Who was Mughal Queen Noor Jahan? مغل ملکہ نورجہاں کون تھیں؟

چھبیس جون پندرہ سو انتالیس میں موجودہ بھارتی ریاست بہار کے علاقے چاؤسا میں دو فوجیں ٹکرائیں اور ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم فیصلہ ہوا۔ اس جنگ میں مغل شہنشاہ ہمایوں کو شکست ہوئی اور ایک پٹھان شیرشاہ سوری ہندوستان کا حکمران بنا۔ ہمایوں فرار ہو کر موجودہ افغان صوبے ہرات چلا گیا جو اس وقت ایران کی صفوی سلطنت کے صوبہ خراسان کا حصہ تھا۔ خراسان کے ایرانی حاکم کے وزیر خواجہ محمد شریف نے ہمایوں کی خوب آؤبھگت کی۔ برسوں بعد ہمایوں کو تو اپنی سلطنت واپس مل گئی لیکن ایران میں اس کے میزبانوں کے برے دن آ گئے۔ ہوا یوں کہ خواجہ محمد شریف کا انتقال ہو گیا۔۔ اور اس کے دشمنوں نے شاہِ ایران کے دربار میں اس خاندان کی اتنی چغلیاں کیں کہ شاہِ ایران نے اس کی اولاد کی ساری جائیداد ہی ضبط کر لی۔ خواجہ شریف کے بیٹے مرزا غیاث بیگ کو جلاوطن کر دیا گیا۔۔۔ اور وہ بھی اس حال میں کہ سفر کیلئے صرف ایک بوڑھا گھوڑا، ایک اونٹ اور کچھ کھانے پینے کا سامان دیا گیا۔

Who was Mughal Queen Noor Jahan? مغل ملکہ نورجہاں کون تھیں؟

مرزا غیاث کے ساتھ اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ اس خاندان نے ہندوستان کی راہ لی۔ راستے میں قندھار کے صحرا میں مرزا غیاث کی بیوی عصمت النساء نے ایک درخت کے نیچے ایک بیٹی کو جنم دیا۔ میں ہوں محمد اسامہ غازی اور دیکھو سنو جانو کی وہ کون تھا سیریز میں ہم آپ کو صحرا میں جنم لینے والی اس لڑکی کی داستان دکھا رہے ہیں۔۔۔ جو بعد میں نور جہاں کے نام سے ملکہ ہندوستان بنی۔ نور جہاں جب پیدا ہوئی تو اس کے ماں باپ بدترین دن دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ تو اسے سفر کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت ہی سمجھ رہے تھے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے بچی کو راستے میں ایک جنگل میں چھوڑ دیا۔ ایک انگوٹھی جس پر مذہبی کلمات نقش تھے ڈوری سے باندھ کر بچی کے گلے میں ڈال دی گئی، تاکہ وہ جانوروں اور دیگر آفات سے محفوظ رہے۔ ان کے جانے کے بعد ایک قافلہ وہاں سے گزرا اور ایک سوار نے اس بچی کو انگوٹھا چوستے دیکھا اور اسے اٹھا کر باقی لوگوں کے پاس لے آیا۔ اس حوالے سے قصہ مشہور ہے کہ گھڑسوار نے دیکھا کہ بچی کے سرہانے ایک سانپ یوں بیٹھا تھا جیسے اس کی حفاظت کر رہا ہو۔

اس نے سانپ کو مخاطب کر کے کہا کہ اے قدرت کے محافظ اگر تم ہٹ جاؤ۔۔۔ تو میں اس بچی کی پرورش کروں گا اور حیرت انگیز طور پر سانپ سامنے سے ہٹ گیا اور سوار نے بچی کو گود میں لے لیا۔ سوار بچی کو لے کر قافلے کے سوداگر ملک مسعود کے پاس گیا اور اسے یہ واقعہ سنایا۔ سوداگر نے بچی کو ساتھ رکھ لیا اور نزدیکی گاؤں میں پہنچ کر بچی کو دودھ پلانے کیلئے کسی خاتون کو ڈھونڈنے لگا۔ اور اتفاق دیکھئے کہ مرزا غیاث اور اس کے خاندان والے بھی اسی گاؤں میں ٹھہرے تھے۔ انہوں نے سوداگر کے پاس اپنی بچی کو دیکھ لیا اور اسے بتا دیا کہ یہ ان کی بیٹی ہے۔ سوداگر نے بچی اس کے اصل والدین کو سونپ دی ۔۔۔ اور جب اس نے سنا کہ مرزا غیاث خراسان کے سابق وزیر کا بیٹا ہے تو وہ اس خاندان کو اپنے ساتھ آگرہ لے گیا۔ اس نے مرزا غیاث کو شاہی دربار میں پیش کر دیا۔ تب ہندوستان پر ہمایوں کے بیٹے اکبر کی حکومت تھی۔ اور جب شہنشاہ اکبر کو پتا چلا کہ مرزا غیاث، خواجہ محمد شریف کا بیٹا ہے جس نے اس کے والد ہمایوں کی خدمت کی تھی۔۔۔

تو اکبر نے مرزا غیاث کو اپنے دربار میں ملازمت دے دی۔ یوں وہ مرزا غیاث جو پھٹے حالوں آگرہ پہنچا تھا وہ جلد ہی چھتیس کارخانوں کا مالک بن گیا۔ اب وہی بیٹی جسے کبھی اس نے منحوس سمجھ کر جنگل میں چھوڑا تھا اسی بیٹی کو وہ اپنے لئے مبارک سمجھنے لگا تھا۔ جب وہ پانچ برس کی ہوئی تو جشنِ نوروز پر اس کا نام رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ اس کی والدہ تو اسے مہرالنساء کے نام سے پکارتی تھی۔ لیکن جشن نوروز پر قرآن پاک سے فال نکالی گئی تو جو آیت سامنے آئی اس کا پہلا لفظ الشمس یعنی سورج تھا۔ چنانچہ مہرالنساء کو شمس النساء کا نام دے دیا گیا۔ یہی اس کا اصل نام تھا لیکن وہ اپنے پرانے نام مہرالنساء سے ہی مشہور ہوئی۔ مرزا غیاث کا خاندان شاہی محل میں رہتا تھا اور مہرالنساء کو بھی شاہی محل کے طور طریقوں کی مکمل تربیت دی گئی۔ یہی نہیں اس نے تیراکی، نیزہ بازی، تیراندازی اور شہسواری بھی سیکھ لی تھی۔ مہرالنسا کو فارسی اور عربی کی بھی تعلیم دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ وہ شاعری بھی کرتی تھی۔ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود مہرالنساء شاید تاریخ میں گمنام ہی رہتی اگر شہنشاہ جہانگیر اسے اپنی ملکہ بنا کر نور جہاں کا خطاب نہ دیتا۔ لیکن ہندوستانی تاریخ کی یہ مشہور شادی ہوئی کیسے؟

اس واقعے کو دو طرح سے بیان کیا جاتا ہے۔ ایک قصہ تو یہ ہے کہ مہرالنساء کا تیرہ چودہ برس کی عمر میں شاہی محل میں شہزادہ سلیم یعنی جہانگیر سے سامنا ہو گیا تھا۔ شہزادہ سلیم کبوتر بازی کا شوقین تھا اس نے مہرالنساء کو دو کبوتر پکڑائے اور انتظار کرنے کو کہہ کر تیسرے کبوتر کو پکڑنے چلا گیا۔ جب وہ واپس آیا تو دیکھا کہ مہرالنساء کے ہاتھ سے ایک کبوتر اڑ چکا ہے۔ اس نے غصے میں پوچھا یہ کبوتر کیسے اڑ گیا تو مہرالنساء نے گھبرا کر دوسرا کبوتر بھی چھوڑ دیا اور کہا ایسے۔ کہتے ہیں مہرالنساء کی اس ادا پر شہزادہ سلیم مر مٹا۔ جب سلیم کے والد اکبر کو معلوم ہوا کہ شہزادہ سلیم کو مہرالنساء سے عشق ہو گیا ہے۔۔۔ تو اسے خدشہ ہوا کہ کہیں مرزا غیاث اپنی بیٹی کے ذریعے سلطنت پر قبضے کا منصوبہ تو نہیں بنا رہا۔ اس نے مرزا غیاث کو مجبور کر کے مہرالنساء کی شادی اپنے ایک ایرانی نوجوان درباری علی قلی سے کر دی۔ کہتے ہیں اکبر نے اس کا شیر سے مقابلہ کروایا تھا۔ علی قلی نے تلوار سے شیر کو مار ڈالا جس پر اکبر نے خوش ہو کر اسے شیرافگن کا خطاب دے دیا۔ شہنشاہ نے شیرافگن کو صوبہ بنگال میں ایک جاگیر دے کر بیوی سمیت وہاں بھیج دیا۔ شیرافگن اور مہرالنساء کی ایک بیٹی لاڈلی بیگم بھی پیدا ہوئی۔ لیکن شہزادہ سلیم کے دل میں عشق کی آگ مدھم نہیں ہوئی۔ اور نور جہاں کی شادی کے 11 برس بعد جب 1605 میں شہزادہ سلیم، جہانگیر کے نام سے بادشاہ بنا۔۔۔ تو اس نے اپنی محبت کو واپس حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس نے اپنے دودھ شریک بھائی قطب الدین کو صوبہ بنگال کا گورنر بنا کر بھیج دیا۔ قطب الدین خود شیرافگن کی جاگیر پر پہنچا اور اس سے کہا کہ بادشاہ کی خوشی کیلئے مہرالنساء کو طلاق دے دو۔ غیرت مند شیرافگن سے یہ بات برداشت نہ ہوئی اور اس نے تلوار نکال کر قطب الدین کو قتل کر دیا۔ قطب الدین کے سپاہیوں نے شیرافگن کو بھی مارڈالا۔ سپاہی مہرالنساء کو گرفتار کر کے آگرے کے شاہی محل لے گئے۔ مہرالنساء کو جہانگیر کی رضاعی ماں سلیمہ بیگم کے حوالے کر دیا گیا۔۔۔ جس نے دو سال تک مہرالنساء کی برین واشنگ کر کے اسے جہانگیر سے شادی پر راضی کر لیا۔۔۔ اور یوں سولہ سو گیارہ میں جہانگیر کی مہرالنساء سے شادی ہو گئی۔ جہانگیر نے اپنی ملکہ کو نور محل اور نور جہاں کے خطاب دیئے جن میں سے نور جہاں زیادہ مشہور ہو گیا۔ نور جہاں اختیار اور دولت ملتے ہی اپنی نئی زندگی میں کھو گئی اور اس شوہر کو بھول گئی جس نے اس کی خاطر جان دی تھی۔ یہ تو تھا تاریخ کا ایک ورژن لیکن اس تاریخ کا ایک دوسرا ورژن بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہانگیر، نور جہاں کو بالکل بھی نہیں جانتا تھا۔ جہانگیر نے تزک جہانگیری میں خود لکھوایا ہے کہ شیرافگن کو بغاوت کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔ یہی نہیں اس وقت شاہی دربار کے حالات بھی بہت خراب تھے۔

جہانگیر کے ایک بیٹے خسرو نے اس کے خلاف بغاوت کی تھی۔ جہانگیر نے خسرو کو گرفتار کر لیا اور اس کے حمایتی درباریوں کو قتل کر دیا جن میں ایک نورجہاں کا بھائی محمد شریف بھی تھا۔ جبکہ نورجہاں کے دوسرے بھائی آصف جاہ اور والد مرزا غیاث کو بھی دربار سے نکال دیا گیا تھا۔ اس دوران نور جہاں قید ہو کر آگرے کے شاہی محل میں آئی تو اسے سلیمہ بیگم نہیں۔۔۔ بلکہ جہانگیر کی سوتیلی ماں رقیہ سلطان بیگم کے کنٹرول میں دیا گیا تھا۔ جہانگیر اپنی سوتیلی ماں سے ملنے آیا تو اس نے نور جہاں کو دیکھا اور اس پر عاشق ہو گیا اور اس سے شادی کر لی۔ اب تاریخ کا کون سا ورژن سچ ہے اور کون سا جھوٹ یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ لیکن ایک حقیقت اپنی جگہ ہے کہ نور جہاں نے شادی کے بعد اپنی محبت یا چالاکی سے جہانگیر کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں کر لیا۔ وہ کہلاتی تو بادشاہ بیگم تھی لیکن حقیقت میں بیگم کا لفظ تو بس فارمیلٹی تھا اصل میں تو وہ بادشاہ ہی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ نور جہاں نے بادشاہوں کی طرح اپنے نام کے سکے بھی جاری کروا دیئے۔ شاہی فرمانوں پر لکھا ہوتا تھا حکم علیتہ العالیہ نور جہاں بیگم بادشاہ۔ جہانگیر خود کہا کرتا تھا کہ میں اپنی سلطنت نور جہاں کو سونپ چکا ہوں۔ مجھے صرف ایک سیر شراب اور آدھ سیر گوشت کے سوا کچھ نہیں چاہیئے۔ جہانگیر کو شراب نوشی کے علاوہ شکار کا بھی شوق تھا اور وہ بھی شیروں کے۔ وہ اکثر نور جہاں کو بھی ساتھ لے جاتا تھا۔ سپاہی ہانکا کر کے شیروں کو ان کی پناہ گاہوں سے باہر نکالتے اور ہاتھی پر بیٹھا بادشاہ شیر کو گولی مار دیتا۔ اس میں خطرہ بھی تھا کیونکہ ٹائیگر دس سے پندرہ فٹ بلندی تک اچھل سکتا ہے۔ یعنی ہاتھی پر بیٹھے شخص کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔

ایسا ہی واقعہ جہانگیر کے ساتھ بھی ہوا۔ ایک شکار کے دوران جہانگیر ہاتھی پر بیٹھا تھا ہانکا کرتے ہوئے سپاہی ادھر ادھر بکھر گئے۔ ادھر شہنشاہ کو نیند آ گئی۔ اچانک ایک شیر جنگل سے نکلا اور اچھل کر ہاتھی پر چڑھ گیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ شہنشاہ کو کوئی نقصان پہنچاتا نور جہاں نے شیر کے سر میں گولی مار کر اسے وہیں ڈھیر کر دیا۔ گولی کی آواز سے شہنشاہ کی آنکھ بھی کھل گئی اور وہ اپنی جان بچانے پر نورجہاں کا شکرگزار ہوا۔ ایک اور موقع پر نور جہاں نے چھے گولیوں سے چار شیر مار ڈالے۔ ان شیروں کو مارنے کے بعد نورجہاں نے فارسی میں شعر پڑھا۔۔۔ جس کا مطلب کچھ اس طرح ہے کہ نورجہاں صرف ایک حسین عورت ہی نہیں ہے بلکہ وہ مردوں کی طرح شیروں کو بھی ڈھیر کر سکتی ہے۔ نورجہاں کے ملکہ بنتے ہی اس کے خاندان کی مشکلات بھی ختم ہو گئیں۔ نورجہاں کے کہنے پر جہانگیر نے اس کے والد اور بھائی کو دوبارہ دربار میں جگہ دے دی۔

جہانگیر کے سُسر مرزا غیاث کو وزیراعظم بنا کر اعتماد الدولہ کا خطاب دیا گیا اور آصف جاہ کو بھی دربار میں اہم عہدے ملے۔ یعنی نور جہاں ایک بار پھر اپنے مصیبت زدہ خاندان کیلئے مبارک ثابت ہوئی۔ اس نے صرف اپنے باپ اور بھائی کو عہدے ہی نہیں دلوائے۔۔۔ بلکہ نور جہاں نے اپنی بیٹی لاڈلی بیگم کی شادی جہانگیر کے ایک دوسرے بیوی سے بیٹے شہریار سے کر دی۔۔۔ جبکہ اپنی بھتیجی یعنی آصف جاہ کی بیٹی ارجمند بانو کی شادی شہزادہ خرم سے کر دی۔ یہ وہی ارجمند بانو ہے جو تاریخ میں ممتاز محل کے نام سے مشہور ہوئی اور جس کا مقبرہ تاج محل آج بھی دنیا میں محبت کی علامت ہے۔ نور جہاں صرف اپنے خاندان پر ہی مہربان نہیں تھی بلکہ اپنے پرانے محسن کو بھی نہیں بھولی۔ وہ جب ملکہ بنی تو مسعود سوداگر جس نے ننھی نورجہاں کو اس کے ماں باپ سے ملوایا تھا انتقال کر چکا تھا۔ نور جہاں نے اس کے بیٹے ملک محمود کو ایران سے بلوا کر لاکھوں روپے نقد، گھوڑے اور بہت سا قیمتی سامان تحفے میں دیا۔ اپنے محسن کی قبر کی تعمیر کیلئے پچاس ہزار روپے الگ سے دیئے۔

جس جگہ قندھار میں نورجہاں کے والدین اسے چھوڑ گئے تھے وہاں نور جہاں نے ایک کنواں کھدوایا اور مسافروں کیلئے ایک عمارت بھی بنوائی۔ اس کی فیاضی اور سخاوت کے اور بھی کئی واقعات مشہور ہیں۔ لیکن ملکہ کی حیثیت میں نور جہاں کا سب سے بڑا چیلنج جہانگیر کی زندگی کے آخری دنوں میں پیش آیا۔ ہوا یوں کہ جہانگیر اپنی فوج کے ساتھ دریائے جہلم کے پاس ٹھہرا ہوا تھا۔ شہنشاہ کا خیمہ فوج کے مرکزی حصے سے دور دریا کے دوسرے کنارے پر تھا۔ جہانگیر کے ایک جرنیل مہابت خان نے جب یہ منظر دیکھا تو اس نے اپنے راجپوت سپاہیوں کے ذریعے دریا کے پل پر قبضہ کر لیا۔۔ اور شہنشاہ کو بھی گرفتار کر لیا۔ اس بغاوت کی وجہ یہ تھی کہ مہابت خان نے کچھ فوجی مہمات کا حساب شاہی خزانے میں جمع نہیں کرایا تھا۔ اور شہنشاہ اس سے ناراض تھا۔ مہابت خان نے شہنشاہ سے زبردستی یہ حکم جاری کروایا کہ اب مہابت خان اس کا وزیراعظم ہے۔ ادھر دریا پار شاہی سپاہیوں نے دیکھا کہ شہنشاہ کو قید کر لیا گیا ہے تو انہوں نے دریا پار کرنے کی کوشش کی۔

لیکن مہابت خان کے سپاہیوں نے تیروں کی بارش کر کے شاہی فوج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ دوسرے دن نورجہاں خود فوج لے کر بڑھی۔ وہ ایک ہاتھی پر بیٹھی تھی اور اس کی گود میں اپنی شیرخوار نواسی تھی۔ مہابت خان کے سپاہیوں نے پھر تیروں کی بارش کی، شاہی فوج الٹے پاؤں بھاگی۔ نور جہاں کی نواسی بھی تیر لگنے سے زخمی ہو گئی اور نور جہاں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ وہ دوبارہ حملے کا منصوبہ بنا رہی تھی لیکن مہابت خان نے شہنشاہ کو مجبور کیا کہ وہ نور جہاں کو سرنڈر کرنے کا حکم دے۔ شہنشاہ نے حکم دے دیا اور اس حکم پر نور جہاں نے سرنڈر بھی کر دیا۔ اب نور جہاں بھی شاہی فوج کے ساتھ مہابت خان کی قیدی بن گئی تھی۔ مہابت خان نے جہانگیر سے دوسری فرمائش یہ کی کہ نور جہاں کے قتل کا حکم جاری کرو۔ جہانگیر نے قتل کا حکم جاری کر دیا۔ جب یہ حکم نور جہاں کو دکھایا گیا تو اس نے حکم نامے کی پشت پر لکھ دیا کہ میں شہنشاہ کے حکم پر سر تسلیم خم کرتی ہوں۔۔۔ لیکن مرنے سے پہلے ایک بار شہنشاہ سے ملنا چاہتی ہوں۔

جہانگیر نے یہ بات پڑھی تو اس نے مہابت خان کی منت سماجت کی کہ آخری بار نور جہاں سے مل لینے دو۔ جب نور جہاں کو شہنشاہ کے سامنے لایا گیا تو اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑی تھیں، بال بکھرے تھے اور چہرہ اداس تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر جہانگیر کو اتنا دکھ ہوا کہ اس نے اپنی جان کا خطرہ ہونے کے باوجود نور جہاں کے قتل کا حکم واپس لے لیا۔ مہابت خان کو اس بات پر غصہ تو بہت آیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ شہنشاہ کے حکم کے بغیر نور جہاں کو قتل نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ اگر وہ ملکہ کو زبردستی قتل کر دیتا تو سارے ہندوستان میں اس کا سخت ردعمل ہوتا اور مغل اس کے دشمن بن جاتے۔ چنانچہ وہ خاموش ہو گیا۔

نور جہاں نے اپنی جان بخشی ہوتے ہی مہابت خان کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے اپنا لاکھوں روپے کا زیور بیچ دیا اور اس پیسے سے خفیہ طور پر افغان سپاہی بھرتی کر لئے۔ لاہور سے بھی اپنی مدد کیلئے دو ہزار اضافی فوج بلوا لی۔ شاہی فوج پہلے ہی ملکہ کے ساتھ تھی، نور جہاں نے مہابت خان کے بہت سے افسروں کو بھی خرید لیا۔ مہابت خان کو بہت دیر سے احساس ہوا کہ نور جہاں کے مقابلے میں اس کے وفادار بہت تھوڑے رہ گئے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ جان بچا کر بھاگا اور دکن میں شہزادہ خرم کے پاس پناہ حاصل کر لی۔

نور جہاں نے جہانگیر کو مہابت خان سے تو بچا لیا لیکن موت سے نہ بچا سکی۔ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد جہانگیر کا کشمیر سے واپسی پر انتقال ہو گیا۔ جہانگیر کے دو بیٹے خسرو اور پرویز اس کی زندگی میں ہی مر چکے تھے۔ اب تخت کے صرف دو دعویدار تھے شہزادہ شہریار اور شہزادہ خرم۔ نور جہاں کی بھی جہانگیر سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی اس لئے وہ اپنے داماد لاڈلی بیگم کے شوہر شہریار کو شہنشاہ بنانا چاہتی تھی۔۔۔

لیکن اس کا اپنا بھائی آصف جاہ اپنے داماد شہزادہ خرم کے حق میں تھا۔ حالانکہ نورجہاں نے ہی آصف جاہ کو دربار میں عہدے دلوائے تھے اور اس کی بیٹی کی شادی خرم سے کرائی تھی۔ لیکن آصف جاہ نے احسان فراموشی کرتے ہوئے بہن کو نظربند کر دیا۔ لیکن اس دوران نورجہاں کے داماد شہریار نے شہنشاہی کا اعلان کر دیا۔ مگر اس کی حکومت صرف تین ماہ ہی چل سکی۔ لاہور کے قریب آصف جاہ اور شہریار میں ایک اہم جنگ ہوئی جس میں شہنشاہ شہریار کو شکست ہوئی اور وہ گرفتار ہو گیا۔ آصف جاہ نے شہریار کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیں اور اسے قید خانے میں ڈال دیا۔

اب آصف جاہ کے داماد شہزادہ خرم نے ہندوستان کا تخت سنبھال لیا اور شاہ جہاں کے نام سے حکومت کرنے لگا۔ شاہ جہاں نے تخت سبنھالتے ہی شہریار کو قتل کروا دیا۔ لیکن اس نے نور جہاں کو رہا کر دیا اور دو لاکھ یا بیس لاکھ روپے سالانہ وظیفہ مقرر کر دیا۔ نور جہاں نے بیوگی کے اٹھارہ برس لاہور میں ہی کاٹے اور اپنی نگرانی میں جہانگیر کا مقبرہ بنوایا۔ سترہ دسمبر سولہ سو پینتالیس کو اڑسٹھ برس کی عمر میں نورجہاں کا بھی انتقال ہو گیا۔ نور جہاں نے اپنا کفن اپنی زندگی میں ہی ایران سے تیار کروایا تھا جس پر قرآنی آیات اور مقدس نام بھی لکھوائے تھے۔ اس کفن کو مکہ معظمہ بھیج کر آب زم زم سے دھلوایا بھی گیا تھا۔ نور جہاں کے جنازے میں ساٹھ ہزار لوگ آئے جن میں زیادہ تر وہ غریب لوگ تھے جن کی نورجہاں مدد کرتی تھی۔ اس کی میت کو یتیم بچوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا اور لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ نور جہاں کو بھی اپنے محبوب شوہر جہانگیر کے مقبرے میں ہی دفن کر دیا گیا۔ جسے آپ آج بھی بڈھے دریا، دریائے راوی کے کنارے شاہدرہ باغ میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہندوستان کی ملکہ نور جہاں کی داستان آپ نے دیکھی۔۔۔ لیکن اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ امریکہ، روس، چین، پاکستان، اسرائیل، بھارت اور کینیڈا جیسے بڑے بڑے ممالک کی کمزوریاں کیا ہیں۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *