Who was Mussolini? مسولینی کون تھا؟ Part-2

انہوں نے مسولینی کے فلسفے پر ایک سیاسی جماعت بنائی اور مسولینی کو اس کا لیڈر بنا ڈالا۔ اس جماعت کا نام مسولینی نے فاشسٹ پارٹی رکھا۔ جس کا مطلب ہے سلاخوں کا گٹھا یا ایک بنڈل۔ پارٹی کو فاشسٹ کا نام دینے کی ایک وجہ یہ تھی کہ مسولینی اسے جنگجوؤں کا گروہ ہی سمجھتا تھا جو انقلاب لے کر آئیں گے۔ جو پارٹی کا نام تھا وہی اس کا نشان تھا یعنی سلاخوں کا ایک بنڈل اور اس کے ساتھ میں ایک کلہاڑا۔ فاشسٹ پارٹی کے دو حصے تھے ایک سیاسی فاشسٹ اور دوسرے عسکری فاشسٹ۔ عسکری فاشسٹ سیاہ شرٹس پہنتے تھے اس لئے وہ یورپ میں بلیک شرٹس کے نام سے مشہور ہوئے۔ مسولینی نے اپنی پارٹی تو بنا لی تھی، لیکن ابھی اس میں ایک کمی تھی۔ وہ یہ کہ کسی قوم پرست جماعت کو اپنی طاقت بڑھانے کیلئے ایک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ اپنی قوم کے تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دے کر اس کے خلاف نفرت کا لاوہ تیار کر سکے اور پھر بوقت ضرورت اسے استعمال کرے۔ مسولینی خوش قسمت تھا، اسے دشمن کی تلاش کیلئے زیادہ غور نہیں کرنا پڑا۔

Who was Mussolini? مسولینی کون تھا؟ Part-2

کیونکہ اس کا پرانا عشق کارل مارکس اور نظریہ سوشلزم، اس کے دشمن کے طور پر سامنے ہی موجود تھا۔ ان دنوں اٹلی میں سوشلسٹ اپنے حقوق کیلئے آئے دن مظاہرے اور ہڑتالیں کرتے تھے، جس سے فیکٹریوں میں کام ٹھپ ہو کر رہ جاتا۔ مسولینی نے اعلان کیا کہ یہی سوشلسٹ عناصر اٹلی کے مسائل کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ان کے مظاہروں اور ہڑتالوں کی وجہ سے ترقی کا پہیہ رک چکا ہے۔ فاشسٹوں نے جلد ہی سوشلسٹ گروپس کے خلاف کھلی جنگ چھیڑ دی۔ ٹریڈ یونینز کے دفاتر جلا دیئے گئے اور سینکڑوں سوشلسٹوں کو مار دیا گیا۔ اس سارے فتنے میں حکومت خاموش تماشائی تھی۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت خود بھی مزدور طبقے کی ہڑتالوں سے تنگ تھی۔ اور شاید دل ہی دل میں خوش بھی ہو کہ حکومت کا کام ایک تنظیم رضاکارانہ کر رہی ہے تو ہمیں ہاتھ ہلانے کی ضرورت کیا ہے۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ سوشلزم کے خلاف لڑائی تو صرف ایک ٹریلر ہے اور اصل فلم ابھی باقی ہے۔

کیونکہ درحقیقت مسولینی پورے اٹلی پر قبضے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس کی تقریریں گواہ ہیں کہ وہ جولیس سیزر بننا چاہتا تھا، وہی جولیس سیزر جو قبل از مسیح میں سلطنت روم کا عظیم شہنشاہ تھا۔ یوں سادگی یا نادانی میں حکومت نے مسولینی کو موقع دے کراپنی ہی موت کا سامان کر لیا تھا۔ مسولینی کی مسلح تنظیم بلیک شرٹس نے شہروں پر قبضے شروع کر دئیے۔ انیس سو بیس تک اٹلی کے زیادہ تر علاقے عملی طور پر فاشسٹوں کے کنٹرول میں جا چکے تھے اور حکومت کی رٹ کہیں بھی نہیں تھی۔ دو سال بعد مسولینی نے حکومت کو الٹی میٹم دے دیا کہ اگر اس نے استعفیٰ دے کر حکومت ان کے حوالے نہ کی۔۔۔ تو اس کے حامی روم کی طرف مارچ کر دیں گے اور زبردستی اقتدار چھین لیں گے۔

مسولینی کا یہ اعلان دراصل اٹلی کے مرکزی شہر پر چڑھائی اور قبضے کا اعلان تھا۔ اٹھائیس اکتوبر 1922 کو فاشسٹ پارٹی کے ہزاروں مسلح کارکن یعنی بلیک شرٹس روم کے باہر جمع ہو گئے۔ انھیں اپنے لیڈر کی طرف سے کال کا انتظار تھا لیکن ان کا لیڈر اپنے ہیڈکوارٹر میلان میں کسی اور کا انتظار کر رہا تھا۔ اور پھر وہ ٹیلیگرام آ گیا، جس کا اسے انتظار تھا۔ ٹیلیگرام پڑھ کر مسولینی کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ اب اسے روم پر چڑھائی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اٹلی کی فوج وزیراعظم کے نہیں بادشاہ کے ماتحت ہوتی تھی، اور بادشاہ عمانویل سوئم نے لکھا تھا اگر مسولینی روم کی طرف مارچ کا ارادہ ترک کر دے تو اسے وزیراعظم بنا دیا جائے گا۔ مسولینی بن ٹھن کرروم پہنچا، بادشاہ سے ملاقات کی اور وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھال لی۔ لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھ دی کہ اسے ایک سال تک ڈکٹیٹر جیسے اختیارات حاصل ہوں گے۔

فاشسٹ پارٹی ایک پوری فوج کا روپ دھار چکی تھی اور بادشاہ بھی بے بس دکھائی دیتا تھا۔ سو اس نے تمام شرائط مان لیں۔ ڈکٹیٹر بننے کے بعد مسولینی نے اپنی پہلی کابینہ تشکیل دی اس میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو ان کی پارٹی کے پرانے کارکن نہیں تھے بلکہ بہت سے تو پارٹی کارکن تک نہیں تھے، یعنی نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھئے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے انیس سو چوبیس میں جب پارلیمنٹ کے الیکشن ہوئے تو مسولینی نے بزور طاقت کھلی دھاندلی کروائی اور اپنے زیادہ تر امیدوار جتوا لئے۔ اب پارلیمنٹ میں بھی مسولینی کے اراکین کی اکثریت تھی۔ اس کے لیے قانون بدلنا آسان ہو چکا تھا اور اب وہ ایک سال کیلئے نہیں بلکہ مستقل ڈکٹیٹر بن چکا تھا۔ اس موقعے پر مسولینی کیلئے سب سے بڑا مسئلہ اس کے سابقہ ولولہ انگیز خطابات بنے ہوئے تھے۔ کیونکہ اس نے خود کو عوام کے سامنے اس طرح پیش کیا تھا جیسے اٹلی کے تمام مسائل کا حل صرف اسی کے پاس ہے جس کے لیے اس کا حکمران بننا بہت ضروری ہے۔ لیکن اب وہ حکمران بن گیا تھا اور اسے معلوم تھا کہ اگر عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہ کئے تو کچھ ہی عرصے میں اٹلی اس سے بیزار ہو جائے گا۔ چنانچہ اس نے اپنی ساری توجہ امن وامان کے قیام اور ترقیاتی کاموں پر لگا دی۔

عوام کی حمایت حاصل کرنے کیلئے اس نے یہ بھی مشہور کیا کہ وہ ایک مذہب پسند انسان ہے۔ اپنی مذہبی عقیدت ثابت کرنے کیلئے اس نے بہت سے جتن کیے۔ جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اس نے روم کے قریب عیسائیت کے مرکز ویٹی کن سٹی کو آزاد ریاست تسلیم کر لیا۔ وہ دن اور آج کا دن، ویٹی کن سٹی دنیا کے انتہائی چھوٹے ملک کے طور پر قائم ہے۔ اپنی مذہبی عقیدت کی دکھاوے کے ساتھ ساتھ وہ مخالفین کو سزائیں بھی دے رہا تھا۔ میڈیا کو پابند کر رہا تھا، ٹریڈ یونینز پر پابندیاں اور سوشلسٹ کارکنوں کی گرفتاریاں بھی جاری تھیں۔ جس وقت مسولینی اٹلی کا حکمران بنا تو یہ دنیا میں بہت نازک وقت تھا۔ سوویت روس میں کمیونسٹ انقلاب آ چکا تھا جو کہ سوشلزم ہی کی ایک شدت پسند شکل ہے۔ اس لئے یورپی طاقتیں اور امریکہ ہر اس شخص کو اپنا اتحادی سمجھ رہے تھے جو سوشلزم کو کچلنے میں ان کا ساتھ دے سکے۔

شاید یہی وجہ تھی کہ مسولینی کے حکومت میں آنے کا مغربی طاقتوں نے کھل کر خیرمقدم کیا۔ عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ الیون نے مسولینی کو سینٹ بائی دا پرویڈینس قرار دیا۔ برطانوی سیاستدان ونسٹن چرچل جو بعد میں وزیراعظم بنے انہوں نے مسولینی کو سب سے بڑا زندہ قانون دان کہا۔ یہی نہیں جب روزویلٹ امریکی صدر بنے تو انہوں نے کہا تھا مسولینی دنیا میں امن کا نمائندہ اور امریکہ کا سب سے بڑا ممکنہ اتحادی ہے۔ مسولینی کی شخصیت اور انقلاب اتنا متاثر کن تھا کہ علامہ اقبال جب انیس سو اکتیس میں گول میز کانفرنس کیلئے لندن آئے تو وہ مسولینی سے ملاقات کرنے اٹلی بھی گئے۔

ملاقات کے بعد علامہ اقبال مسولینی کی شخصیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے مسولینی کے نام پر ایک نظم لکھ ڈالی۔ مسولینی کے مداحوں میں صرف

علامہ اقبال، چرچل اور روزویلٹ ہی شامل نہیں تھے بلکہ جرمنی کا ایک نوجوان سابق فوجی بھی اس میں شامل تھا جو مسولینی کے نقش قدم پر چلنا چاہتا تھا اور اس کا نام تھا ایڈولف ہٹلر۔ ہٹلر نے مسولینی کے فاشزم سے ہی فائدہ اٹھا کر اس کی زیادہ خطرناک شکل نازی ازم بنائی۔ جس کے مطابق جرمن قوم کو دنیا کی بہترین اور بالاتر قوم قرار دے دیا گیا۔ ہٹلرمسولینی کی بہت عزت کرتا تھا۔ انیس سو تینتیس میں اس نے جرمنی کی حکومت سنبھالی تو مسولینی کی ڈکٹیٹرشپ سے قریبی تعلقات رکھے۔ مسولینی نے اس دوستی کے عوض ہٹلر کا یہاں تک ساتھ دیا کہ بہت سے یہودیوں کو ملازمتوں سے محروم کر دیا یا گرفتار کر کے ہٹلر کے پاس بھجوا دیا۔ مسولینی، ہٹلر کو اپنا اتحادی تو سمجھ رہا تھا لیکن ذاتی سطح پر وہ ہٹلر کوزیادہ پسند نہیں کرتا تھا۔

Read More How was a mentally distorted nation restored? ذہنی طور پر مسخ شدہ قوم کیسے بحال ہوئی؟

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *