کرد کون ہیں؟ | کردوں کا اپنا ملک کیوں نہیں ہے؟ | کردستان کا مسئلہ
یہ کردستان ہے، موجودہ ترکی، ایران اور عراق کے درمیان تقریباً 200,000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ایک وسیع خطہ، اس خطے میں رہنے والے لوگوں کو کرد کہا جاتا ہے اور ان کی آبادی تقریباً تین سے ساڑھے چار ملین ہے لیکن یہ سب سے بڑا نسلی گروہ ہے۔ دنیا میں جس کا اپنا کوئی ملک نہیں اس خطے کے باشندے چار الگ الگ ملکوں میں کیوں بٹے ہوئے ہیں؟ ان کا اپنا ملک کیوں نہیں ہے؟ کیا انہوں نے اس خطے کو ملک بنانے کی کوشش کی؟ آئیے یہ معلوم کریں کہ کردوں کے لیے الگ ملک کیوں نہیں؟
کرد کون ہیں؟ | کردوں کا اپنا ملک کیوں نہیں ہے؟ | کردستان کا مسئلہ
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں آج سے ایک صدی پیچھے جانا پڑے گا جب 20ویں صدی کے اوائل میں جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے کردستان کا بیشتر علاقہ سلطنت عثمانیہ کے کنٹرول میں تھا، سلطنت عثمانیہ صرف چند حصوں تک محدود تھی۔ موجودہ ترکی، عراق، شام، فلسطین اور جزیرہ نما عرب میں جب جنگ عظیم شروع ہوئی تو سلطنت عثمانیہ نے یہ جنگ مرکزی طاقتوں جرمنی، آسٹرو ہنگریہ، بلغاریہ کے ساتھ اتحادی طاقتوں برطانیہ، فرانس، اٹلی اور روس کے خلاف لڑی۔ جنگ میں عثمانیوں کو شکست ہوئی شکست کے بعد اتحادیوں اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان 1920 میں سیوریس کا معاہدہ ہوا اس معاہدے میں اتحادیوں نے سلطنت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا
یونان نے موجودہ ترکی کے مغربی حصے کا کنٹرول سنبھال لیا، جبکہ شمال مشرقی حصہ آرمینیا میں گرا برطانیہ نے موجودہ عراق اور جنوب مشرقی ترکی پر کنٹرول حاصل کر لیا جبکہ موجودہ شام اور اس کے شمال کا ایک بڑا علاقہ فرانس کا حصہ بن گیا جنوب مغربی ترکی اٹلی کا حصہ بن گیا اور اس طرح سلطنت عثمانیہ جو کہ اس سے زیادہ عرصے تک قائم رہی۔ 6 صدیاں، موجودہ ترکی سے چھوٹے علاقے تک محدود تھیں، سلطنت عثمانیہ کے خاتمے سے پہلے، کردستان سلطنت عثمانیہ کے کنٹرول میں تھا، اس لیے کردوں کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا، اب جب کہ یہ تقسیم ہو رہا تھا،
کردوں نے بھی مطالبہ کیا۔ کہ انہیں اپنا ایک الگ ملک دیا جائے جب عثمانیوں اور اتحادیوں کے درمیان سیویرس کا معاہدہ ہوا تو کردستان کو خود مختاری دینے کا منصوبہ بھی اس معاہدے میں شامل تھا لیکن یہ منصوبہ ایک منصوبہ ہی رہا اور کبھی عملی جامہ نہ پہنایا اس معاہدے کے بعد ترکوں نے مصطفیٰ کمال اتاترک کی قیادت نے اتحادیوں کے خلاف آزادی کی جنگ شروع کی، مصطفیٰ کمال کی یہ جدوجہد کامیاب ثابت ہوئی اور اس نے جلد ہی اتحادیوں سے وہ علاقے چھین لیے جو پہلے سلطنت کا حصہ تھے اور اتحادیوں نے آپس میں تقسیم کر لیے تھے، اس میں یہ بھی شامل تھا۔ کردستان ریجن کا ایک بڑا علاقہ جو بعد میں ترکی کا حصہ بنا اور یوں 1923 میں جدید ترکی وجود میں آی
ا جس کے بعد ترکوں اور اتحادیوں کے درمیان ایک نیا معاہدہ، معاہدہ لوزان ہوا جس میں نئی سرحد ترکی کا تعین کیا گیا تھا کہ معاہدے میں ایک آزاد کردستان کی کوئی شق نہیں تھی اسی وقت بعد میں شام اور عراق کے آزاد ممالک اتحادیوں کے ذریعے طے کیے جا رہے تھے اس طرح اتحادی طاقتوں کے زیر اثر کردستان کو تین ممالک میں تقسیم کر دیا گیا، ترکی ، عراق اور شام چوتھا ملک جس میں کرد آباد ہیں ایران ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کردستان کا خطہ ایران میں کیسے آیا؟ اس کے لیے ہمیں تاریخ میں چار صدیاں پیچھے جانا پڑے گا جب تقریباً پورا کردستان علاقہ ایرانی سلطنت کے زیر تسلط تھا
17ویں صدی میں ایران نے ترکوں کے خلاف جنگ میں یہ علاقہ کھو دیا تھا اور ایران کے پاس صرف اتنا ہی حصہ رہ گیا تھا۔ کردستان کا علاقہ جو آج بھی اس کے پاس ہے جب سلطنت عثمانیہ کو شکست ہوئی تھی اور اتحادی اسے آپس میں تقسیم کرنے کے معاہدے کر رہے تھے تو اس وقت ایران نے اتحادی طاقتوں سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ کردستان کا علاقہ جو سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر ہے اسے دے دیا جائے۔ لیکن ایران کے ان مطالبات کو اتحادیوں نے فوری طور پر مسترد کر دیا۔ اب معلوم کریں کہ کرد کون ہیں؟ کرد دجلہ اور فرات کے دریاؤں کے ساتھ قدیم میسوپوٹیمیا میں رہنے والے مقامی قبائل سے تعلق رکھتے ہیں ان میں سے زیادہ تر جنوب مشرقی ترکی، شمال مشرقی شام، شمالی عراق اور مغربی ایران میں رہتے ہیں
فی الحال دنیا میں کردوں کی آبادی 30 سے 45 کے لگ بھگ ہے۔ تقریباً نصف ملین کرد ترکی میں رہتے ہیں، جبکہ باقی ایران، عراق، شام اور دنیا کے کچھ دوسرے ممالک جیسے آرمینیا، جرمنی وغیرہ میں رہتے ہیں۔ مختلف ممالک میں رہنے والے کردوں کی زبان اور ثقافت تقریباً عام ہے۔ ان میں زیادہ تر سنی مسلمان ہیں جبکہ کچھ کرد دوسرے عیسائی اور یہودی مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ چار بڑے ممالک کے کردوں نے کبھی آزادی کی کوشش کی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہم جنگ عظیم اول کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں چار بڑے ممالک میں تقسیم ہونے کے بعد کرد آنے والی دہائیوں میں اپنے اپنے ممالک میں آزادی کی جنگ لڑتے رہے
لیکن ان کی آزادی کی کوششوں کو ممالک نے دبایا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جہاں وہ رہتے تھے، ترکی غیر جانبدار تھا لیکن عراق، شام اور ایران کے کرد اتحادی طاقتوں کا ساتھ دیتے رہے ترکی میں کرد شروع سے ہی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ریاست کی طرف سے سخت پابندیوں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ کرد ترکی میں کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں 1991 تک ترکی میں کرد زبان پر پابندی عائد تھی جو لوگ کرد زبان بولتے ہیں اور اس میں کوئی بھی مواد شائع کرتے ہیں انہیں سخت سزا دی جاتی ہے ترکی میں علیحدگی پسند کردوں نے بھی ایک پارٹی بنا لی ہے،
کردستان ورکس پارٹی (PKK) کو 1978 سے ترکی، امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے ترکی کا خیال ہے کہ یہ تنظیم انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اور لاتعداد ترکوں کی ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے یہی وجہ ہے کہ ترکی کا اس حوالے سے رویہ ہے۔ تنظیم ہمیشہ سخت رہی ہے اور ترکی کی حکومت اس تنظیم کے خلاف سخت کارروائیاں کرتی رہتی ہے کرد شام میں سب سے بڑی اقلیت ہیں ترکی کے بعد کرد شام کی کل آبادی کا تقریباً 10 فیصد بنتے ہیں، وہاں کرد نام رکھنے پر بھی پابندی ہے، ایسے نام تبدیل کیے جاتے ہیں۔ عربی ناموں کے ساتھ یہاں بھی حکومت اور کردوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جنگ جاری ہے اور ترکی اب اس جنگ میں شامل ہو گیا ہے جب 1984 میں PKK نے اپنی کارروائیاں شروع کیں تو اس نے عراق اور شام میں بھی حکومت کے خلاف کارروائیاں کیں۔
ان کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، ترکی شام میں عراقی اور خاص کر کرد آبادیوں پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے، پس پردہ ترک حکومت کو بھی شامی حکومت کی حمایت حاصل رہی ہے۔ 2010 کے بعد سے ترکی کی ان سرگرمیوں میں کافی تیزی آئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عرب بہار کے احتجاج کے بعد شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو کردوں نے بھی شامی حکومت کے خلاف کارروائیاں تیز کر دیں انہیں لگا کہ یہ آزادی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اس مقصد کے لیے، انہوں نے SDF کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے، جسے پہلے YPG کہا جاتا تھا، چونکہ ترکی SDF اور PKK دونوں کو ایک ہی تنظیم سمجھتا ہے، اس لیے یہ دونوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن، ترکی کے نیٹو اتحادی، امریکہ، کے ساتھ ایک دلچسپ بات ہے۔
ترک کرد تنظیم پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتی ہے لیکن شامی کرد تنظیم ایس ڈی ایف کے بارے میں اس کے خیالات بالکل مختلف ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ انہیں اسلحہ اور مدد فراہم کرتا رہتا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایس ڈی ایف اس مقصد کے لیے لڑ رہی ہے۔ امریکہ کی حمایت کی وجہ سے ترکی بھی ناراض ہے کہ وہی ہتھیار یہ باغی ترکوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں امریکہ بھی شام میں ایس ڈی ایف کے خلاف کارروائیوں پر ترکی کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور یہ کہہ کر کہ ایس ڈی ایف کے کمزور ہونے کا باعث بن رہا ہے۔ داعش کی مضبوطی ترکی اب شام کی سرحد پر 30 کلومیٹر چوڑا سیف زون بنانا چاہتا ہے تاکہ ترکی اور شامی کرد تنظیموں کے درمیان رابطوں میں رکاوٹ پیدا ہو اور بفر زون قائم کیا جا سکے اس طرح باغیوں کے لیے یہ مشکل ہو جائے گا۔
ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہونا سرحد پر ترکی نے شامی حکومت کی مدد سے کچھ علاقوں پر پہلے ہی کنٹرول حاصل کر لیا ہے لیکن وہ اسے بڑھا کر پورے سرحدی علاقے کو سیف زون بنانا چاہتا ہے ترکی کے مقاصد میں سے ایک محفوظ بنانا ہے۔ یہاں زون شامی پناہ گزینوں کو واپس بھیجنا ہے جو خانہ جنگی کے نتیجے میں ترکی میں آباد ہو گئے ہیں ترکی آنے والے دنوں میں ان مہاجرین کو کرد آبادی کے ساتھ ملا کر خطے میں کردوں کی گرفت کو کم کرنا چاہتا ہے جن کا 15 سے 20 فیصد حصہ کردوں پر مشتمل ہے۔ عراق کی کل آبادی یہاں تک کہ عراقی حکومت کا ان کے ساتھ رویہ شروع سے ہی ایک جیسا رہا ہے 1991 میں پہلی خلیجی جنگ میں حکومت کی جانب سے ان پر شدید دباؤ ڈالا گیا اور عراق میں ایک علیحدہ کرد ریاست کے لیے کوششیں آنے والی دہائیوں میں جاری رہیں۔
سنیوں کی طرف سے شدید تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد عراقی کردستان کو 2005 سے آئین میں نیم خود مختار علاقہ قرار دیا گیا ہے لیکن کردوں کو یہاں مکمل خود مختاری نہیں ملی یا تو یہ کردوں کا مسئلہ بھی بن گیا ہے۔ سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی راہ میں رکاوٹ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سویڈن اور فن لینڈ نے نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواستیں دی ہیں لیکن اس کی منظوری اسی صورت میں ممکن ہوگی جب نیٹو اتحاد کا ہر رکن اس شمولیت کی حمایت کرے کیونکہ ترکی بھی نیٹو کا رکن ہے اس لیے ایسا نہیں ہے۔ اس کی منظوری دینے کے باوجود ترکی کا مطالبہ ہے کہ پناہ لینے والے باغیوں کو ترکی کے حوالے کر دیا جائے کیونکہ امریکا مشرقی یورپ تک اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے نیٹو میں ان دونوں ممالک کی رکنیت چاہتا ہے لیکن وہ براہ راست ترکی کا سامنا بھی نہیں کرنا چاہتا۔
یہی وجہ ہے کہ وہ شام میں ترکی کے حملوں پر صرف تنقید کرتا ہے اور زیادہ سخت رویہ نہیں اپناتا یہ کردوں کی ایک پیچیدہ کہانی تھی جس کے ساتھ بہت سے دوسرے مسائل جڑے ہوئے ہیں اور ابھی تک اس کا کوئی حل نہیں ہے کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکلے گا یا؟ کیا یہ آنے والی صدیوں میں جاری رہے گا؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور لکھیں۔
کوہ قاف | کیا کوہ قاف (قفقاز) ایک حقیقی جگہ ہے؟ | کوہ قاف کہاں واقع ہے؟