| | | | | | | |

پاکستان کو چھوٹے صوبوں کی ضرورت کیوں؟ | پاکستان کے کتنے صوبے ہونے چاہئیں؟

بگ سوچو میں خوش آمدید! دنیا میں حکومت چلانے کے لیے مختلف نظام رائج ہیں کچھ ممالک وفاقی پارلیمانی نظام کے تحت چل رہے ہیں اور کہیں صدارتی نظام کے تحت کہیں ایک چھوٹا سا پورا ملک ایک اکائی ہے تو کہیں بہتر طرز حکمرانی کے لیے ملک کو مختلف اکائیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کبھی ریاست کہلاتے ہیں، کبھی صوبہ، کبھی کاؤنٹی اور کبھی خطہ پاکستان کو برسوں سے گورننس کے مسائل درپیش ہیں جس کی وجہ سے اب وقت آگیا ہے

پاکستان کو چھوٹے صوبوں کی ضرورت کیوں؟ | پاکستان کے کتنے صوبے ہونے چاہئیں؟

کہ ہم مختلف انتظامی یونٹس بنائیں تاکہ حکام کو نچلی سطح تک پہنچایا جا سکے۔ اور عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہونے چاہئیں پاکستان میں صوبے کیوں نہیں بن رہے؟ نئے صوبے نہ بننے کے کیا نقصانات ہیں؟ اور پاکستان میں کتنے نئے صوبے بن سکتے ہیں، آئیے یہ سب معلوم کرتے ہیں، سب سے پہلے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ پاکستان کو نئے صوبوں کی ضرورت کیوں ہے اور کیا اب تک مزید صوبے نہ بننے کا خمیازہ پاکستان کو اٹھانا پڑا؟ تو اس کہانی کا آغاز قیام پاکستان سے ہونا پڑے گا جب 1947 میں ہندوستان تقسیم ہوا تو اس کے 17 صوبے تھے اور سینکڑوں ریاستیں بھی تھیں جن میں سے تین صوبے سندھ، سرحد اور بلوچستان پاکستان کا حصہ بن گئے

جب کہ بنگال اور پنجاب کو تقسیم کیا گیا۔ مسلم اور غیر مسلم اکثریت کی بنیاد جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جس کا مشرقی حصہ مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ جب کہ مغربی پنجاب، صوبہ سندھ، صوبہ سرحد اور بلوچستان پر مشتمل حصہ کو مغربی پاکستان کہا جاتا تھا، مغربی حصے میں 13 خودمختار ریاستیں بھی تھیں جو پاکستان میں شامل ہوئیں ان ریاستوں میں سے بہاولپور پنجاب کا حصہ بن گیا جبکہ خیرپور سندھ کا حصہ بن گیا مکران کی ریاستیں قلات، لسبیلہ اور خاران بلوچستان میں شامل ہو گئے دوسری طرف دیر، چترال، سوات، امب اور پھولرہ کی ریاستیں شمال مغربی سرحدی صوبے میں ضم ہو گئیں، نگر اور ہنزہ کی ریاستیں عبوری صوبے گلگت بلتستان میں شامل ہیں۔ تقسیم کے بعد، ہندوستان کو جلد ہی احساس ہوا کہ اچھی حکمرانی کا خواب مزید انتظامی اکائیوں کے قیام سے ہی پورا ہو سکتا ہے،

اس لیے اس نے انتظامی تقسیم کو اپنایا اور اس وقت ہندوستان میں 28 ریاستیں اور 8 وفاقی انتظامی علاقے یا مرکز کے زیر انتظام علاقے ہیں، نئی انتظامی اکائیوں کی تشکیل کا کام جاری ہے۔ بھارت میں 1950 میں شروع کیا گیا تھا لیکن پاکستان میں یہ کام اب تک صرف سیاسی نعروں اور دعووں تک ہی محدود ہے اور وہی چار صوبے ہیں گلوبل گورننس انڈیکس میں بھارت 68 ویں اور پاکستان 144 ویں نمبر پر بنگلہ دیش ہے جو 1971 میں پاکستان سے الگ ہوا تھا۔ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے چھوٹے 180 ممالک کی اس درجہ بندی میں 84 ویں نمبر پر ہے،

بنگلہ دیش کو 8 انتظامی یونٹس یا ڈویژنوں میں تقسیم کیا گیا ہے یہاں تک کہ پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان کے 34 صوبے ہیں اور ایران کے 31 صوبوں کی بنیاد پر گلوبل گورننس رینکنگ جاری کی گئی ہے۔ کسی ملک کے اداروں کی ہم آہنگی پر معاشی استحکام، کاروباری ماحول، بدعنوانی کی صورتحال اور ملک کا انفراسٹرکچر اب ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ گڈ گورننس کا تعلق زیادہ صوبوں یا انتظامی اکائیوں سے کیوں ہے گڈ گورننس انڈیکس میں جنوبی کوریا پہلے نمبر پر ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رقبے میں پاکستان سے 8 گنا اور آبادی میں 4 گنا چھوٹے 9 صوبے بنائے گئے ہیں تاکہ ریاستی نظام کو اچھی طرح سے چلایا جا سکے، گڈ گورننس کی فہرست میں دوسرے نمبر پر سوئٹزرلینڈ کا ہے جو جنوبی کوریا جیسا ترقی یافتہ ملک ہے۔

جہاں کے لوگ انتہائی خوشحال ہوں اور انصاف کا بول بالا ہو اس ملک کا رقبہ پاکستان سے 19 گنا کم اور آبادی 24 گنا کم ہے یہ ملک انتظامی طور پر بھی 26 ریاستوں یا چھاؤنیوں پر مشتمل ہے ڈنمارک، سویڈن، ایسٹونیا، جاپان، لکسمبرگ، جرمنی جو کہ گڈ گورننس کی ٹاپ ٹین فہرست میں شامل ہیں کسی کا بھی پاکستان کے قریب رقبہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کی آبادی پاکستان کے قریب ہے لیکن اس کے باوجود ان تمام ممالک کی انتظامی اکائیاں، صوبے یا ریاستیں پاکستان سے زیادہ ہیں۔ اب آئیے پاکستان کے صوبوں کی آبادی اور رقبے کا دوسرے ممالک سے موازنہ کرتے ہیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی آبادی 11 کروڑ سے زیادہ ہے یعنی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے 206 ممالک میں سے 194 ممالک سے بڑا ہے۔ صرف پنجاب کی آبادی ترکی، ایران، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اٹلی جیسے ممالک سے زیادہ ہے

دوسری طرف اس کا رقبہ 2 لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے یعنی رقبے کے لحاظ سے یہ دنیا کے 120 ممالک سے بڑا نہیں ہے۔ صرف یہی کہ پاکستان کا صوبہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 142 ممالک سے بڑا ہے کیونکہ اس کا رقبہ 3 لاکھ 47 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے اس طرح ملائشیا، ناروے اور اٹلی جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی رقبے کے لحاظ سے بلوچستان سے بہت چھوٹے ہیں۔ پاکستان میں نئے صوبوں کی عدم تشکیل سے جہاں وسائل کی منصفانہ تقسیم پر سوالات اٹھ رہے ہیں وہیں بہت سے علاقے ترقی میں پیچھے رہ گئے ہیں اس حوالے سے پاکستان میں بلوچستان، جنوبی پنجاب اور وسطی سندھ کی مثالیں عموماً دی جاتی ہیں جہاں نہ صرف غربت ہے۔

ملک کے دیگر حصوں سے زیادہ ہے لیکن بڑے شہروں جیسے ترقیاتی کام بھی وہاں نہیں ہوسکے ہیں انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو ان کے حصے کا روزگار نہیں مل سکا اور ملک کے اعلیٰ اداروں میں معاشی فوائد میں ان کا حصہ ہے۔ یہ علاقے تعلیم، صحت اور انسانی ترقی کے حوالے سے انتہائی پسماندہ ہیں جس کی وجہ سے ملک بے پناہ وسائل کے باوجود پیچھے رہ گیا ہے، یہ ملک آنے والے سالوں میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہیں ہو سکے گا، اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ اگر ملک کی انتظامی بنیادوں پر تقسیم ترقی کے لیے بہت ضروری ہے تو پھر پاکستان میں نئے صوبے کیوں نہیں بن رہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ سیاست اور مفاد پرست مثال کے طور پر اگر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنا دیا جائے تو ظاہر ہے بجٹ بھی بن جائے گا۔

تقسیم جنوبی حصے کے مالی انتظامات لاہور کے زیر اثر نہیں ہوں گے جو ظاہر ہے لاہور کے سیاستدانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے پاکستان میں ہمیشہ سے یہ تاثر رہا ہے کہ فیصلے قومی ضرورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر کیے جاتے ہیں۔ ذاتی ضرورت اور ذاتی مفاد اس لیے جب ملک میں جنوبی پنجاب صوبے کا مسئلہ اٹھایا گیا تو اسی وقت یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ جنوبی پنجاب نہیں بلکہ سرائیکی صوبہ بنایا جائے اور اس میں تمام سرائیکی بولنے والے علاقوں کو شامل کیا جائے۔ اس صوبے میں نہ صرف بہاولپور اور ملتان ڈویژن کے تمام اضلاع شامل تھے بلکہ میانوالی، خیبر پختونخوا کے اضلاع بھکر، لکی مروت اور ڈی آئی خان کو بھی اس صوبے کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا ، اس طرح 23 اضلاع کے اس مجوزہ صوبے پر سب سے بڑا اعتراض اٹھایا گیا۔

یہ کہ اس سے لسانی تعصب بڑھے گا دوسری طرف یہ صوبہ دوبارہ چھوٹی اکائی نہیں رہے گا اور بہت بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے اس کے مسائل جوں کے توں رہیں گے اس صوبے پر ایک اور اعتراض یہ ہے کہ ریاست بہاولپور کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس ریاست کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ بہت زوروں پر ہے لیکن ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں تاحال کسی اتفاق رائے پر نہیں پہنچ سکیں ایک رپورٹ کے مطابق مجوزہ جنوبی پنجاب صوبے میں غربت کی شرح 43 فیصد سے زائد ہے جبکہ پنجاب میں مجموعی طور پر شرح 28 فیصد کے لگ بھگ ہے دوسرے لفظوں میں پنجاب کے جنوبی علاقوں کی نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے

مجوزہ صوبہ موجودہ پنجاب کی کل آبادی کا 49 فیصد پر مشتمل ہو گا جبکہ اس کی رقبہ صوبے کا تقریباً 32 فیصد ہو جائے گا بدقسمتی سے اس خطے کو 2010 تک مجموعی ترقیاتی بجٹ کا صرف 29 فیصد ملا تھا تاہم 2018 میں یہ بڑھ کر 35 فیصد ہو گیا جو اب بھی کم دکھائی دیتا ہے جس کے حوالے سے کراچی کی مثال بھی لی جا سکتی ہے۔ نئے صوبے بنانے کا مطالبہ بھی بہت پرانا ہے سندھ کے شہری علاقوں کے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ کراچی پورے ملک کو وسائل فراہم کرتا ہے لیکن اس کی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور پورے سندھ پر حکومت کرنے کا اختیار بھی جماعتوں کے پاس رہا۔ دیہی سندھ کے شہری علاقوں کی اسمبلی میں نشستیں کم ہونے کی وجہ سے انہیں پورے سندھ میں حکومت کرنے کا موقع نہیں مل سکا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیہی سندھ کے سیاستدان کراچی کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کرتے۔

اور حیدرآباد بلکہ کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر دیہی سندھ کے لوگوں کو شہری علاقوں میں بھی نوکریاں دی جاتی ہیں، کراچی کو صوبہ بنانے کے معاملے کو لسانی تعصب کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر جماعتیں اس مطالبے پر کبھی سنجیدہ نہیں ہوئیں ۔ پنجاب اور سندھ، خیبرپختونخوا میں صوبے بنانے کے لیے کئی آوازیں اٹھ رہی ہیں اس حوالے سے سب سے موثر اور طاقتور آواز صوبہ ہزارہ کی ہے ہزارہ کو صوبہ نہ بنانے کی بڑی وجہ سیاسی اور ذاتی مفادات ہیں فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا گیا ہے۔ ایک ترمیم کے ذریعے صوبہ لیکن صوبے کی بعض سیاسی قوتیں اس انضمام کی شدید مخالفت کر رہی ہیں بلوچستان کو دو خطوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جن کی اکثریت پختون اور بلوچ ہے لیکن یہ بھی مبینہ طور پر تعصب پر مبنی ہے

جسے دیگر سٹیک ہولڈرز ماننے کو تیار نہیں۔ ماہرین کے مطابق وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق نہ ہونا ملک میں مزید صوبے نہ بننے کی راہ میں اور معاشی پیچیدگیاں بڑی رکاوٹ ہیں پھر ملک کو نسلی اور لسانی تعصب، سیاسی جماعتوں میں عدم اعتماد اور عدم اعتماد جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں کتنے صوبے بننے چاہئیں تو اس کے لیے سب سے پہلے ایک قومی کمیشن بنانا ہوگا جس میں نہ صرف اراکین پارلیمنٹ بلکہ تمام متعلقہ اداروں کے نمائندے بھی ہوں۔ سیکٹرز کو کمیشن کا حصہ ہونا چاہیے

اگر ہم پاکستان کی آبادی، رقبہ اور انتظامی تقسیم کو دیکھیں تو مختلف ماہرین کے مطابق پاکستان کے 14 سے 16 صوبے ہونے چاہئیں، اس حوالے سے سب سے پہلے پنجاب کو 5 یا 6 میں تقسیم کرنا ہوگا۔ حصوں میں سے ایک تجویز یہ ہے کہ راولپنڈی، گوجرانوالہ اور گجرات ڈویژن کو ملا کر ایک صوبہ بنایا جائے، دوسری صورت میں راولپنڈی ڈویژن کو پوٹھوہار کا الگ صوبہ بنایا جائے اور گوجرانوالہ اور گجرات ڈویژن پر مشتمل دوسرا صوبہ بنایا جائے۔ پنجاب میں فیصل آباد اور سرگودھا ڈویژنوں پر مشتمل نیا صوبہ قائم کرنا ضروری ہو گیا اسی طرح لاہور ڈویژن کو ساہیوال ڈویژن کے ضلع اوکاڑہ کے ساتھ ملا کر صوبہ ملتان، ڈی جی خان اور ساہیوال ڈویژن کے باقی اضلاع کو ملا کر ملتان صوبہ بنایا جا سکتا ہے۔

بہاولپور کو دوبارہ ریاست کا درجہ دے کر دوبارہ صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے ریاست بہاولپور ایک بہت بڑا ڈویژن ہے جو 46 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی آبادی 12.5 ملین کے لگ بھگ ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے بنانے کا مطالبہ بہاولپور کو زبان، نسل یا ثقافت کی بنیاد پر صوبہ نہیں بنایا جا رہا ہے بلکہ یہ ایک انتظامی تقسیم ہے کیونکہ قیام پاکستان سے پہلے بھی یہاں ایک نواب کی قیادت میں ریاستی نظام بہت کامیابی سے چل رہا تھا

ریاست بہاولپور تھی۔ پاکستان میں ضم ہونے والی سب سے بڑی ریاست اسے 30 اپریل 1951 کو ایک معاہدے کے تحت صوبے کا درجہ دیا گیا تھا جسے 1955 میں اس وقت کی حکومت نے ون یونٹ کی وجہ سے واپس لے لیا تھا جس کی وجہ سے 1970 میں ون یونٹ کو ختم کر دیا گیا تھا لیکن بہاولپور صوبے کی پرانی حیثیت تھی۔ بحال نہیں کیا گیا اب اگر ہم صوبہ سندھ کا رخ کریں تو واضح طور پر کراچی ڈویژن کو الگ صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے جبکہ سکھر، لاڑکانہ اور شہید بینظیر آباد جن کا پرانا نام نواب شاہ تھا کو ایک صوبے کا حصہ بنایا جا سکتا ہے تیسرے اور آخری مجوزہ صوبہ سندھ میں حیدرآباد، بھنبھور، میرپور خاص کی ڈویژنز کو شامل کیا جا سکتا ہے صوبہ بلوچستان کو دو الگ صوبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس میں قلات، مکران اور رخشان ڈویژنوں پر مشتمل صوبہ بنایا جا سکتا ہے

جبکہ کوئٹہ، ژوب، لورالائی، سبی اور نصیر آباد ڈویژنز دوسرا صوبہ بن سکتا ہے صوبہ خیبرپختونخوا میں مزید تین صوبوں کی گنجائش ہے جس میں ڈی آئی خان اور بنوں ڈویژن کو ملا کر ایک صوبہ بنایا جا سکتا ہے جبکہ دوسرے صوبے میں مردان، پشاور اور کوہاٹ ڈویژن کو الگ کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ صوبہ ہزارہ اور مالاکنڈ کو ملا کر تیسرا صوبہ بنایا جا سکتا ہے، صوبے کے شمالی ڈویژن گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دے دیا گیا ہے لیکن کچھ آئینی مسائل ابھی حل ہونا باقی ہیں، آخر میں ہم آپ کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ ضروری ہے۔ جنوبی پنجاب صوبے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں اس کا الگ سیکریٹریٹ بنایا جا رہا ہے، بیوروکریسی کی تقسیم کا عمل بھی جاری ہے

تاہم اسے صوبے کا درجہ دینے کے لیے معاملہ قراردادوں اور آئینی ترامیم سے آگے نہ بڑھ سکا کیونکہ ایک دو۔ نیا صوبہ بنانے کے لیے آئین میں تہائی اکثریت درکار ہے جو پچھلے کئی انتخابات سے کسی جماعت کو نہیں مل رہی اور نہ ہی بہت سی جماعتیں اس پر متفق نظر آرہی ہیں نئے صوبے کی بات مسلسل سیاست اور مفاد پرستی کی نظر آرہی ہے اب بتاؤ کیا؟ نئے صوبے کے قیام کے حوالے سے آپ کی رائے کیا آپ ہماری تجاویز سے متفق ہیں؟ یا یہ ہم سے مختلف ہے، ہمیں کمنٹس میں ضرور لکھیں اور اس طرح کی مزید ویڈیوز دیکھنے کے لیے ہمارے چینل کو سبسکرائب بھی کریں۔ شکریہ!

امریکہ اسرائیل کی اندھی حمایت کیوں کرتا ہے؟ | امریکہ اسرائیل کو اتنا پیسہ کیوں دیتا ہے؟

Similar Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *