لاہور کی طرف آیا۔ اس نے لاہور پر باآسانی قبضہ کر لیا۔ وہ لاہور کے قلعے میں بیٹھ کر سکھوں سے فیصلہ کن لڑائی کرنا چاہتا تھا لیکن پیچھے کابل میں حالات خراب ہو گئے۔ اسے اپنا تخت خطرے میں محسوس ہوا تو وہ لاہور میں اپنا نمائندہ چھوڑ کر افغانستان واپس چلا گیا۔ لیکن واپسی پر اس کے ساتھ ایک مسئلہ ہو گیا۔
وہ یوں کہ راستے میں اسے دریائے جہلم کراس کرنا پڑا۔ دریا میں طغیانی تھی، بہاؤ تیز تھا، لہریں اونچی تھیں، ایسے میں دریا پار کرتے ہوئے اس کی بہت سی قیمتی توپیں جہلم کے پانیوں میں ڈوب گئیں۔ توپیں اس دور میں جنگ کا اہم ترین ہتھیار تھیں۔ یہ جنگوں میں ویسا ہی اہم کردار ادا کرتی تھیں جیسا کہ آج کل خطرناک میزائل کرتے ہیں۔ یہ توپوں کا نقصان بہت بڑا تھا جسے پورا کرنا بہت ضروری تھا۔ لیکن اس کے لیے شاہ زمان کو وہاں رُک کر دریا کے نیچے ہونے کا انتظار کرنا پڑنا تھا۔ جس کا کہ اس کے پاس وقت نہیں تھا۔ یہ توپیں اس کے لیے اتنی اہم تھیں کہ وہ ان کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا۔ یہاں تک کہ لاہور بھی دے سکتا تھا۔ تو ایسے میں شاہ زمان نے اپنے دشمن یعنی رنجیت سنگھ سے ایک معاہدہ کیا۔
وہ یہ کہ اگر رنجیت سنگھ شاہ زمان کو دریا سے توپیں نکلوا کر بھجوا دے تو وہ لاہور پر اس کی حکومت تسلیم کر لے گا۔ یعنی اسے فتح کرنے کے لیے حملے نہیں کرے گا۔ ویسے بھی اسے اطلاع مل چکی تھی کہ اس کا نمائندہ لاہور کی حفاظت نہیں کر پا رہا ، شہر ایک بار پھر بھنگی سرداروں کے قبضے میں جانے والا ہے۔ سو لاہور کو ایک قابل اور افغانستان کا دوست حکمران چاہیے تھا تا کہ اس کے ہوتے ہوئے افغانستان سے حملہ آور لاہور کا رخ نہ کریں۔ رنجیت سنگھ کو یہ پیشکش قبول تھی۔ سو اس نے آٹھ توپیں دریائے جہلم سے نکلوا کر پشاور بھجوا دیں۔
کیونکہ پشاور اس وقت ابدالیوں کی افغان سلطنت کے زیر اثر تھا۔ پشاور کے عین وسط میں ایک قلعہ ہے جسے ہم بالا حصار کہتے ہیں۔ یہ قلعہ احمد شاہ درانی کے زیر استعمال رہا ہے۔ آج کل یہاں فرنٹئیر کور کا ہیڈکوارٹر ہے۔ تو اب رنجیت سنگھ نے افغانستان کو تو ساتھ ملا لیا لیکن پھر بھی لاہور کو باقاعدہ فتح کرنے کا کام اسے ہی کرنا تھا۔ ادھر لاہور میں بھی لاہورئیے کسی مستقل حکومت کے نہ ہونے سے بہت پریشان تھے۔ وہاں نااہل بھنگیوں کی آپسی لڑائیوں کے باعث کسی کی جان محفوظ تھی اور نہ عزت اور مال۔ تو ایسے میں شہر کے لوگوں کو ایک طاقتور، مقامی اور مستقل حکمران کی کمی محسوس ہوتی تھی۔
شہر کے چند بڑوں کے خیال میں رنجیت سنگھ اس کمی کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ تو ایسے میں رنجیت سنگھ سے رابطہ کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ شہر کے مسلمانوں سمیت کئی اہم لوگوں نے مل کر رنجیت سنگھ کو لاہور کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے خطوط بھی لکھے۔ رنجیت سنگھ پہلے سے تیار بیٹھا تھا۔ ایسے میں اس کی طاقتور ساس نے بھی اس کی مدد کی۔ یہ اچانک اس کی ساس کہاں سے آ گئی؟ تو قصہ یہ تھا کہ رنجیت سنگھ کی شادی ایک طاقتور مثل کنیہا مثل میں ہوئی تھی۔ جہاں اس کی ساس سداکور کا حکم چلتا تھا۔ سدا کور کو بھی لاہوریوں کی پریشانی کا اندازہ تھا۔ اسے رنجیت سنگھ کو لاہوریوں کی طرف سے بھیجے جانے والے خط کا بھی علم تھا۔ وہ سیانی خاتون تھی اس نے رنجیت سنگھ کو قائل کر لیا کہ اگر تم نے لاہور پر حکمرانی قائم کر لی تو پورا پنجاب تمہارا ہو گا۔
کیونکہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جو لاہور پر حکومت کرتا ہے وہی پنجاب کے تخت پر بھی بیٹھتا ہے۔ بات رنجیت سنگھ کی سمجھ میں آ گئی۔ اس نے لاہور میں جاسوس بھیج دئیے۔ لاہور کے طاقتور لوگ اور خصوصاً مسلمان بھنگیوں کے خلاف رنجیت سنگھ کے ساتھ ہو گئے۔ انھوں نے شہر کا دروازہ کھولنے کا وعدہ کر لیا۔ تو جولائی سترہ سو ننانوے میں رنجیت سنگھ جب لاہور کے لیے چلا تو تین بھنگی سرداروں میں سے دو تو شہر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ تیسرا سردار چت سنگھ شہر کے اندر مورچہ زن ہو گیا۔ لیکن جب رنجیت سنگھ سے سازباز کرنے والوں نے شہر کے دوازے ہی کھول دئیے۔
تو چت سنگھ 500 سپاہیوں کے ساتھ حضوری باغ میں تلواریں نکال کر کھڑا ہو گیا۔ یہ وہی حضوری باغ ہے جو بادشاہی مسجد اور شاہی قلعے کے درمیان واقعہ ہے۔ اب ظاہر ہے مقابلہ تو ہو نہیں سکتا تھا۔ اس نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دئیے۔ رنجیت سنگھ نے اس کی جان بخشی کرتے ہوئے اسے خاندان سمیت شہر بدر کر دیا۔ یوں سترہ سو ننانوے میں لاہور بغیر کسی خون ریزی کے رنجیت سنگھ کے راج میں آ گیا۔ لاہور کی فتح رنجیت سنگھ کی زندگی کا اہم ترین واقعہ تھا کیونکہ یہیں سے سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ لاہور میں ہی دو سال بعد اس کا پہلا بیٹا کھڑک سنگھ پیدا ہوا۔ جس کے لیے چالیس دن کا جشن منایا گیا اور اٹھارہ سو ایک میں ہی بیساکھی کے میلے میں رنجیت سنگھ کو مہاراجہ کا خطاب دے دیا گیا۔ باقاعدہ تاج پوشی ہوئی اور پنجاب کی پہلی سکھ سلطنت کی بنیاد رکھ دی گئی۔
اب رنجیت سنگھ مثل شکرچاکیہ کا سردار نہیں بلکہ ایک مہاراجہ تھا جس کا راج لاہور سے بھی آگے بڑھنے کو تیار بیٹھا تھا۔ اب رنجیت سنگھ کے بڑھتے قدموں کو روکنا مشکل ہو رہا تھا۔ رنجیت سنگھ ایک کے بعد ایک جاگیر کو باجگزار بناتا جا رہا تھا۔ یعنی ایسی جاگیر جس کا سربراہ رنجیت سنگھ کو ٹیکس ادا کرنے کا پابند ہو۔ لاہور کے بعد جموں، پھر نور پور، چنیوٹ اور جھنگ بھی رنجیت سنگھ کے راج کا حصہ بن گیا۔ اٹھارہ سو تین تک رنجیت سنگھ کا راج راولپنڈی کو چھو رہا تھا۔ اب لاہور سے پنڈی کے راستے کے تمام جاگیر دار، رنجیت سنگھ کے باجگزار تھے۔
لیکن اسے اپنے راج کی شان کے لیے ایک توپ چاہیے تھی۔ یہ توپ تھی زمزمہ توپ۔ 1805 میں رنجیت سنگھ نے امرتسر پر قابض بھنگیوں سے مطالبہ کیا، کہ وہ ان کے دادا کے ساتھ کئے گئے وعدے کے مطابق بھنگیوں کی مشہور زمانہ ’زمزمہ‘ توپ اس کے حوالے کر دے۔ بھنگی ابھی لاہور کی شکست نہیں بھولے تھے۔ انھوں نے انکار کر دیا اور رنجیت سنگھ نے امرتسر پر حملہ کر دیا۔ جیسے بھنگی لاہور میں اسے نہیں روک پائے تھے، امرتسر میں صورتحال اس سے بھی تھوڑی نازک رہی۔ دو گھنٹے میں شہر فتح ہو گیا۔ اور زمزمہ توپ آج لاہور کے عجائب گھر کے باہر پنجاب یونیورسٹی کی دمیارنی سڑک پر رکھی ہے۔ جسے آپ آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ امرتسر کی فتح انگریزوں پر توپ کا گولہ بن کر گری جو مغربی ہندوستان یعنی پنجاب، سندھ کے علاوہ تقریباً سارے ہندوستان پر قبضہ کر چکے تھے۔
اب رنجیت سنگھ کی کامیابی سے وہ دوہری مشکل میں گرفتار ہو گئے۔ ایک مشکل تو یہ تھی کہ ان کے مغرب میں ایک سکھ ریاست مضبوط ہو چکی تھی۔ لیکن دوسری مشکل یہ تھی کہ ان کا سب سے بڑا دشمن، فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کسی بھی وقت ہندوستان کا رخ کر سکتا تھا۔ اور رنجیت سنگھ کی شکل میں اسے ہندوستان میں ایک اتحادی مل سکتا تھا۔ یہی خطرہ انھیں چند سال پہلے ٹیپو سلطان سے جنگ کے دوران بھی پیش آ چکا تھا۔ اس لیے انھوں نے اس کا حل ایک معاہدے کی شکل میں نکالا۔ اٹھارہ سو نو میں ہونے والے اس معاہدے کو معاہدہ امرتسرکہتے ہیں۔
اس کی روح سے انگریز دریائے ستلج کے اُس پار یعنی مغربی کنارے سے آگے رنجیت سنگھ کی عمل داری تسلیم کریں گے۔ اور رنجیت سنگھ دریائے ستلج کے اِس پار مشرقی سمت انگریزوں کی حکومت کی عملداری میں کوئی مشکل پیدا نہیں کرے گا۔ معاہدے کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر نپولین ہندوستان پر حملہ کرنے لگے تو رنجیت سنگھ دفاع کے لیے انگریزوں کی مدد کرے گا۔ دوسرے الفاظ میں وہ نپولین کا کا نہیں بلکہ ایک طرح سے انگریزوں کا اتحادی رہے گا۔ اس معاہدے نے انگریزوں کے لیے پنجاب کو ایک بفر زون بنا دیا یعنی کمپنی حکومت کے لیے سٹریٹیجک ڈیپتھ۔ مطلب اب اگر نپولین یا افغان، کمپنی کی حکومت پر مغرب سےحملہ کرتا ہے
، تو انھیں پہلے رنجیت سنگھ سے ٹکرانا ہو گا۔ رنجیت سنگھ کو اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے ستلج اور دریائے سندھ یعنی انڈس ریور کے درمیان کے تمام علاقوں کو اپنی جاگیر میں شامل کر لیا۔ کچھ علاقوں پر اس کا قبضہ تھا، کچھ اسے لگان دیتے تھے اور کچھ اس کی حاکمیت تسلیم کرتے تھے اس کے راج کو مانتے تھے۔ اس سب کے باعث اب رنجیت سنگھ کو اپنی طاقت کا احساس ہونے لگا تھا۔ لیکن ایک اور چیز بھی تھی جس سے طاقت کا احساس دو چند سکتا تھا لیکن وہ رنجیت سنگھ کے پاس نہیں تھی۔ اور یہ چیز ایسی تھی کہ جس کے پاس ہو وہ دنیا کا ایک طاقتور حکمران سمجھا جاتا تھا۔ اس کی سمبولک اہمیت تھی اور یہ چیز تھی کوہ نور۔ دنیا کا سب سے بڑا ہیرہ۔
کوہ نور مغل بادشاہ رنگیلا شاہ سے ایرنی حکمران نادر شاہ نے لیا تھا، جس سے اس کے جرنیل احمد شاہ ابدالی کے پاس آیا جس کے تخت میں افغانستان بھی شامل تھا۔ اس کے بعد یہ ہیرہ ہوتا ہوتا اس کے پوتے شاہ شجاع کے پاس پہنچا۔ شاہ شجاع افغان صوبے قندھار کا والی تھا۔ لیکن اس کے دشمنوں نے اس کا تخت چھین لیا۔ لیکن وہ جان بچا کر کسی نہ کسی طرح رنجیت سنگھ کی قید نما پناہ میں آ گیا۔ جلد ہی رنجیت سنگھ کو پتا چل گیا کہ ہندوستان کی شان کوہ نور شاہ شجاع کے پاس ہے۔ یہ تو اسے پتا چل گیا کہ کوہ نور کس کے پاس ہے لیکن ہے کہاں؟ یہ اسے نہیں پتا تھا۔
یہ پتا تھا صرف شاہ شجاع کو۔ اب رنجیت سنگھ کے لیے مشکل یہ تھی کہ وہ شاہ شجاع کو قتل کر کے یا مار پیٹ کر کے ہیرہ نہیں نکلوا سکتا تھا۔ کیونکہ رنجیت سنگھ افغانستان میں شاہ شجاع کے حامیوں کو اپنے خلاف نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کیا پتا کل کلاں پھر شاہ شجاع کے حامیوں کی حکومت آ جائے اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔ دوسری طرح شاہ شجاع انگریزوں کا بھی اتحادی تھا۔ تو لب لباب یہ تھا کہ شاہ شجاع کے ساتھ زبردستی نہیں ہو سکتی تھی۔ اور شاہ شجاع ظاہر ہے اپنے خوشی سے تو یہ ہیرہ رنجیت سنگھ کو دینے والا تھا نہیں۔ لاہور میں موچی گیٹ سے تھوڑا آگے جائیں تو پرانے اندرون اکبری گیٹ کے پاس ایک بڑی حویلی ہے جسے مبارک حویلی کہتے ہیں۔
لاہور کی مشہور نثار حویلی بھی اسی کا ایک حصہ ہے جہاں سے ہر سال محرم کا جلوس نکلتا ہے۔ اسی مبارک حویلی میں شاہ شجاع اور اس کا خاندان قید تھا یہ بطور مہمان رہ رہا تھا۔ تو اٹھارہ سو تیرہ میں رنجیت سنگھ نے کوہ نور لینے کے لیے مبارک حویلی کی ناکہ بندی کروا دی۔ یعنی شاہ شجاع اور اس کے گھروالے نہ تو باہر نکل سکتے تھے اور نہ ہی ان کیلئے کھانے پینے کا سامان حویلی میں جا سکتا تھا۔ اندورن لاہور اور مئی کی گرمی۔ سابق حکمران خاندان ک ے لیے یہ سخت تنگی کے دن تھے۔ شاہ شجاع کے بچوں کا بھوک، پیاس اور گرمی سے برا حال تھا۔ ایسے میں اس نے رنجیت سنگھ کو ایک پیغام بھجوایا۔ پیغام یہ تھا کہ وہ کوہ نور رنجیت سنگھ کو دے تو دے گا لیکن اس کے لیے رنجیت سنگھ کو اس سے خود ملنا ہو گا، ہیرا کسی کے ذریعے نہیں بھجوایا جائے گا۔
رنجیت سنگھ تیار ہو گیا اور یوں تاریخ کا وہ یادگار مکالمہ سامنے آیا جس کی بازگشت آج بھی تاریخ میں گونج رہی ہے۔ رنجیت سنگھ، شاہ شجاع کے سامنے آیا اور ہیرہ وصول کیا تو ظاہر ہے مہاراجہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس نے شاہ شجاع سے پوچھا ’’یہ ہیرا کتنے کا ہو گا؟ اس کی قیمت کیا ہے؟‘‘ شاہ شجاع کا جواب تھا ’’اس کی قیمت ’طاقت‘ ہے۔ یہ ہم نے طاقت کے ذریعے مغل وں سے چھینا تھا، پھر جس کے پاس طاقت تھی اس نے ہم سے چھین لیا اور اب جس کے پاس طاقت ہو گی وہ تم سے چھین لے گا۔‘‘ تاریخ کا طنز دیکھئے کہ ہوا بھی یہی۔
شاہ شجاع کے مطابق اس کے ساتھ رنجیت سنگھ نے اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔ شاہ شجاع اتنا تنگ ہوا کہ اس نے فرار کا منصوبہ بنا لیا۔ پہلے اس نے اپنے خاندان کی خواتین کو ایک ایک کر کے حویلی سے باہر نکالا اور لدھیانہ پہنچا دیا۔ جب رنجیت سنگھ کو خبر ملی کی شاہ شجاع کا خاندان فرار ہو رہا ہے تو اس نے مبارک حویلی پر پہرہ دوگنا کر دیا۔ لیکن شاہ شجاع نوجوان اور تیز انسان تھا۔ اس نے کچھ جانثار وفاداروں کو ساتھ ملایا۔ ایک رات میں کئی کمرے بدلے تھے، اپنے بستر پر ایک وفادار کو سلایا تھا، فقیر کا بھیس بدلا تھا، پھر چھت میں ایک شگاف بنا کر حویلی سے نکل گیا۔ حویلی سے تو وہ نکل گیا لیکن شہر سے نکلنا اس سے بھی بڑا مسئلہ تھا۔ کیونکہ شہر کے سارے دروازے بند تھے اور سخت پہرے میں تھے۔ اسی لیے شجاع درانی ایک نکاسی آپ کے گندے نالے میں کود گیا۔ اور جانتے ہیں کس جگہ سے باہر نکلا۔ موری دروازے سے۔ جب وہ نالے سے نکلا تو گندگی میں لت پت تھا۔
بات مشہور ہے جانے سچی ہے یا داستان طرازی لیکن کہتے ہیں اس موقع پر اس نے شہر کی طرف دیکھا اور کہا تھا، کہ ’’لاہوری لش پش بوہتی محبت تھوڑی، وکھاون بُوا لنگاون موری‘‘ یعنی لاہور کے لوگوں میں دکھاوا تو بہت ہے، مگر سچی محبت کم ہے۔ اور یہ لوگ کھلے دروازے دکھاتے ہیں لیکن واپسی کے لیے خفیہ راستوں کا انتحاب کرنا پڑتا ہے۔ اب شاہ شجاع نے لاہور میں رہ کر پنجابی سیکھ لی تھی یا یہ اس کے پشتو جملے کا یہ پنجابی ترجمہ تھا یہ تو یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ شاہ شجاع موری گیٹ سے نکل کر داتا دربار ضرور پہنچا، یہاں اس نے خود کو صاف کیا اور کپڑے بدل کر لدھیانہ اپنے خاندان کے پاس پہنچ گیا۔ یہ بات ہے اٹھارہ سو سولہ کی اور اس وقت اس جلاوطن والی قندھاری کی عمر تھی انتیس سال۔ تو لدھیانہ میں ہی کچھ دیر بعد شاہ شجاع نے خود کو انگریزوں کی پناہ میں دے دیا۔ شاہ شجاع دوبارہ افغانستان میں اپنی حکومت چاہتا تھا
لیکن اس کے لیے اسے رنجیت سنگھ یا انگریزوں میں سے ایک کی مدد چاہیے تھی۔ یاد رہے کہ اس وقت افغان سردار دریائے سندھ کے کنارے تک سارے علاقے کو اپنی سلطنت سمجھتے تھے۔ جس میں پشاور اور پاکستان کے موجودہ قبائلی علاقے جو فاٹا بھی کہلاتے ہیں وہ بھی شامل تھے۔ رنجیت سنگھ بھی دریائے سندھ کے پار اپنی سلطنت پھیلانا چاہتا تھا۔ سو اس نے اٹھارہ سو اٹھارہ میں پشاور پر حملہ کر دیا۔ شہر کے حاکموں نے مزاحمت کیے بغیر شہر چھوڑ دیا اور پہاڑی دروں میں مورچے بنا لیے۔ اب رنجیت سنگھ پشاور پر قابض تو ہو گیا تھا لیکن یہ قبضہ برقرار رکھنا ایک کام تھا۔ کیونکہ افغانوں اور قبائیلوں کے حملے مستقل تھے اور بہت شدید تھے۔ سکھوں کی حکومت کو پٹھانوں نے قبول نہیں کیا تھا۔ اور ان کے خلاف افغانی اور سرحدی پٹھان لشکر پر لشکر تیار کر رہے تھے۔
ایسا ہی ایک لشکر تحریک مجاہدین کا بھی تھا جس کی قیادت کر رہے تھے سید احمد شہید۔ یہ لشکر پہلی بار سکھوں کی فوج سے باجوڑ میں ٹکرایا اور سکھوں کو شکست ہوئی۔ سید احمد شہید نے اٹھارہ سو اکتیس میں پشاور پر بھی اپنی حکومت قائم کر لی۔ اب رنجیت سنگھ کے لیے افغان سرداروں کی طرح ایک بڑا چیلنج سید احمد شہید کا لشکر بھی تھا۔ لیکن ایسے میں ہوا یہ کہ پٹھانوں کے کئی اہم سردار اور قبائلی، سید احمد کے خلاف ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ سید احمد نے خود کو خلیفہ اور امیر کہلانا شروع کر دیا تھا۔ کچھ پٹھان سرداروں کو خوف تھا کہ سید کی تحریک کامیاب ہوئی تو ان کی سرداری ختم ہو جائے گی۔ اس لیے انھوں نے سید احمد کی تحریک، جسے وہ تحریک مجاہدین کا نام دیتے تھے، اس سے ہاتھ کھینچ لیا۔ مرحلے پر انھوں نے تحریک کیلئے چندہ دینا بند کیا اور پھر دوسرے مرحلے میں اس تحریک کے اہم لوگوں کی مخبری اور ان پر حملے شروع کر دیئے۔ اس ساری صورتحال سے مقابلے کے لیے سید احمد شہید نے بالاکوٹ میں اپنے جنگجوؤں کو جمع ہونے کا حکم دیا۔ ان کا ارادہ تھا کہ کشمیر چلے جائیں اور مجاہدین کو منظم کریں۔
اٹھارہ سو اکتیس میں جب وہ بلاکوٹ ہی میں تھے کہ رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ نے ایک بڑے لشکر کے ساتھ انھیں گھیر لیا۔ سکھ پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے ان کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ لیکن مقابلہ خوب ہوا۔ سید احمد کے جانثار اور سکھوں کا لشکر دونوں خوب ڈٹ کر لڑے۔ لیکن اس لڑائی میں سید احمد شہید اور ان کے شاگرد شاہ اسماعیل شہید ہو گئے۔ ان کی قبریں آج بھی بالاکوٹ میں موجود ہیں۔
یوں رنجیت سنگھ کے لیے ایک خطرہ جو سرحدی علاقوں سے آیا تھا ٹل گیا۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ رنجیت سنگھ کو جب پتا چلا کہ اس کے بیٹوں نے سید احمد اور شاہ اسماعیل کو شہید کر دیا ہے تو وہ غصے میں آ گیا۔ کیونکہ وہ مسلمانوں میں سیدوں کے مقام و مرتبے کو سمجھتا تھا۔ اس نے اپنے بچوں سے بولا ’’تم سیدوں کو مار آئے ہو اب ہماری خیر نہیں۔‘‘ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فتوحات کا سلسلہ اس کی زندگی کے آخر تک جاری رہا۔ اپنی موت سے تین سال پہلے اٹھارہ سو چھتیس تک وہ ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور بنوں کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کر چکا تھا۔ اس دور میں خیبرپختونخوا میں بڑی تعداد میں سکھ بھی آباد ہوئے جو آج بھی وہاں آباد ہے۔
اس دوران ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ فرانسیسی شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کو واٹرلو کی جنگ میں شکست ہوئی۔ نپولین کے چار جرنیل، جن میں جنرل ونچورا بہت مشہور ہے، واٹر لو کی جنگ کے بعد پنجاب آ گئے۔ انھوں نے راجہ رنجیت سنگھ کے پاس ملازمت کر لی۔ لاہور میں لوئر مال پر یہ جو سول سیکریٹریٹ کی بلڈنگ ہے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے کم ہی لوگوں نے سوچا ہو گا کہ یہ بلڈنگ انگریزوں نے نہیں بلکہ رنجیت سنگھ کے دور میں فرانسیسیوں کی نگرانی میں بنی تھی اور اپنے لیے ہی بنوائی تھی۔ یہ عمارت ایک فرانسیسی جنرل جین فرانسس ایلرڈ کا گھر تھی۔ جنرل ایلرڈ سکھ سپاہیوں کا ٹرینر بھی تھا اور اتنی سخت ٹریننگ دیتا تھا کہ کئی کئی جوان فرار کرنے کوششوں میں رہتے تھے۔
اس کی تربیت پر ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ ایک سکھ سپاہی ٹریننگ کے دوران رو پڑا، تو جنرل ایلرڈ نے اسے گولی مار دی اور کہا کہ یہ شخص خالصہ یعنی سکھ فوج کیلئے شرمندگی کا باعث ہے۔ یاد رہے کہ فرانسیسی جرنیلوں کی زیرِ کمان فورسز مہاراجہ کی عام فورسز نہیں بلکہ ایلیٹ فورسز تھیں۔ جنرل ایلرڈ اور اس کی بیٹی میری شارلیٹ کی قبریں منشی چیمبرز میں آج بھی موجود ہیں۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ کے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے کابل فتح کیا تھا۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ کابل انگریزی فوج نے اٹھارہ سو انتالیس میں فتح کیا تھا اور شاہ شجاع کو تخت پر بٹھایا تھا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ راجہ رنجیت سنگھ نے معاہدے کے تحت اس مہم میں انگریزوں کی مدد ضرور کی تھی۔
لیکن جب رنجیت سنگھ کی سلطنت اپنے عروج پر تھی تو اسے ایک بڑا نقصان بھی ہوا۔ وہ یوں کہ اس کا سب سے قابل جرنیل ہری سنگھ نلوہ جس کی مدد سے اس نے سیالکوٹ، قصور، ملتان، کشمیر، پشاور فتح کیا تھا وہ ہلاک ہو گیا۔ ہری سنگھ نلوہ افغانوں کو شکست دینے کیلئے مشہور تھا۔ پاکستانی علاقے ہزارہ میں ہری پور شہر اسی کی یادگار ہے۔ اس نے افغانوں سے کشمیر اور موجودہ خیبرپختونخوا کے علاقے چھین کر انہیں افغانستان کی موجودہ سرحدوں تک دھکیل دیا تھا۔ آج پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو سرحد ہے، جسے افغان حکومت ڈیورنڈ لائن کہتی ہے۔ یہ دراصل انھی علاقوں سے گزرتی ہے جو رنجیت سنگھ نے افغانوں کو پیچھے دھکیل کر حاصل کیے تھے۔ یہ علاقے سکھوں نے افغانستان کی درانی سلطنت سے چھینے تھے۔
افغانستان آج بھی سرکاری طور پر اس سرحد کو تسلیم نہیں کرتا۔ ہم نے ہسٹری آف پاکستان کی دوسری قسط میں آپ کو بتایا تھا کہ افغانستان نے پاکستان کا قیام تسلیم نہیں کیا تھا۔ تو اس کے پیچھے بھی افغان حکومت کا یہی موقوف تھا۔ حالانکہ ان علاقوں کو افغانستان سے الگ ہوئے تقریباً 200سال ہو چکے ہیں، اور ان میں سے کئی علاقے پہلے بھی کبھی افغانستان کے مستقل کنٹرول میں نہیں رہے۔ بلکہ افغان حکومت کے عارضی تلسط میں جانے سے پہلے یہ ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کا حصہ تھے۔ بلکہ مغلیہ سلطنت تو ایک عرصے تک افغانستان کے مرکز کابل تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہری سنگھ نلوہ سکھ سلطنت کیلئےا نتہائی اہم جرنیل تھا۔
اور راجہ رنجیت سنگھ کو اس کی موت کا دکھ تو تھا لیکن اس سے بھی بڑا دکھ یہ تھا کہ اتنا بڑا جرنیل کسی بڑی جنگ میں نہیں مارا گیا تھا۔ بلکہ ایک وہ چھوٹی سی جھڑپ کی نذر ہو گیا تھا جس سے وہ بڑی آسانی سے بچ بھی سکتا تھا۔ ہوا یوں کہ افغانوں نے پاکستان کی موجودہ خیبرایجنسی کے قریب ایک مقام پر دھاوا بولا تھا۔ یہاں ہری سنگھ نلوا ایک قلعہ بنوا رہا تھا کہ اچانک اس کا سامنا افغان فوج کے ایک گروپ سے ہو گیا۔ یہ گروپ تو چھوٹا سا تھا لیکن اس وقت ہری سنگھ کے پاس اس سے بھی کم سپاہی تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہری سنگھ ساتھیوں سمیت جان گنوا بیٹھا۔
البتہ افغان فوج قلعے پر قبضے میں ناکام رہی۔ رنجیت سنگھ کے دوسرے اہم جرنیل بھی مسلسل جنگوں کی نذر ہو رہے تھے۔ کیونکہ جنگ مسلسل جاری تھی۔ ایسے میں رنجیت سنگھ بھی اپنی صحت سے بہت لاپرواہ ہو چکا تھا۔ بہت زیادہ شراب پینے اور مسلسل جنگوں کی وجہ سے وہ اٹھارہ سے تیس کے بعد وہ بیمار رہنا شروع ہو گیا۔ 1835کے موسم برسات کی ایک رات رنجیت سنگھ کو دورہ پڑا اور اس کا دائیں حصہ مفلوج ہو گیا۔ یہ دورہ اتنا شدید تھا کہ اس کی زبان ساتھ چھوڑ گئی۔ اس کی بات بہت مشکل سے سمجھ آنے لگی۔ اس کے باوجود وہ لاہور میں دربار لگاتا رہا۔ ڈیڑھ سال بعد پھر فالج کا پھر حملہ ہوا جس نے پنجاب کے پہلے سکھ حکمران کو بے بس کر دیا، اتنا بے بس کہ وہ بستر سے لگ گیا۔ اگلے سال تیسرا حملہ ہوا۔ اس تیسرے حملے نے رنجیت سنگھ سے بولنے کی طاقت بالکل ہی چھین لی۔ سب دیکھ رہے تھے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ شاید اب نہ رہے۔
اس وقت انگریزوں نے بھی اسے علاج کی پیشکش کی جسے رنجیت سنگھ نے ٹھکرا دیا۔ لیکن رنجیت سنگھ اپنے وزیرخارجہ فقیر عزیزالدین جو اس کا ذاتی معالج بھی تھا اور سب سے قریبی مشیر بھی، صرف اسی سے علاج کرواتا رہا۔ آخری وقت میں جب ہر امید ختم ہو گئی تو نذرانے بھی دئیے گئے۔ ہاتھی، گھوڑے اور سونے چاندی کی مورتیاں تقسیم کی گئیں۔ ایک وقت میں دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے پنجاب بھر میں جانور ذبح کرنے پر پابندی تک لگا دی گئی۔ لیکن یہ سب کسی کام نہ آیا۔ اور ستائیس جون اٹھارہ انتالیس کو رنجیت سنگھ مر گیا۔ آخری رسومات لاہور کے شاہی قلعے اور مینار پاکستان کے درمیان ٹھیک اس جگہ ادا کی گئیں جہاں آج رنجیت سنگھ کی مڑی یا سمادھی ہے۔ اس کی چار بیویوں اور سات لونڈیوں نے اس کی چتا پر زندہ جل مرنے کا اعلان کر دیا۔ یاد رہے کہ ہندوستان میں اس وقت ستی کی رسم عام تھی جس میں شوہر کی موت پر یعنی پتی کی موت پر اس کی پتنی ساتھ جل مرتی تھی۔ یہ رسم انگریز دور میں زبردستی ختم کروائی گئی تھی۔
سو آخری رسومات سے پہلے رنجیت سنگھ کے جسم پر صندل ملا گیا اور اسے شاہی پوشاک پہنائی گئی۔ ارتھی کے جلوس کی رہنمائی وہ رانیاں کر رہی تھیں جنہوں نے رنجیت سنگھ کی لاش کے ساتھ ستی ہونا تھا۔ صندل کی لکڑیوں پر لاش کو رکھ دیا گیا۔ چاروں رانیاں اور ساتوں لونڈیاں بھی اس کے اوپر بیٹھ گئیں۔ ایک رانی نے رنجیت سنگھ کا سر اپنی گود میں رکھا ہوا تھا کہ ایسے میں کھڑک سنگھ نے ایک چادر گھی میں بھگو کر ستی ہونے والیوں پر ڈال دی۔ جس کے بعد چتا کو آگ لگا دی گئی۔ چتا جلانے کے چوتھے روز مہاراجہ کی راکھ اور ہڈیاں جمع کر کے گنگا میں بہانے کے لیے روانہ کر دی گئیں۔ رنجیت سنگھ کے دور میں سلطنت لاہور کی حدود سندھ سے لے کر چین، افغانستان اور دہلی تک پھیل گئی تھی۔ اتنی بڑی سلطنت کو سنبھالنا اس کے جانشینوں کے بس کی بات نہیں تھی۔ رنجیت سنگھ کے بعد اس کا بیٹا کھڑک سنگھ، اس کی وصیت کے مطابق مہاراجہ بنا۔ لیکن اب راج زوال کا شکار تھا۔ مختصر وقت میں رنجیت سنگھ کے بیٹے ایک ایک کر کے مہاراجہ بنتے رہے۔
لیکن سلطنت کمزور ہوتی چلی گئی۔ پھر اٹھارہ سو پنتالیس اور اڑتالیس میں سکھوں کی انگریزوں کے ساتھ دو جنگیں ہوئیں۔ دوسری جنگ اٹھارہ سو اڑتالیس میں یوں ختم ہوئی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے لاہور پر قبضہ کر لیا۔ یوں ہندوستان کی آخری آزاد سلطنت پنجاب بھی انگریزوں کے قبضے میں چلی گئی۔ آخری وقت لاہور کے تخت پر رنجیت سنگھ کا دس سالہ بیٹا دلیپ سنگھ بیٹھا تھا۔ انگریزوں نے دلیپ سنگھ کو لندن بھیج دیا جہاں اس نے خود اپنے ہاتھوں سے کوہِ نور ہیرا ملکہ وکٹوریہ کو پیش کیا۔ اور یوں شاہ شجاع کی تاریخی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ اس موقع پر کہا گیا کہ چونکہ انگریز پرانی جنگوں میں سکھوں کی مدد کرتے رہے تھے اس لئے یہ ہیرا تحفے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک سو پانچ قیراط کا کوہِ نور آج بھی ملکہ برطانیہ کے تاج کا حصہ ہے اور اسے ٹاور آف لندن میں محفوظ کیا گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ہی اس ہیرے پر اپنا حق جتاتے ہیں۔
برطانیہ میں پاکستانی اور برطانوی شہریوں نے تو کوہِ نور کی واپسی کیلئے مقدمات بھی دائر کئے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ انگریزوں نے رنجیت سنگھ کے دربار سے صرف کوہِ نور ہی نہیں لوٹا تھا بلکہ پورے ہندوستان سے بہت کچھ لوٹ کر برطانیہ منتقل کر دیا تھا۔ صرف اس بات سے اندازہ لگائے کہ ملکہ وکٹوریا نے اٹھارہ سو چھپن میں لاہور سے لوٹے گئے ہیروں کا ایک ہار بھی بنوایا تھا۔ یہ ہار اپنے دور کا سب سے مہنگا ہار تھا اور اسے کارونیشن نیکلس کہا جاتا ہے۔ اس ہار کا مرکزی ہیرہ لاہور ڈائمنڈ کہلاتا ہے۔ برطانوی شاہی خاندان آج بھی یہ ہار استعمال کر رہا ہے۔ رنجیت سنگھ کا بیٹا دلیپ سنگھ کچھ عرصہ برطانیہ میں رہا،
انگریزی تعلیم حاصل کی۔ اسے برطانیہ سے وظیفہ بھی ملتا تھا۔ لیکن دلیپ سنگھ جوان ہوا تو انگریزوں کے خلاف ہو گیا۔ وہ روس کی مدد سے اپنے باپ کا تخت دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن ناکام ہونے پر انتہائی غربت کے عالم میں وہ پیرس چلا گیاجہاں اٹھارہ سو ترانوے میں اس کی موت ہو گئی۔ یوں سکھ سلطنت کے تخت کا یہ آخری دعویدار بھی دنیا چھوڑ گیا۔ اس کی زندگی پر ایک فلم بلیک پرنس بھی بنائی گئی تھی۔ رنجیت سنگھ کی کہانی پنجاب کی کہانی ہے، لاہور کی کہانی ہے۔
Who was Tipu Sultan of Maysore? میسور کا ٹیپو سلطان کون تھا؟