پاکستان میں نگراں سیٹ اپ | تشکیل، تاریخ، اتھارٹیز اور دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ
بگ سوچو میں خوش آمدید پاکستان میں انتخابات سے قبل نگراں حکومت کے حوالے سے کافی چرچا ہے صاف اور شفاف انتخابات کرانا اس حکومت کی ذمہ داری ہے پاکستان میں نگراں سیٹ اپ کی تقرری پر سیاسی ماحول بھی کافی گرم ہے۔ اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نگران حکومت اتنی اہم کیوں ہے؟ نگران حکومت کے کون سے اختیارات آئین میں درج ہیں؟
کیا پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی الیکشن سے قبل نگران سیٹ اپ بنایا گیا ہے؟ اور اس کے حکام کیا ہیں؟ آئیے یہ سب جانتے ہیں جیسا کہ نام سے ہی پتہ چلتا ہے کہ نگران حکومت الیکشن کی نگرانی کے لیے بنتی ہے لیکن یہ نگران سیٹ اپ کتنا اہم ہے اور اسے کیسے بنایا جاتا ہے؟ آئیے آپ کو اس بارے میں سب سے پہلے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی نگراں حکومتیں آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت بنتی ہیں جس کے مطابق اگر اسمبلی تحلیل ہوتی ہے یا مدت پوری کرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے تو دونوں صورتوں میں ایک ٹیکر سیٹ اپ لایا جائے گا۔
پاکستان میں نگراں سیٹ اپ | تشکیل، تاریخ، اتھارٹیز اور دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ
وفاق میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف دونوں نے نگراں وزیراعظم کے لیے زیادہ سے زیادہ تین نام پیش کیے، کسی ایک نام پر اتفاق رائے ہونے کی صورت میں صدر نگراں وزیراعظم کا تقرر کرتے ہیں، اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں معاملہ سونپ دیا جاتا ہے۔ ایک نئی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو تحلیل شدہ اسمبلی، سینیٹ یا دونوں ایوانوں سے حکومتی اور اپوزیشن کے 4، 4 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے جن کا تقرر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کرتے ہیں۔ یہ کمیٹی دونوں فریقین کی جانب سے پیش کیے گئے 6 میں سے دو یعنی 4 نام ہیں،
کمیٹی کو 3 دن کے اندر کسی ایک نام پر اتفاق کرنا ہوتا ہے، اتفاق رائے کی صورت میں وزیراعظم کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن یہاں بھی اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں یہ معاملہ ہے۔ الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا گیا الیکشن کمیشن دو دن میں پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کیے گئے ناموں میں سے ایک کو حتمی شکل دے گا اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ نگران حکومت 8 سے 9 دن میں بنتی ہے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدر مملکت نہ صرف تقرری کی باضابطہ منظوری دیتے ہیں۔ نگران وزیر اعظم بلکہ وہ وفاق میں 14 دن کے اندر کابینہ کا انتخاب بھی کرتے ہیں،
اس نگراں کابینہ کا کوئی رکن اگلے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہے جب تک نئی تقرری نہیں ہو جاتی، تحلیل شدہ اسمبلی کا قائد ایوان ہی رہتا ہے۔ وزیر اعظم صوبوں میں وزیر اعلیٰ کی تقرری سے لے کر کابینہ کی تشکیل تک کا عمل بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ وفاق میں ہوتا ہے یہاں تک کہ اگر اسمبلی ختم ہو جاتی ہے، انتخابات کے بعد، جب تک کہ نئی اسمبلی نئے اسپیکر کا انتخاب نہیں کرتی، اس وقت تک، اسپیکر کا انتخاب پچھلی اسمبلی اپنے عہدے پر برقرار رہتی ہے نئے ارکان کی حلف برداری ہوتی ہے اور اس کے بعد اسمبلی نئے سپیکر کا انتخاب کرتی ہے
واضح رہے کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ اگر اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ختم ہو جاتی ہیں۔ نگراں سیٹ اپ کی مدت 60 دن ہوگی تاہم اسمبلیاں کسی بھی وقت تحلیل ہونے کی صورت میں 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ضروری ہے آئین میں نگراں حکومت کی مدت میں توسیع کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں نگران حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری الیکشن کروانا ہے اسے مملکت کے روزمرہ کے معاملات چلانے کا مکمل اختیار حاصل ہے لیکن اسے پالیسی فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی کی صورت میں نگراں حکومت عارضی پالیسی فیصلہ کر سکتی ہے۔ صدر اور گورنر سے مشاورت جیسے خارجہ پالیسی اور ریاستی نظام سے متعلق امور وغیرہ اگر اسمبلی تحلیل ہو جائے اور بجٹ پیش کرنا ضروری ہو تو نگراں حکومت آئین کے آرٹیکل 86 کے تحت زیادہ سے زیادہ چار ماہ کے اخراجات کی منظوری دے سکتی ہے۔
دوسری جانب نگران حکومت غیر ملکی قرضے بڑھانے کی مجاز ہے لیکن اسمبلی تحلیل ہونے کے باعث کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا سکتی بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آرڈیننس کے ذریعے نئے ٹیکس لگائے جاسکتے ہیں جس کی منظوری نئی اسمبلی سے لینا ہوگی، بصورت دیگر ان ٹیکسوں کی میعاد ختم ہو جائے گی نگران حکومت کو الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 کے مطابق کسی بھی گریڈ کے سرکاری افسران اور اہلکاروں کی تقرری یا تبادلے کا اختیار نہیں ہو گا، نگران حکومت کے لیے اپنے فیصلوں میں غیر جانبدار ہونا بہت ضروری ہے۔ حکومت کو تاحیات کوئی مراعات نہیں ملتی یہاں تک کہ نگران حکومت کی مدت کے بعد نگران وزیر اعظم کو بھی کوئی مراعات حاصل نہیں چلیں یہاں یہ بھی واضح کر دیں کہ پاکستان میں اسمبلیاں تحلیل ہونی چاہئیں یا اپنی مقررہ مدت پوری کرنے کے بعد انہیں تحلیل کر دینا چاہیے۔
ان دونوں صورتوں میں الیکشن کے بعد بننے والی اسمبلی صرف پانچ سال کے لیے منتخب ہوتی ہے آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ دنیا کے ہر ملک میں انتخابات سے قبل نگران حکومت قائم نہیں ہوتی، پاکستان کے علاوہ یہ سیٹ اپ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ میں قائم ہے۔ کینیڈا اور ہالینڈ مختلف ادوار کے لیے جن کی بنیادی ذمہ داری انتخابات کروانا ہے اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ نگران حکومت صرف ان چند ممالک میں قائم ہے جہاں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے پاکستان میں روایتی طور پر سابق حکومت کا کوئی رکن شامل نہیں ہوتا۔ نگراں سیٹ اپ میں اور نہ ہی اسے الیکشن لڑنے کی اجازت ہے لیکن بہت سے ممالک میں حکومت میں شامل لوگوں کو بھی نگراں حکومت کا حصہ بنایا جاتا ہے
جیسا کہ آسٹریلیا میں، جہاں وزیر اعظم خود الیکشن سے قبل حکومت کو کیئر ٹیکر موڈ میں لے جاتے ہیں، یعنی کام کرنے والی حکومت، اس کے تمام یا اس کے کچھ ارکان صرف روزمرہ کے امور کے لیے محدود اختیارات استعمال کرتے ہیں تاہم حکومت کی انتہائی متنازعہ نوعیت اور غیر معمولی حالات کی وجہ سے ایک نگران حکومت بھی الگ سے قائم کی جاتی ہے جیسا کہ 1975 میں آئین کے دوران کیا گیا تھا۔ بحران جہاں گورنر جنرل نے اس شرط پر نگراں حکومت قائم کی کہ وہ جلد از جلد انتخابات کرائے گی، نیوزی لینڈ کی بات کریں تو یہاں کا نظام قدرے مختلف ہے نیوزی لینڈ میں اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر لیں یا قبل از وقت تحلیل ہو جائیں یا حکومت کا اعتماد ختم ہو جائے۔ پارلیمنٹ یا مقننہ ایک نگران سیٹ اپ قائم ہوتا ہے اس کا دورانیہ بہت مختصر ہو سکتا ہے
یعنی چند گھنٹے جو کہ نئی حکومت کے قیام تک جاری رہتا ہے نیوزی لینڈ میں نگراں حکومت قانون کی بجائے روایت کی پابند ہے جو مختلف ممالک کے نظاموں سے اخذ کی جاتی ہے یہ مطالبہ نیوزی لینڈ میں 1984 اور 1993 کے عام انتخابات کے بعد کی صورتحال کی وجہ سے زور پکڑا گیا کہ نگراں حکومت کے لیے قانون سازی کی جائے لیکن ابھی تک اس حوالے سے بہت کم کام ہوا ہے اور زیادہ تر باتیں روایات پر مبنی ہیں۔ کینیڈا میں انتخابات کی تاریخ، نئی حکومت بننے تک وزیر اعظم اور صوبائی حکومتوں کے سربراہان یا وزیر اعظم اپنی حکومتوں کو نگراں موڈ میں لے جاتے ہیں، یعنی وہ صرف روزمرہ کے معاملات چلانے اور شفاف طریقے سے انتخابات کرانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
وہ قومی پالیسی سے متعلق کوئی بڑا فیصلہ نہیں لے سکتے، حیرت کی بات یہ ہے کہ کینیڈا میں نگراں حکومت کے معاملات پر کوئی قانون سازی نہیں ہے لیکن نیوزی لینڈ کی طرح یہاں بھی بہت واضح روایات ہیں، جن پر ہر نگران حکومت عمل کرتی ہے اور انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے امور بھی چلاتی ہے۔ ہالینڈ میں نگران حکومت ایک حکومت کے خاتمے سے دوسری حکومت تک قائم رہتی ہے اسے Demissionary cabinet کہا جاتا ہے اس نگران حکومت کی مدت معین نہیں ہوتی اور یہ ایک بار 1977 میں 9 ماہ تک چلتی ہے کسی قسم کی عبوری یا نگراں حکومت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بھارت میں انتخابات سے قبل حکومت الیکشن کی تاریخ کے بعد کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرتی یہاں ایسے اقدامات نہیں کیے جاتے جس سے کسی پارٹی کو فائدہ پہنچے یا الیکشن کی غیر جانبداری پر سمجھوتہ ہو بھارت میں اکثر وزراء اپنی وزارتیں چھوڑتے ہی جیسے ہی حکومت ختم ہوتی ہے
اور انتخابات کی تیاری شروع کردی جاتی ہے الیکشن کمیشن بااختیار ہے اگر اسے لگتا ہے کہ حکومت کا کوئی رکن الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے تو وہ اس کی جگہ بھی لے سکتا ہے انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد حکومت معمولی تقرریاں یا تبادلے نہیں کر سکتی۔ الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر بھارت میں اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے اور عام طور پر اسی مدت میں انتخابی عمل مکمل ہوتا ہے دوسری طرف بنگلہ دیش میں 2008 تک نگراں حکومتیں قائم ہوئیں جو پاکستان سے الگ ہو کر یہاں پہلی نگراں حکومت بنیں۔ بنگلہ دیش میں 1991 میں نگران وزیر اعظم کو چیف ایڈوائزر نامزد کیا گیا اور شیخ حسینہ کی حکومت میں اب تک صرف 5 بار چیف ایڈوائزر بنایا گیا ہے۔ نے 15ویں ترمیم کے ذریعے نگراں حکومت کی آئینی شق ختم کر دی ہے اگر مختلف ممالک میں نگران حکومتوں کی ذمہ داریوں سے متعلق قانون سازی پر نظر ڈالیں تو پاکستان سب سے آگے نظر آتا ہے
ورنہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا میں نگران سیٹ اپ کیا گیا ہے۔ زیادہ تر روایات کی بنیاد پر چل رہا ہے ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان نے تاج برطانیہ سے آزادی حاصل کی جبکہ کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا اب بھی برطانوی ولی عہد کے ماتحت کام کر رہے ہیں لیکن برطانیہ میں ایسا کوئی نگراں حکومتوں کا سیٹ اپ نہیں دوسری طرف دولت مشترکہ کے دیگر رکن ممالک میں نگراں حکومتوں کا نظام نظر نہیں آتا بنیادی طور پر 1973 کے آئین میں نگراں حکومت کی کوئی گنجائش نہیں تھی تاہم 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کے سنگین الزامات کے بعد نگراں حکومت کے قیام کے حق میں کئی آوازیں اٹھیں تھیں۔ حکومت ضیاءالحق نے 1985 میں آر سی او یا ریوائیول آف کنسٹی ٹیوشن آرڈر کے تحت 1973 کے آئین کی بحالی کے آرڈر کے تحت آئین میں ترمیم کرکے ایک نگراں حکومت قائم کی جسے 1985 میں آٹھویں ترمیم میں آرٹیکل 48(5b) کے تحت تحفظ دیا گیا تھا۔
حق نے محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا اور صاحبزادہ یعقوب خان کی سربراہی میں نگراں کابینہ تشکیل دی جس کا کوئی وزیر اعظم نہیں تھا، یعنی صاحبزادہ یعقوب خان پہلے نگران وزیر اعظم نہیں تھے، ضیاء الحق طیارہ حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ انتخابات کا انعقاد 1988 کے انتخابات کی نگرانی اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے کی، ملک کے پہلے نگراں وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی تھے جنہیں 1990 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد مقرر کیا گیا تھا، اس کے بعد بلخ شیر مزاری، معین الدین قریشی اور ملک معراج خالد نگران تھے۔ تاہم، 2002 کے انتخابات فوجی آمر پرویز مشرف کی نگرانی میں ہوئے، آئین میں آرٹیکل 224 کو لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے شامل کیا گیا
جس کی آئین میں 17ویں ترمیم کے تحت توثیق کی گئی، 2007 کے انتخابات سے قبل محمد میاں سومرو کو نگراں بنایا گیا تھا۔ وزیراعظم پاکستان میں اس سے قبل صرف صدر ہی نگراں وزیراعظم کا تقرر کرتے تھے صدر کو مکمل اختیار حاصل تھا نہ تو پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی اور نہ ہی قائد حزب اختلاف یا قائد ایوان کی طرف سے کسی نام کی سفارش کی گئی تاہم 18ویں ترمیم کے تحت یہ اختیار پارلیمنٹ سے منتقل کر دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کو پاکستان کے چھٹے نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کا انتخاب الیکشن کمیشن نے ہی کیا تھا
دوسری جانب 2018 کے انتخابات سے قبل ناصر الملک کو قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان کے درمیان اتفاق رائے پر نگراں وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا۔ حکومتیں منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کے لیے بنتی ہیں لیکن یہ کسی بھی طور پر غیر جانبدارانہ اور فراڈ سے پاک انتخابات کی ضمانت نہیں دیتا۔ آئینی اور قانونی تقاضہ اب بتائیں، کیا آپ کے خیال میں شفاف انتخابات کے لیے نگران حکومت ضروری ہے؟ آپ کو یہ ویڈیو کیسی لگی اور ہمارا چینل ضرور سبسکرائب کریں۔ شکریہ!
سعودی عرب کیسے وجود میں آیا؟ | سعودی عرب کی تاریخ