پاکستان کی کہانی – اگر کوی ڈھاکہ گیا تو مین اس کی ٹانگین توڑ دون گا

انیس سو ستر کے الیکشن ہو چکے تھے اور شیخ مجیب الرحمان بہت بڑی لیڈ کے ساتھ جیت چکے تھے۔ اب اصولاً تو اقتدار شیخ مجیب الرحمان کو منتقل کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیوں؟ کہا جاتا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کی وجہ یہ تھی کہ جنرل یحیٰ نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر کے شیخ مجیب الرحمان کو وزیراعظم بنانے سے انکار کر دیا تھا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس اجلاس کو کس نے اور کیوں ملتوی کیا گیا تھا؟ بھارتی جہاز لاہور میں کیوں تباہ ہوا؟ اور شیخ مجیب الرحمان کی جنرل یحییٰ سے یادگار ملاقات میں کیا بات ہوئی؟ میں ہوں فیصل وڑائچ اور دیکھو سنو جانو کی سیریز اکہتر میں ہوا کیا تھا میں ہم آپ کو یہی سب دکھائیں گے۔ ستر کے الیکشن کے بعد دو سوال سب سے اہم تھے۔ ایک یہ کہ ملک کا نیا آئین یعنی کانسٹیٹیوشن کیا ہو گا؟ یہ سوال اس لیے اہم تھا کہ ستر کے الیکشن دراصل ہوئے ہی اس لیے تھے کہ نیا آئین عوامی نمائندوں کے ذریعے بنایا جائے۔ دوسرا سوال ظاہر ہے یہ تھا کہ نئی حکومت کون بنائے گا اور اس میں کس جماعت کو کتنا حصہ ملے گا۔

پاکستان کی کہانی – اگر کوی ڈھاکہ گیا تو مین اس کی ٹانگین توڑ دون گا

ان دونوں سوالوں کا جواب اسی صورت میں مل سکتا تھا اگر اسمبلی کا اجلاس جلد از جلد بلایا جائے۔ اور یہ اجلاس بلانا تھا جنرل یحییٰ نے جو صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔ لیکن یہ اجلاس مسلسل تاخیر کا شکار ہو رہا تھا۔ اور اس تاخیر اس ڈیلے کے دوران مشرقی پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹس لینے والے شیخ مجیب الرحمان اور مغربی پاکستان میں میجورٹی والے ذوالفقار علی بھٹو ۔۔۔ دونوں بڑے بڑے جلسے کر رہے تھے۔ تا کہ حکومت سازی میں اپنا وزن بڑھا سکیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو جانتے تھے کہ ڈیموکریسی کے اصول سے اب حکومت تو شیخ مجیب الرحمان کو ملنی چاہیے کیونکہ میجورٹی ووٹ تو ان کے پاس ہے۔ لیکن وہ لاہور، ملتان اور دوسرے شہروں میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کی شرکت کے بغیر مرکزی حکومت کام نہیں کر سکے گی۔ وہ ڈیمانڈ کر رہے تھے کہ مرکزی حکومت میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کو برابر شئیر دیا جائے۔

حالانکہ حقیقت تو یہ تھی کہ بھٹو کی سیٹس شیخ مجیب سے تقریباً آدھی تھیں۔ ایک تقریر کے دوران وہ یہ بھی کہہ گئے کہ اگر تئیس برس تک مشرقی پاکستان کو حکومت میں مناسب حصہ نہیں ملا تو اس کایہ مطلب نہیں کہ اب آئندہ تئیس برس مغربی پاکستان پر مشرقی پاکستان حکومت کرے گا۔ لاہور میں انہوں نے اعلان کیا کہ پنجاب، سندھ اسمبلیوں کی چابیاں میری جیب میں ہیں اور مرکزی حکومت بھی میرے تعاون کے بغیر کام نہیں کر سکتی۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ عوامی فیصلے کے خلاف سازش کی گئی تو پیپلز پارٹی تحریک چلائے گی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں مفاہمت کے بغیر آئین بنانا ممکن نہیں۔ ایک صوبے کا مسلط کردہ آئین یا حکومت چلنے والی چیز نہیں۔ بھٹو کے ان دھواں دھار بیانات نے عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمان کو ظاہر ہے خوش تو نہیں کیا۔ کیونکہ وہ تو کلیئر میجورٹی کے ساتھ کھڑے تھے۔ انھیں حکومت بنانے کے لیے کسی دوسری جماعت سے اتحاد کی ضرورت ہرگز نہیں تھی۔

اس لیے وہ بھی فرنٹ فٹ پر کھیل رہے تھے۔ انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی باتوں کا جواب تین جنوری انیس سو اکہتر کو ریس کورس گراؤنڈ ڈھاکا میں دیا۔ یہاں عوامی لیگ کی الیکشن فتح کا جشن منانے کیلئے دس لاکھ لوگ جمع ہوئے تھے۔ ان کے سامنے شیخ مجیب الرحمان نے بھٹو ہی کی طرح تندوتیز بیانات دیئے۔ انھوں نے کہا کہ اگر چھے نکات پر مبنی آئین قبول نہ کیا گیا تو ملک میں خون خرابہ ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا ہم اکثریت میں ہیں، میجورٹی میں ہیں اور صرف ہم ہی آئندہ حکومت بنائیں گے اور ہم ہی آئینِ پاکستان بنا سکتے ہیں۔ اپنے ارادے کو اور پختہ دکھانے کے لیے انھوں نے ایک کام اور کیا۔ انھوں نے اسی جلسے میں عوامی لیگ کے تمام اراکینِ اسمبلی سے حلف لیا کہ وہ عوامی لیگ کے چھے نکات کے ساتھ وفادار رہیں گے۔ نمائندوں کے بعد انھوں نے بنگالی عوام کو بھی کہا کہ اگر چھے نکات میں کوئی ترمیم کرنا پڑی تو یہ حق چھے کروڑ بنگالیوں کے سوا اور کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن اسی دوران ان کے ذہن میں شاید کچھ اور بھی چل رہا تھا جس کا ایک ہلکا سا اشارہ اسی جلسے میں ان کے اس بیان سے بھی ہوتا ہے کہ ’ضرورت پڑی تو سب سے پہلے میں خود انقلاب کا نعرہ بلند کروں گا۔‘

شیخ مجیب الرحمان کے یہ طاقتور اور تیز بیانات صدر جنرل یحیٰ خان کو جو صدر پاکستان بھی تھے ان کو پریشان کر رہے تھے۔ کیونہ یہ سب ان کے ایجنڈے کے مطابق تو نہیں تھا۔ شیخ مجیب الرحمان جن چھے نکات پر سارا زور دے رہے تھے، ان میں صوبوں کی مکمل خودمختاری، اٹونومی کی بات کی گئی تھی۔ جبکہ جنرل یحییٰ اس کے خلاف تھے، وہ تو ایک ایسا آئین چاہتے تھے جس میں مرکز کے پاس، فیڈریشن کے پاس زیادہ اختیارات، زیادہ پاورز ہوں۔ چنانچہ جنرل یحیٰ خان نے بذات خود ڈھاکہ جا کر شیخ مجیب الرحمان سے ملنے کا فیصلہ کیا۔

ان کا خیال تھا کہ وہ اس طرح شیخ مجیب الرحمان کو چھے نکات میں کچھ نرمی لانے پر قائل کر سکیں گے۔ سو اسی سلسلے میں بارہ جنوری انیس سو اکہتر کو ڈھاکہ میں جنرل یحیٰی خان اور شیخ مجیب الرحمان کے مذاکرات شروع ہوئے۔ مذاکرات میں مجیب الرحمان نے جنرل یحییٰ کو اپنے چھے نکات کے بارے میں تفصیل سے اپنا پوائنٹ آف ویو سمجھایا۔ جنرل یحییٰ نے تسلی سے بات سنی اور آخر میں کہا میرے لئے آپ کے چھے نکات ۔۔۔ قابل قبول ہیں، مگر مغربی پاکستان کے لوگوں انھیں نہیں مانیں گے۔ آپ انھیں بھی ساتھ لے کر چلیں۔ شیخ مجیب الرحمان نے کہا بے شک ہم مغربی پاکستان کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ ان باتوں سے لگتا تھا کہ شاید معاملات کسی کروٹ بیٹھنے لگے ہیں۔ لیکن پھر جنرل یحیٰ خان اور شیخ مجیب کی ایک الگ ملاقات ہوئی۔ ون آن ون۔ اس ملاقات کے بعد جنرل یحیٰ بہت اداس نظر آئے۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے گلہ کیا کہ مجیب الرحمان نے مجھ سے بدعہدی کی ہے وعدہ توڑا ہے

جو لوگ مجھے اس سے محتاط رہنے کی تلقین کرتے تھے وہ سچے تھے۔ میں نے اس شخص پر اعتماد کر کے غلطی کی۔ تو بہرحال یہ مذاکرات ختم ہوئے تو جنرل یحییٰ ڈھاکہ ائرپورٹ پہنچے جہاں سے انھیں مغربی پاکستان آنا تھا، لیکن ائرپورٹ پر انھیں کچھ صحافیوں نے گھیر لیا اور ملک کے آئین اور دوسرے معاملات کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا۔ یہاں جنرل یحیٰ کا جواب بہت تاریخی تھا۔ اس جواب سے آپ اُس ون آن ون ملاقات کیا اندرونی کہانی کا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں۔ جنرل یحییٰ نے کہا کہ آپ یہ بات مجھ سے نہیں بلکہ شیخ مجیب الرحمان سے پوچھیں کیونکہ ملک کے آئندہ وزیراعظم تو وہ ہیں۔ جب وہ ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے تو میں یہاں نہیں ہوں گا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس ڈھاکہ کے اس دورے میں تو جنرل یحییٰ خان شیخ مجیب کو اقتدار سونپنے کا فیصلہ کر چکے تھے یا ایسا سوچ رہے تھے شاید اسی لیے اخبارات میں بھی ایسی خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ انہوں نے شیخ مجیب کو ملک کا آئندہ وزیراعظم قرار دے دیا ہے۔ لیکن اس فیصلے میں مزید کلیرٹی کے لیے جنرل یحییٰ کو ابھی ایک ملاقات اور کرنا تھی۔ یہ ملاقات تھی پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقارعلی بھٹو سے۔

تو جنرل یحییٰ ڈھاکہ سے سیدھے لاڑکانہ پہنچے۔ یہاں انھوں نے مرغابی کا شکار کیا اور بھٹو سے اہم ترین میٹنگ کی۔ پاکستانی تاریخ کی اس اہم ترین ملاقات کی تفصیلات اخبارات میں تو شائع نہیں ہوئیں، لیکن برٹش رائٹر ٹالبوٹ لکھتے ہیں کہ اس ملاقات کے دوران بھٹو نے جنرل یحییٰ کو ایک ایسا مشورہ دیا جس کا نقصان سیاسی طور پر انھیں آج بھی ہوتا ہے۔ بھٹو نے جنرل یحییٰ خان سے کہا کہ وہ نئے آئین پر اتفاق سے پہلے اسمبلی کا اجلاس نہ بلائیں۔ یعنی پہلے آئین کے بنیادی نکات پر کنسنسز وہ جائے پھر اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے۔ بھٹو نے شیخ مجیب کو ایک شاطر آدمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسمبلی کا اجلاس جلدی اس لئے بلانا چاہتا ہے تاکہ وہ آئین کو بلڈوز کر سکے۔ ایسا بھٹو اس لیے کہہ رہے تھے کیونکہ وہ شیخ مجیب الرحمان کے چھے نکات کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ بھٹو کے بیانات سے لگتا ہے کہ انھیں اقتدار کی جلدی تھی۔

وہ جنرل یحییٰ سے کہتے رہے کہ ان کے خاندان کے لوگ جوانی میں انتقال کر جاتے ہیں اس لئے انہیں یعنی بھٹو کو جلد از جلد اقتدار کی کرسی تک پہنچنا ہے۔ یحیٰی خان کی کابینہ کے ایک سینئر وزیر سے یہ بیان بھی منسوب کیا جاتا ہے کہ انہوں نے جنرل یحییٰ خان سے کہا تھا بھٹو کو ایک سال تک اقتدار نہ ملا تو وہ پاگل ہو جائے۔ تو ادھر لاڑکانہ میں بھٹو یحیٰی مذاکرات ہو رہے تھے تو دوسری طرف ڈھاکا میں اس کا میسیج کچھ اور ہی جا رہا تھا۔ صدیق سالک کے مطابق عوامی لیگ نے یہ تاثر پھیلانا شروع کر دیا کہ لاڑکانہ میں عوامی لیگ کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ کیونکہ شیخ مجیب الرحمان نے یحییٰ خان کو اپنے سخت رویے سے ناراض کر دیا ہے۔ اس ساری صورتحال میں آپ صاف محسوس کر سکتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقارعلی بھٹودونوں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کر رہے تھے۔ اس بداعتمادی کی وجہ سے ملک بند گلی میں آ گیا تھا۔

الیکشن ہو چکے تھے لیکن گاڑی آگے نہیں چل رہی تھی۔ اسمبلی کا اجلاس کب ہو گا؟ جیتی ہوئی پارٹی حکومت بنا پائے گی یا نہیں بنائے گی۔ یہ سوالات عوام کے اعصاب توڑ رہے تھے۔ تو ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو نے جہاز پکڑا اور شیخ مجیب الرحمان سے ملنے مشرقی پاکستان ڈھاکا چلے آئے۔ جہاں انھوں نے شیخ مجیب الرحمان سے آئندہ کے حالات اور چھے نکات پر بات کرنا تھی۔ جنوری انیس سو اکہتر کے آخری ہفتے میں یہ مذاکرات شروع ہوئے۔ بات چیت زیادہ تر مجیب الرحمان کے دھان منڈی والے گھر پر ہو رہی تھی لیکن کبھی کبھار مجیب الرحمان، بھٹو سے ملنے اس ہوٹل آ جاتے تھے جہاں بھٹو ٹھہرے ہوئے تھے۔ لیکن ملاقاتوں میں دونوں کا اتفاق کتنا تھا اس کا اندازہ ایک چھوٹے سے واقعے سے ہوتا ہے۔ وہ یوں کہ جب بھٹو اور شیخ مجیب میڈیا کے سامنے تھے اور تصویر کے لیے مسکرانے کی ادکاری کر رہے تھے تو بھٹو نے شیخ مجیب سے کہا جن لوگوں نے الیکشن جیتا انہوں نے اچھی اداکاری کی ہے اور جو ہارے انھوں نے بری۔ اس پر شیخ مجیب جواب دیا انتخابی نتیجہ اداکاری نہیں ایک حقیقت ہے۔

تو ان ملاقاتوں میں آخری ملاقات انتیس جنوری کو دھان منڈی میں مجیب الرحمان کی رہائش گاہ پر دونوں لیڈروں میں ایک گھنٹہ ملاقات جاری رہی۔ جب دونوں باہر آئے تو ان کے چہرے غمزدہ تھے۔ اداس تھے۔ شیخ مجیب نے میڈیا سے کہا میں نے پیپلز پارٹی کے سربراہ پر واضح کر دیا ہے کہ میری پارٹی چھے نکات کی بنیاد پر آئین کی پابند ہے۔ بھٹو کا چہرہ بھی اترا ہوا تھا۔ لیکن وہ ایسا کچھ بولے نہیں۔ بلکہ میڈیا کے سوالوں کو یہ کہہ کر ٹال گئے کہ وہ مذاکرات کے معاملے پر وہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کریں گے۔ لیکن اصل بات بتائیں آپ کو۔۔۔ مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔ دونوں کسی کنسنسز پر نہیں پہنچے تھے۔ وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ تھی شیخ مجیب الرحمان کے مطابق کہ ذوالفقار علی بھٹو نے آئینی امور پر مذاکرات کے بجائے زیادہ زور وزارتوں کے مسئلے پر دیا۔ کہ وزارتوں کی تقسیم کیا ہو گی اور کسے کون سی وزارت ملے گی۔ یہی باتیں شیخ مجیب الرحمان کے مطابق بھٹو مذاکرات میں مسلسل کرتے رہے۔ جبکہ اس وقت کے وزیرمواصلات پروفیسر جی ڈبلیو چوہدری لکھتے ہیں کہ شیخ مجیب چھے نکات میں کسی تبدیلی کو تیار نہیں تھے اور بھٹو نے بھی صاف کہہ دیا کہ وہ علیحدگی کی اس درپردہ سکیم کو کسی طور نہیں مانیں گے۔

.بھٹو ک نزدیک اس ملاقات میں شیخ مجیب الرحمان کے چھے نکات دراصل ایک علیحدگی کی خفیہ سکیم تھی اس لیے وہ بھی نہیں مانے۔ سو یہ مذاکرات ناکام ہوئے بھٹو واپس مغربی پاکستان آ گئے۔ سیاسی ہلچل اب شدید بے چینی میں ڈھل رہی تھی۔ لیکن ایسے میں جلتی پر تیل کا کام کیا ایک بھارتی طیارے کے اغوا اور تباہی نے۔ شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد ایک بھارتی طیارے نے پاکستانی سیاست میں ہلچل مچا دی۔ ہوا یوں کہ دو کشمیری نوجوانوں اشرف اور ہاشم نے انڈین ائرلائنز کے ایک طیارے کو سرینگر سے جموں جاتے ہوئے اغوا کر لیا۔ وہ اس طیارے کو لاہور ائرپورٹ پر لے آئے۔ یہاں انہوں نے جہاز کےعملے اور مسافروں کو تو رہا کر دیا لیکن خالی طیارے کو بم سے اڑا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے پاکستان میں سیاسی پناہ لے لی۔ بھارتی حکومت نے طیارے کی تباہی کا الزام پاکستان پر ڈالتے ہوئے پاکستان کے فوجی اور سویلین طیاروں کے اپنی حدود سے گزرنے پر پابندی لگا دی۔

یاد رہے کے پاکستان میں مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان جانے کے لیے ہر جہاز کو بھارت کے اوپر سے گزرنا پڑتا تھا۔ اب پاکستانی طیارے جو پہلے مشرقی اور مغربی پاکستان کا فاصلہ بھارت کے راستے صرف دو گھنٹے میں طے کر لیتے تھے اب انہیں سری لنکا کے راستے آنے جانے میں چھے گھنٹے سے زائد کا وقت لگنے لگا۔ ادھر بھارتی عوام اپنے طیارے کے اغوا اور تباہی پر بہت غصے میں آئے۔ انھوں نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پر حملے شروع کر دیئے۔ ان حملوں میں پاکستانی سفارتی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ جواب میں پاکستان میں طلبا نے بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے مظاہرے شروع کر دیئے۔ اس ماحول میں شیخ مجیب الرحمان نے بھارتی طیارے کی تباہی پر حیرانی اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے بھارتی طیارے کے اغوا اور تباہی کو جرم قرار دے کر واقعے کی تحقیقات کروانے کا بھی مطالبہ کیا۔ لیکن شیخ مجیب الرحمان کے اس بیان پر مغربی پاکستان میں بہت سے لوگ شدید غصے میں بھی آئے۔ انھیں کچھ حلقوں کی جانب سے کشمیری عوام کا غدار تک قرار دیا گیا۔

یہاں تک کہ لاہور میں طلبا نے دیال سنگھ مینشن میں عوامی لیگ کے دفتر پر حملہ کر دیا، وہاں لگے بورڈز توڑ دیئے، عوامی لیگ کا جھنڈا اتار کر ریگل چوک میں جلا دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھارتی طیارے کو اغوا کیا گیا تھا تو بھٹو نے لاہور ائرپورٹ پر جا کر ہائی جیکرز سے ملاقات کی تھی، ان سے ہاتھ ملائے تھے۔ لیکن جب بھارت نے پاکستانی طیاروں کی پرواز پر پابندی لگا دی تو پاکستان میں یہ کہا جانے لگا کہ طیارہ ہائی جیکنگ کا یہ واقعہ بھارتی سازش ہے۔ پاکستان میں دونوں ہائی جیکرز کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ ان پر مقدمہ چلا اور دونوں کو کچھ عرصہ جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی۔ ادھر یہ سب چل رہا تھا تو دوسری طرف تیرہ فروری کو جنرل یحییٰ نے اہم ترین اعلان کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ اسمبلی کا اجلاس تین مارچ کو ڈھاکا میں ہو گا۔ وہی اعلان جس کا سب انتظار کر ریے تھے۔ جیسے جیسے اجلاس کا وقت قریب آ رہا تھا، مغربی پاکستان کے لیڈرز شیخ مجیب الرحمان کو منانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ چھے نکات پر کچھ نرمی لائیں، اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود بھی شیخ مجیب الرحمان سے ملنے ڈھاکہ گئے۔

لیکن شیخ مجیب نے انھیں بھی انکار کر دیا اور کہا کہ وہ چھے نکات میں ہرگز لچک پیدا نہیں کریں گے۔ اسمبلی کا اجلاس قریب آ رہا تھا اور عوامی لیگ نے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا تھا۔ انھوں نے چھے نکات کی بنیاد پر ایک کانسٹیٹیوشنل ڈرافٹ، ایک آئینی مسودہ بھی تیار کر لیا۔ اس ڈرافٹ میں لکھا تھا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو ختم کر کے صوبوں کے الگ ریزرو بینکس قائم کئے جائیں گے۔ صوبہ سرحد جو اب خیبرپخونخواہ ہے عوالی لیگ نے اپنے آئینی ڈرافٹ میں اس کا نام پختونستان تجویز کیا اور مشرقی پاکستان کا نام انھوں نے اپنے ڈرافٹ میں بنگلہ دیش تجویز کیا۔ یہ آئینی مسودہ اس وقت کی مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں، خاص طور پر پیپلزپارٹی کے لیے ناقابل قبول تھا۔ سو انھوں نے تین مارچ کے اس اہم ترین قومی اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ پیپلز پارٹی کے بعد قیوم لیگ بھی بائیکاٹ میں شامل ہو گئی۔ ان حالات میں صرف جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا مفتی محمود ہی تھے جو اس سب تاثر کی مخالفت کر رہے تھے۔

اور کہہ رہے تھے عوامی لیگ دوسرے وفاقی یونٹس پر صوبوں پر اپنی مرضی کا آئین نہیں ٹھونسنا چاہتی ہے۔ اٹھائیس فروری انیس سو اکہتر کو بھٹو نے لاہور میں مینار پاکستان پر ایک بہت بڑا جلسہ کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر ہمارے بغیر قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو مزاحمت کی تحریک چلائی جائے گی۔ انہوں نے وارننگ دی کہ اگر ان کی پارٹی کا کوئی ممبر ڈھاکہ گیا تو وہ اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ وہ تو نجانے ٹانگیں توڑتے یا نہ توڑتے لیکن جنرل یحییٰ اس سے بھی سخت فیصلہ کر چکے تھے۔ ایک طرف وہ اسمبلی کا اجلاس بلا رہے تھے تو دوسری طرف انھوں نے فوجی آپریشن کی تیاری شروع کر رکھی تھی جس کا کوڈ نیم تھا آپریشن بلٹز۔۔ چھبیس فروری کو مشرقی پاکستان کے فوجی کمانڈر جنرل یعقوب خان نے اعلیٰ فوجی کمانڈرز کا اجلاس طلب کیا۔ جنرل یعقوب خان نے کمانڈرز کو بتایا کہ جنرل یحییٰ خان اسمبلی اجلاس ملتوی کرنے والے ہیں۔ چنانچہ فوج شارٹ نوٹس پر آپریشن بلٹز کو ایمپلیمنٹ کرنے کیلئے تیار رہے۔

ادھر کوئٹہ میں تعینات پاک فوج کے کچھ یونٹس کو کراچی کی طرف موو کر دیا گیا تھا تاکہ انہیں طیاروں کے ذریعے مشرقی پاکستان بھیجا جا سکے۔ ایسا نہیں تھا کہ شیخ مجیب الرحمان اور ان کی پارٹی کچھ نہیں کر رہی تھی۔ وہ بھی فوجی انداز میں ہی جنگ کی تیاریاں کر رہے تھے۔ وہ یہ طے کر چکے تھے کہ اگر ان کے چھے نکات نہ مانے گئے تو وہ بغاوت کر دیں گے۔ جس کا ایک اشارہ شیخ مجیب الرحمان اپنی تقریر میں پہلے بھی کر چکے تھے۔ جنرل خادم حسین راجہ لکھتے ہیں کہ ان دنوں مشرقی پاکستان میں اسلحے کی دکانوں کو لوٹا جا رہا تھا۔ عوامی لیگ اپنی بے پناہ عوامی حمایت کے سہارے مستقبل میں براہ راست ٹکراؤ کے لیے تیار تھی۔ بھارت سے بھی بڑے پیمانے پر پاکستان میں دراندازی یا انفلٹریشن ہو رہی تھی۔ اس صورتحال میں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اگر تین مارچ والا قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوا تو مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کے شعلے بھڑک اٹھیں گے۔ مشرقی پاکستان کے گورنر وائس ایڈمرل ایس ایم احسن بھی یہ دیکھ رہے تھے۔

انہوں نے آنے والی تباہی روکنے کیلئے شیخ مجیب سے ملاقاتیں شروع کر دیں۔ ایس ایم احسن نے جنرل یحیٰ خان کو بھی مشورہ دیا کہ وہ اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہ کریں۔ لیکن جنرل یحییٰ نہیں مانے بلکہ الٹا ایڈمرل احسن کو ہی گورنر کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ مشرقی پاکستان کے کمانڈر جنرل یعقوب خان کو گورنر بھی مقرر کر دیا۔ اور پھر وہ اعلان کیا جس کے بعد واپسی کے راستے ختم ہوتے چلے گئے۔

یکم مارچ کو جنرل یحییٰ نے اعلان کر دیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہو گیا ہے۔ اس اعلان کا ہونا تھا کہ ڈھاکہ میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ شیخ مجیب نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس بلا کر ہڑتال کی کال دے دی۔ حالات اب بے قابو ہو چکے تھے۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ شیخ مجیب الرحمان نے جنرل یحییٰ سے ایوان صدر کے ڈرائنگ روم میں ملنے سے انکار کر دیا اور انہیں باتھ روم میں جا کر مذاکرات کرنا پڑے۔ ایسا کیوں ہوا اور ان مذاکرات کا کیا انجام ہوا؟ عوامی لیگ کی سول نافرمانی تحریک کیا رنگ لائی؟ آپریشن سرچ لائٹ کیسے شروع کیا گیا؟

اور کیا تھا یہ سب آپ کو دکھائیں گے لیکن اکہتر میں ہوا کیا تھا کی اگلی قسط میں۔ اکہتر کی اس کہانی میں آپ نے بار بار چھے نکات کا سنا تو ان نکات کی پوری کہانی دیکھنے کے لیے اس سیریز کی قسط نمبر دو یہاں دیکھیں۔ یہاں دیکھیں کہ بنگلہ زبان اور قومی زبان کا مسئلہ کیا تھا اور یہی رہی پینسٹھ کی جنگ کی مکمل کہانی۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *