کارل مارکس پھڑے با ز شرابی سے انقلابی کیسے بنا؟

یونانی دیو مالا، گریک مائتھالوجی میں ایک دیوتا ہے پرومیتھیس۔ داستان ہے کہ وہ بہت عقلمند تھا۔ اس نے ایک بار دیوتاؤں کے بادشاہ زیوس سے آگ چُرا کر انسانوں کو اس کا استعمال سکھا دیا۔ اس پر زیوس کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے پرومیتھئس کو ایک پہاڑی سے باندھ دیا اور اس پر ایک عقاب کو مسلط کر دیا۔ یہ عقاب پرومیتھئس کا پیٹ چیر کر اس کا جگر نکلتا اور کھا جاتا۔ لیکن پرومیتھئس کا یہ زخم پھر بھر جاتا عقاب دوبارہ زخم لگاتا دوبارہ جگر نکالتا اور پھر کھا جاتا۔

یعنی پرومیتھئس مسلسل ایک نہ ختم ہونے والی اذیت کا شکار تھا۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ یونانی دیومالا کے ایک اور ہیرو ہراکولیس جسے رومن مائتھالوجی میں ہرکولیس بھی کہتے ہیں، اُس نے پرومیتھیس کو اِس عذاب سے نجات دلائی۔ اس کہانی میں پرومیتھیئس مسلسل اذیت کے کرب سے گزرتا رہا لیکن اس نے ایک بار بھی انسانوں کی مدد کرنے پر دیوتاؤں سے معافی نہیں مانگی۔ اسی وجہ سے پرومیتھیس، انسانیت، مزاحمت اور اپنے اصولوں کے لیے ڈٹ جانے کی علامت بن گیا۔ دوستو یونانی دیومالا کا یہی ہیرو ایک بہت بڑے فلسفی کا آئیڈیل تھا۔

جیسے پرومیتھئس نے دوسرے دیوتاؤں کو للکارا تھا ویسے ہی اس فلسفی نے بھی اس وقت کے زمینی خداؤں کو للکارا اور دنیا بھر کے غریبوں کو نجات کی راہ دکھانے کی کوشش کی۔ پرومیتھئس ہی کی طرح اسے بھی زندگی بھرسخت تکالیف کا سامنا رہا۔ جلاوطنی، قیدوبند، اپنے بچوں کی اموات اور غربت کی اذیتوں سےوہ بھی گزرتا رہا لیکن ان سب پر وہ تمام عمرکبھی نہیں پچھتایا، بلکہ وہ انقلاب کیلئے لڑتا رہا۔ اس عظیم فلسفی کو آج دنیا ’کارل مارکس‘ کے نام سے جانتی ہے۔

میں ہوں فیصل وڑائچ اور دیکھو سنو جانو کی وہ کون تھا کی منی سیریز میں ہم آپ کو اسی فلاسفر کی بائیو گرافی دکھا رہے ہیں۔ مائی کیوریس فیلوز یہ مغربی جرمنی کا شہر ٹرئیر ہے جو بیلجئم اور فرانس کی سرحد کے بالکل قریب سرسبز پہاڑی علاقے رائین لینڈ میں واقع ہے۔ اس شہر کے اندر ایک تنگ گلی کے تین منزلہ مکان میں پانچ مئی اٹھارہ سو اٹھارہ میں کارل مارکس نے آنکھ کھولی۔ کارل مارکس جس دور میں پیدا ہوا اس دور میں یورپ کے ہر دوسرے گھر میں انقلاب زندہ باد، انقلاب زندہ باد کے نعرے گونجا کرتے تھے۔

یہ انقلابی نعرے اس لئے گونجا کرتے تھے کیونکہ مارکس کی پیدائش سے صرف انتیس برس، ٹوئنٹی نائن ایئرز پہلے جرمنی کے ہمسائیہ ملک فرانس میں ایک زبردست انقلاب آ چکا تھا۔ اس انقلاب کے ذریعے فرانس میں صدیوں سے حکومت کرنے والے بوربن شاہی خاندان کی حکومت کا تختہ عوام نے الٹ دیا تھا۔ اس انقلاب سے فرانس کے شاہی خاندان سمیت اس مذہبی گروہ کی اجارہ داری بھی ختم ہو گئی تھی جو بادشاہ کے ساتھ مل کر صدیوں سے عوام کا استحصال کر رہا تھا۔ اس تبدیلی سے پورا یورپ متاثر تھا۔ عوام بھی اور حکمران بھی۔ عوام اس لیے متاثر تھے کہ وہ سوچتے تھے کہ اگر ایسا فرانس میں ہو سکتا ہے تو ان کے ہاں یہ تبدیلی کیوں نہیں آ سکتی؟ اور حکمران کیوں پریشان تھے؟

وہ بھی اسی لیے۔۔۔ کہ اگر فرانس میں بادشاہ کی گردن کٹنے سے کوئی نہیں روک سکا تو ان کے ملک میں ایسا ہونے سے کون روکے گا؟ وہ اس لیے ایسا سوچ رہے تھے کہ فرانسیسی انقلاب میں انقلابیوں نے بادشاہ لیوس دا سکسٹینتھ اور اس کی بیوی کی گردنیں اتار دیں تھیں تو یورپ کا یہی ماحول تھا جس میں یورپی ممالک کے عوام نے اپنے حکمرانوں کے خلاف مختلف تحریکیں شروع کر رکھی تھیں۔ ان انقلابی تحریکوں کے ذریعے یورپی عوام کی بڑی تعداد خاص طور پر فیکٹریوں میں کام کرنے والا مزدور طبقہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہا تھا۔ یہ لوگ بادشاہت اور چرچ کی اتھارٹی کو چیلنج کر رہے تھے۔

ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں اسمبلیوں میں نمائندگی دی جائے، میڈیا پر حکومتی پابندیاں ختم کی جائیں، تحریر و تقریر یعنی لکھنے اور بولنے کی مکمل آزادی ہو اور بادشاہ کے اختیارات کو محدود کر کے سیاسی فیصلوں میں عوام کو بھی شریک کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں انیسویں صدی دراصل یورپ میں جمہوریت اور لبرل ازم کے ارتقا کی صدی تھی۔ تو یہی وہ انقلاب کا ان دنوں یورپ میں ماحول تھا دوستو جس میں کارل مارکس پیدا ہوا اور وہ پروان چڑھا یہ اسی انقالابی ماحول کا اثر تھا جس نے کارل مارکس کو ایک انقلابی فلسفی بنا دیا تھا لیکن مارکس کی انقلابی تربیت میں اس کے ماحول کے ساتھ ساتھ اس کے گھر کے حالات اور خاندانی بیک گراؤنڈ نے بھی بہت کردار ادا کیا۔ مارکس کا خاندان نسلاً یہودی تھا اور بہت لمبے عرصے سے ٹرائیر شہر میں رہائش پذیر تھا۔ مارکس کے آباؤ اجداد یہودیوں کے ربیِ یعنی روحانی پیشوا تھے اور یہی ان کا پیشہ تھا۔

لیکن مارکس کے والد نے یہ پیشہ چھوڑ کر وکالت کو اپنا لیا۔ ان کی وکالت خوب چمکی اورکافی دولت مند بھی وہ ہو گئے بلکہ جرمنی کے اعلیٰ طبقے میں بھی اس کے تعلقات بن چکے تھے۔ اس دور میں جرمنی سمیت پورے یورپ میں یہودیوں سے نفرت کرنااور ان کے لیے خاص قوانین بنا کر انھیں ڈسکریمینٹ کرنے کا عام چلن تھا۔ اٹھارہ سو پندرہ میں مارکس کے ماں باپ بھی ایک ایسے ہی امتیازی سلوک کانشانہ بھی بن چکے تھے۔ وہ یوں کہ ریاست پروشیا جس کے حدود میں رائن لینڈ اور ٹرائیر شامل تھے اس نے ایک متنازعہ قانون بنایا اس قانون کے تحت یہودیوں کو اعلی جرمن سوسائٹی میں اٹھنے بیھٹنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ یہ قانون بہت یہودیوں کے لیے بہت خطرناک تھا کیونکہ اس نے ان کے لیے ترقی کے سارے راستے بند کر دیئے تھے۔

اس قانون کی وجہ سے کارل مارکس کے ماں، باپ کے پاس اب دو ہی راستے باقی بچے تھے۔ ایک یہ کہ وہ ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں اور دوسرا یہ کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کر کے عیسائیت قبول کر لیں تاکہ ان پر جو پابندیاں لگی ہیں وہ ختم ہو سکیں۔ کارل مارکس کے والد، ہینرچ مارکس نے ملک کو مذہب پر ترجیح دی اور اپنا مذہب تبدیل کر لیا۔ یعنی وہ یہودیت چھوڑ کر عیسائیت میں داخل ہو گیا۔ البتہ انہوں نے عیسائیوں کے کیتھولک فرقے کو اپنانے کے بجائے پروٹیسٹنٹ عیسائیت کو اختیار کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے خیال میں پروٹیسٹنٹ فرقے کے لوگ کیتھولکس سے زیادہ لبرل تھے۔ حالانکہ رھائن لینڈ اور ٹرائیر میں کیتھولک فرقہ اکثریت میں تھا اور پروٹیسٹنٹس کی تعداد بہت کم تھی اس کے باوجود مارکس کے والد نے پروٹیسنٹ فرقے ہی کو اختیار کرنا مناسب سمجھا۔ مذہب بدلنے کے باوجود مارکس کے خاندان سے دوستو یہودیت کا لیبل پھر بھی نہ ہٹ سکا اور جرمن معاشرے میں انھیں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا رہ

ا۔ چنانچہ بچپن سے ہی اس کے ذہن میں مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک کے خلاف ایک باغیانہ رویہ پرورش پارہا تھا۔ مذہبی بنیادوں پر اس امتیازی سلوک کے علاوہ مارکس کو اپنے والد سے انقلابی خیالات بھی ورثے میں ملے تھے۔ کیونکہ اس کے والد بھی انقلاب فرانس سے متاثر تھے اور ایک پرامن جمہوری انقلاب کے لیے جدوجہد بھی کر رہے تھے۔ انہوں نے کچھ تنظیمیں بھی جوائن کی تھیں اور ان کی سرگرمیوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے تھے۔ مارکس کے والد نے گھر میں ایک اچھی خاصی لائبریری بھی بنا رکھی تھی جس میں روسو، جان لاک اور ان جیسے دیگر بہت سے عظیم فلاسفرز کی کتابیں موجود تھیں۔

اسی لائبریری میں کارل مارکس نے یونانی اور رومن مائتھالوجیز کو بھی شوق سے اور غور سے پڑھا اور غالباً یہیں اس نے پرومیتھئس کی وہ کہانی بھی پڑھی جس نے اس میں انسانیت کے لیے تکلیف سہہ کر کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کیا سو ایک تبدیلی یا انقلاب کی خواہش کارل مارکس کو اپنے گھر سے ہی ملنے لگی تھی۔ اگرچہ وہ بچپن میں انقلابی سے زیادہ شرارتی تھا۔ وہ اپنی بہنوں کو بہت تنگ کرتا تھا۔ کبھی ان کے کندھوں پر سوار ہو کر انہیں دوڑنے پر مجبور کرتا اور کبھی کیچڑ سے کیک بنا کر انہیں کہتا کہ یہ کھا کر دکھاؤ۔ کارل مارکس کے والدین نے بارہ برس کی عمر تک اسے اسکول میں داخل نہیں کروایا اور اسے گھر میں ہی پڑھاتے رہے۔ لیکن جب بارہ برس کا ہو کر وہ سکول جانے لگا تو اسے پہلی بار احساس ہوا کہ دنیا اس کے اپر مڈل کلاس گھر سے کافی مشکل جگہ ہے۔ پھر وہ جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا اپنے ہی گلی کوچوں میں غربت کے مارے لوگوں کو دیکھ کر دل جلانے کا ہنر بھی سیکھ گیا۔ دوستو جس دور کی ہم بات کر رہے ہیں اس وقت پورے یورپ میں انڈسٹریلائزیشن کا آغاز ہو چکا تھا۔ لیکن کارل مارکس کے علاقے ٹرائیر میں فیکٹریز نہیں لگ رہی تھیں۔

اس علاقے کی اکانومی ابھی تک زراعت، ایگریکلچر پر قائم تھی۔ شہر کے اردگرد انگور کے بڑے بڑے باغات تھے اور زیادہ تر لوگ انہی باغات میں کام کرتے تھے۔ یہ شہر ترقی میں جرمنی کے دوسرے شہروں سے بہت پیچھے تھا۔ اسی لئے یہاں غربت اور بیروزگاری بھی باقی جگہوں سے کچھ زیادہ تھی۔ یہاں تک کہ شہر میں بھکاریوں اور جسم فروشوں کی بہتات ہو چکی تھی۔ شہر کے ایک چوتھائی، ون فورتھ لوگ بھیک مانگنے پر مجبور تھے۔ ٹرائیر کے لوگ اس غربت سے جان چھڑانا چاہتے تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ حکومت اور سرمایہ دار طبقہ ان کی ترقی میں رکاوٹ بن چکا تھا۔ حکومت غریبوں پر ٹیکس بڑھا رہی تھی جبکہ امیر طبقہ جس کے باغات میں یہ غریب لوگ کام کرتے تھے وہ ان کی محنت کا مناسب معاوضہ تک انہیں دینے کو تیار نہیں تھے۔

اس کا نتیجہ یہ تھا کہ غریبوں کی آمدن کم سے کم ہو رہی تھی اور مہنگائی زیادہ سے زیادہ۔ عام آدمی غریب سے غریب تر جبکہ دولت مند امیر سے امیر تر ہو رہے تھے۔ دولت کی تقسیم میں اتنی بڑی ناانصافی کارل مارکس کے حساس دل و دماغ میں گہری اتر چکی تھی۔ اپنے شہر میں ایک اور بات جو کارل مارکس نے نوٹ کی وہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم سے بھی زیادہ اہم تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ غریب عوام، دولت مند طبقے کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے بیقرار ہیں۔ وہ اس کیلئے کوشش بھی کر رہے تھے۔ ویسے بھی ٹرائیر شہر، فرانس کے بہت قریب تھا اور فرنچ ریولوشن سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ اس لئے یہاں کئی چھوٹی چھوٹی انقلابی تنظیمیں سرگرم تھیں۔ لیکن حکومتی کارروائیوں کے خوف سے یہ تنظیمیں چھپ کر، انڈر گراؤنڈ کام کرتی تھیں۔ کیونکہ یہ یورپ میں ایسا وقت تھا جب جمہوریت کی بات کرنا اور بادشاہت پر اعتراضات اٹھانا جرم تھا۔ ایسا کرنے والوں کو ریاست کا باغی قرار دے کر گرفتار کر لیا جاتا تھا

اسی وجہ سے مزدوروں اور طلبہ نے اپنی خفیہ تنظیمیں بنا رکھی تھیں۔ یہ انقلابی لوگ تبدیلی چاہتے تھے اور اس تبدیلی کے لیے اس وقت دو نظریات، سوشل ازم اور انارک ازم مقبولیت پا رہے تھے۔ سوشلسٹ نظریات کے حامی ایسی حکومت چاہتے تھے جو مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرے جبکہ انارک ازم کے ماننے والے ریاست ہی کو ختم کرنے کے حامی تھے تاکہ تمام انسان برابر ہو کر کام کریں اور کوئی کسی پرحکم چلانے والا نہ ہو۔ تمام انسان آزاد مرضی سے اپنی زندگی گزاریں۔ تو یہ دونظریات ان دنوں مقبول ہو رہے تھے۔ حکومت ان سب تبدیلی چاہنے والوں پر گہری نظر رکھے ہوئے تھی تعلیمی اداروں اور دفاتر کی کڑی نگرانی ہوا کرتی تھی اور آئے دن یونینز کے خفیہ اجلاسوں پر چھاپے پڑتے رہتے تھے جن میں طلبہ اساتذہ اور دیگر لوگوں کو گرفتار کرلیاجاتا اور حکومت کے خلاف لٹریچر وغیرہ برآمد ہونے کا دعویٰ بھی کیا جاتا۔ اب ایک تو انقلابیوں کو شاہی طاقت روکتی تھی،

لیکن بادشاہ کے ساتھ دوسری بڑی طاقت مذہبی طبقہ تھا۔ چرچ کے لوگ انقلاب کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے اور عوام کو بادشاہ اور کلیسا کی اطاعت کا درس دیتے۔ شہر کا آرچ بشپ، سینٹ سائمن جیسے سوشلسٹ فلاسفرز کے خلاف سخت تقریریں کرتا اور لوگوں کو اس کے فلسفے سے دور رہنے کے لیے واعظ دیا کرتا تھا۔ لیکن یوں تھا کہ بادشاہ کے جبر اور پادری کے واعظ کے باوجود شہر میں انقلابی خیالات رفتہ رفتہ پھیلتے ہی جا رہے تھے۔ جب مارکس نے اسکول میں قدم رکھا تو وہاں بھی اس کا واسطہ انقلاب ہی سے پڑا۔ اسکول کے پرنسپل، زیادہ تر اساتذہ اور طلبہ بھی انقلابی نظریات سے متاثر تھے۔ اسی لیے یہ اسکول خفیہ پولیس کی لسٹ میں بھی شامل تھا اور سادہ لباس میں لوگ اس کی نگرانی کرتے تھے وہ چھاپے وغیرہ مار کر طلبہ اور اساتذہ کو گرفتار بھی کرتے رہتے تھے۔ لیکن اسکول لائف میں کارل مارکس کبھی انقلابی سرگرمیوں میں شریک ہی نہیں ہوا تھا۔

اس کے انقلابی خیالات اس وقت ظاہر ہوئے جب وہ ایک دوسرے شہر بون کی یونیورسٹی میں قانون اور فلسفہ پڑھنے کے لیے گیا۔ یہاں اس کا باغیانہ رویہ پہلی بار سامنے آیا اور اسے جیل بھی جانا پڑا۔ بون یونیورسٹی کے سترہ سالہ کارل مارکس میں کافی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ وہ شراب پینے، والدین کی کمائی کو عیاشی میں اڑانے اور دوستوں سے ادھار مانگنے کا عادی ہو گیا تھا۔ اس نے ایک شرابیوں کا گینگ، ٹیورن کلب بنا لیا تھا۔ کارل مارکس اس گینگ کا صدر تھا اور یہ گینگ غل غپاڑہ کرنے اور مار پیٹ میں خاصا بدنام تھا۔ ایک بار ایسا ہواکہ کارل مارکس نشے کی حالت میں ہنگامہ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ بون یونیورسٹی نے شرابی طلبہ کو سزا دینے کیلئے ایک کمرے کی چھوٹی سی جیل مختص کر رکھی تھی۔

جس طالب علم کو سزا دینا ہوتی اسے چوبیس گھنٹے کے لیے اس کمرے میں بند کر دیاجاتا تھا۔ مارکس کو بھی یونیورسٹی حکام نے اسی جیل میں بند کر دیا۔ اب دوستو جیل میں کارل مارکس سدھرتا تو کیا، اس کے دوست کسی طرح یہاں بھی پہنچ گئے اور سب نے رات بھر تاش اور بئیر کی محفل سجائی۔ سو چوبیس گھنٹے بعد کارل مارکس رہا ہوا تو ظاہر ہے ویسے کا ویسے تھا۔ بون رہتے ہوئے اسے ٹرائیر کی یاد بھی بہت ستاتی تھی کیونکہ وہاں سرخ بالوں سبز آنکھوں والی اس کی دوست جینی رہتی تھی۔ فاصلوں نے بچپن کی اس دوستی کو محبت میں بدل دیا تھا اور کارل مارکس جینی کی یاد میں نظمیں لکھنے لگا تھا۔ اس نے جینی سے شادی کا وعدہ بھی کررکھا تھا۔ لیکن دوستو جلد ہی یوں ہوا کہ کارل ماکس کے جام اٹھاتے نظمیں لکھتے ہاتھوں نے ہتھیار تھام لیے۔ بون یونیورسٹی میں ہی مارکس نے ایک انقلابی تنظیم جوائن کر لی تھی۔ اس دور میں یعنی اٹھارہ سو تیس کی دہائی، ایٹین تھرٹیز میں جرمنی یونیورسٹیز میں کئی طرح کی طلبہ تنظیمیں موجود تھیں۔ ان میں کچھ ایسی تھیں جو حکومت کی حمایت کرتی تھیں اور انقلاب کے حامی اسٹوڈنٹس کے خلاف تھیں اور کچھ انقلابی تھیں۔ توان تنظیموں میں ایک بڑی اور طاقتور تنظیم جو حکومت کے ساتھ تھی بادشاہ کے ساتھ تھی وہ بوروشیا کارپس تھی۔ اس تنظیم کے طلبہ، انقلاب کے حامیوں پر آئے دن حملے کرتے تھے۔

کارل مارکس اور اس کی تنظیم بھی ان کا نشانہ تھی۔ چنانچہ مارکس نے اس تنظیم کے حملوں سے بچاؤ کیلئے اپنے پاس پسٹل رکھنا شروع کر دیا تھا بلکہ وہ اپنے ساتھیوں کو بھی ہدایت کرتا تھا کہ وہ بھی اپنے پاس اسلحہ رکھا کریں تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچانے آئے تو یہ دفاع کر سکیں اس دوران ایک ایسا واقعہ بھی ہوا جس کے بارے میں دوستو آج بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ مارکس کو بوروشیا کارپس کے ایک نوجوان نے ڈیول کا چیلنج دے دیا۔ اس وقت کے ماحول میں جب دو لوگ ایک دوسرے کا وجود بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے تو اسی قسم کے چیلنجز دیا کرتے تھے۔ کیونکہ اس مقابلے میں ایک ہی شخص زندہ بچ سکتا تھا۔ یہ لڑائی ریوالور سے بھی لڑی جاتی تھی اور تلواروں سے بھی۔ آپ نے ویسٹرن موویز میں اس طرح کی ڈیولز ضرور دیکھی ہوں گی جس میں کمر سے کمر لگائے دو لوگ ہتھیار پکڑے کھڑے ہوتے ہیں۔ تو کارل مارکس کی ڈیول بھی کچھ اسی قسم کا ایک مقابلہ تھا۔ اس لڑائی میں اس کی جان بھی جا سکتی تھی کیونکہ مقابلے پر جو لڑکا تھا وہ کارل مارکس سے کہیں زیادہ لڑاکا اور ہوشیارتھا۔

یہ لڑائی ہوئی دوستو لیکن خوش قسمتی سے اس میں دونوں کی جان بچ گئی۔ کارل مارکس کی بائیں آنکھ پر ایک زخم تو آیا لیکن قریبی لوگوں نے بیچ بچاؤ کروا کر لڑائی درمیان ہی میں ختم کروا دی۔ سو کارل مارکس محض اتفاق سے زندہ رہا۔ لیکن اس ڈیول کی خبر جب مارکس کے والد تک پہنچی تو وہ سخت صدمے کا شکار ہوئے اور انہوں نے ایک ناراضی بھرا خط لکھا۔ خط میں انہوں نے مارکس سے پوچھا کہ کیا ڈیول کی اس لڑائی کا فلسفے سے کوئی قریبی تعلق ہے؟ انہوں نے لکھا کہ ایسی کسی بیوقوفی کو اپنے دماغ سے دور رکھو کیونکہ اگر دوبارہ ایسی بیواقوفی کی تو تم اور تمہارے ماں باپ زندگی سے محروم ہو جائیں گے۔ مارکس نے والد کی یہ دکھ بھری نصیحت ہوا میں اڑا دی۔ اس نے اپنی سرگرمیاں پہلے ہی کی طرح جاری رکھیں۔

ایک بار مارکس کولون شہر گیا۔ اس کا پسٹل بھی اس کے پاس تھا۔ شہر میں پولیس نے اس کی تلاشی لی اور اس کے پاس سے پسٹل برآمد ہو گیا مسئلہ یہ تھا کہ یہ پسٹل غیرقانونی تھا جس کی وجہ سے مارکس کو اب لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔ پولیس نے مارکس کو حراست میں لے کر عدالت میں پیش کر دیا۔ اگر یہ مقدمہ سلیقے سےآگے بڑھتا تو مارکس کو لمبے عرصے کیلئے جیل کی ہوا کھانا پڑتی اور اس کے سارے انقلابی منصوبے چکنا چور ہو جاتے۔ لیکن اس موقع پر مارکس کے والد ہی ایک بار پھر اس کے کام آئے۔ آپ جانتے ہیں کہ مارکس کے والد ہینرچ مارکس ایک کامیاب وکیل تھے، ان کی پہنچ اوپر تک تھی۔ تو جب ہینرچ مارکس کو یہ علم ہوا کہ ان کا بیٹا غیر قانونی اسلحے کے جرم میں پکڑا گیا ہے تو انہوں نے فوری ایکشن لیا۔ انہوں نے معلوم کروایا کہ مارکس کا کیس کس جج کی عدالت میں چل رہا ہے۔ پھر انہوں نے جج کے نام ایک خط لکھا اور اپنا تعارف کروانے کے بعد جج سے درخواست کی کہ مارکس کے اس جرم کو اس کی نادانی سمجھ کر معاف کر دیا جائے۔

جج کو یہ خط ملا انہوں نے پڑھا اورکارل مارکس کے والد کی سفارش کو ویلیو دیتے ہوئے مقدمہ آگے نہیں بڑھایا۔ اس طرح ایک بار پھر کارل مارکس کی جان اور وقت بچ گیا۔ تو دوستو اس طرح نوجوان کارل مارکس کا بون یونیورسٹی کا پہلا سال اس پر اور اس کے خاندان پر کافی بھاری رہا۔ یونیورسٹی سے اس کے بارے میں مسلسل شکایات اس کے گھر پہنچ رہی تھیں۔ مارکس کے والد سمجھ رہے تھے کہ بون یونیورسٹی میں مارکس جن لوگوں کی صحبت میں ہے وہ اسے تباہ کر کے ہی چھوڑیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایک سخت فیصلہ کیا اور مارکس کو بون یونیورسٹی سے ہٹا کر جرمنی کے موجودہ دارالحکومت برلن بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ہنرچ کی کوششوں سے مارکس کو بون یونیورسٹی سے برلن یونیورسٹی شفٹ کر دیا گیا جہاں اس نے قانون اور فلسفے کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔ برلن میں مارکس کی غل غپاڑے اور لڑائیوں کی عادت تو چھوٹ گئی لیکن اب اس کی انقلابی ذہنیت پوری طرح سے بیدار ہو چکی تھی۔ اب وہ ایک پھڈے باز نوجوان کی عمر سے آگے نکل آیا تھا اور کچھ بڑا کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایک ایسا نظام لانا چاہتا تھا جس سے پوری انسانیت فائدہ اٹھائے۔ لیکن اس کے ذہن میں اس نظام کی گتھی سلجھ نہیں رہی تھی۔ اس کے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ ایک انسانی معاشرے میں مذہب اور کسی ایک طاقتور ہستی یا خدا کا کردار کیسے متعین کیا جائے؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ جرمنی میں میڈیا یا اخبارات پر جو سنسرشپ کی پابندیاں عائد ہیں انہیں کیسے چیلنج کیا جائے؟ اورپھر یہ کہ ایک آزاد پریس، ایک آزاد میڈیا کیسے قائم ہو؟ تیسرا اور سب سے اہم سوال یہ تھا کہ ایک آئیڈیل معاشرے میں محنت کش طبقے کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ یعنی وہ طبقہ جس کی محنت سے سرمایہ دار سرمایہ کماتے ہیں وہ معاشرے میں کہاں فٹ آتا ہے؟ ان تینوں سوالوں کے ساتھ دوستو ایک چوتھا اور آخری سوال بھی تھا اور وہ یہ تھا کہ یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد وہ پیشہ کون سا اختیار کرے گا؟ کیونکہ فلسفہ پڑھنے سے پیٹ تو نہیں بھرا جا سکتا تھا۔

تعلیم کے آخری دنوں میں اس کے والد کا انتقال بھی ہوچکا تھا۔ جس کی وجہ سے اب اس کی والدہ تنہا ہی گھر چلانے کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھی وہ اس بات کی منتظر تھیں کہ کہ کب کارل مارکس کی پڑھائی ختم ہو اور کب وہ اپنے خاندان کیلئے پیسے کما کر لانا شروع کرے۔ کارل مارکس کے سامنے ایک مشکل یہ بھی تھی کہ وہ اپنی محبوبہ جینی سے شادی کا وعدہ کر چکا تھا۔ جینی کے والد نے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر اس سے شادی کرنا ہے تو پہلے پڑھائی مکمل کرو، یعنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرو۔ اس طرح دوستو نوجوان کارل مارکس کے سامنے زندگی کے سارے چینلجز ایک ساتھ آن کھڑے ہوئےتھے۔ اسے پڑھائی مکمل کرنا تھی،

جبکہ وہ ایک ایوریج طالب علم رہا تھا اسے روزگار تلاش کرنا تھا لیکن وہ تو سرمایہ دارہی کے خلاف تھا۔ کارل مارکس نے ان چیلنجز کو کیسے عبور کیا؟ اور پھر اس نے اپنے ملک جرمنی کو کیوں چھوڑ دیا؟ اس سب پر بات کریں گے لیکن اس منی سیریز کی اگلی ویڈیو میں ضرور دیکھئے گا دوستو کارل مارکس سے ہزاروں سال پہلے ایک عظیم فلسفی کو اپنے خیالات کے باعث یہ دنیا چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *