جب ڈھاکہ ہم سے ختم ہو گیا -پاکستان کی کہانی
3 دسمبر 1971 کو جنرل یحییٰ خان ایک اہم مشن پر جلدی میں ایوانِ صدر سے نکل رہے تھے۔ انہیں بھارت پر حملے کیلئے جانے والے پاکستانی طیاروں کی پرواز کا نظارہ کرنا تھا۔ ابھی ان کی جیپ ایوان صدر کے گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی کہ ایک بڑے گدھ نے ان کا راستہ روک لیا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے جنرل حمید نے ہورن بجایا لیکن گدھ ٹس سے مس نہ ہوا۔ جنرل یحییٰ خود گاڑی سے اترے اور اپنی چھڑی سے اسے ہٹانے کی کوشش کی مگر وہ پھر بھی نہ اڑا۔ ایوان صدر کے باغ کا ایک مالی دوڑتا ہوا آیا اور اس نے بڑی مشکل سے گدھ کو راستے سے ہٹایا۔ جنرل یحییٰ خان اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ پھر کیا ہوا؟
جب ڈھاکہ ہم سے ختم ہو گیا -پاکستان کی کہانی
جنرل یحییٰ اور جنرل نیازی نے کیسے پاک بھارت 71 کی جنگ لڑی۔ میں ہوں فیصل وڑائچ اور دیکھو سنو جانو کی سیریز 71 میں ہوا کیا تھا کی آخری قسط میں ہم آپ کو یہی سب دکھائیں گے بھارت الزام لگاتا ہے کہ 71 کی جنگ میں پاکستان نے پہلے11بھارتی ائربیسز پر حملہ کیا تھا جس کی وجہ سے یہ جنگ شروع ہوئی۔ لیکن71 کی جنگ کا آغاز دراصل بھارت نے جون 1971سے ہی کر دیا تھا۔ پہلے اس نے توپخانے سے مشرقی پاکستان کے مختلف علاقوں پر بمباری شروع کر دی۔ نومبر کے آخر تک بھارت نے مشرقی پاکستان کے 3000 مربع میل علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ 19 نومبر کو جیسور سیکٹر میں ایک شدید جھڑپ ہوئی اور21 نومبر کو اسی جگہ دوبارہ لڑائی میں 2 پاکستانی طیارے بھی تباہ ہو گئے۔
27 نومبر کو جنرل نیازی اگلے مورچوں کا دورہ کر رہے تھے تو وہ ایک جگہ رک کر چکن تکہ کھانے لگے۔ یہاں صحافیوں نے ان سے پوچھا آپ کے خیال میں بھرپور جنگ کب ہو گی؟ جنرل نیازی نے چکن تکے کی پلیٹ سے سر اٹھا کر کہا میرے لئے تو بھرپور جنگ پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔ بھارتی پیش قدمی کی وجہ سے جنرل یحییٰ نے مغربی پاکستان کی طرف سے بھی بھارت کے خلاف محاذ کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اصل میں پاک فوج کا ڈیفنس ڈاکٹرائن یہی تھا کہ اگر بھارت مشرقی پاکستان پر حملہ کرے گا تو پاکستان مغربی محاذ پر اسے بھرپور جواب دے گا۔ 3 دسمبر کو ڈی ڈے یعنی حملے کا دن تھا، فیصلے کا دن اور اس روز جنرل یحیٰ خود پاکستانی لڑاکا طیاروں کی پرواز دیکھنے پہنچے۔ 3 دسمبر1971 کو ساڑھے چار بجے صدر یحییٰ خان نے ریڈیو پر بھارت کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ جنرل یحییٰ کی تقریر سننے والے پاکستانی پائلٹس پر ایک جوش طاری ہو گیا۔ ائربیسز پر اللہ اکبر کے نعرے بلند ہوئے اور لڑاکا طیارے گرجتے ہوئے فضاء کی بلندیوں کو چھونے لگے۔
پاک فضائیہ نے امرتسر، پٹھانکوٹ، جودھ پور، امبالہ اور آگرہ سمیت 11 بھارتی ائربیسز کو نشانہ بنایا۔ لیکن پاک فضائیہ کے اس حملے میں فرید کوٹ میں صرف ایک بھارتی طیارہ تباہ ہوا اور کچھ بھارتی ائربیسز کی رن ویز چند گھنٹوں کیلئے بیکار ہو گئے۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو شاید اسی موقعے کا انتظار تھا۔ انہوں نے پاکستان کوحملہ آوور قرار دیتے ہوئے کھلی جنگ کا اعلان کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں اس وقت پاک آرمی کی کل تعداد تقریباً 45 ہزار تک تھی جن کی مدد کیلئے 73 ہزار رضاکاروں کو بھی تیار کیا تھا۔ ان میں جماعت اسلامی کے رضاکاروں پر مشتمل البدر اور دینی مدارس کے طلبہ پر مشتمل الشمس فورس بھی شامل تھی۔ ان رضاکاروں کو صرف 2 ہفتوں کی جنگی تربیت دی گئی تھی اور ان کے پاس بھی زیادہ تر پرانی رائفلز ہی تھیں جن کے ساتھ بھارتی فوج کا مقابلہ ناممکن تھا۔
اصل جنگ ریگولر45 ہزار فوجیوں ہی کو لڑنا تھی جبکہ اس فورس کے مقابلے میں بھارت کے پاس ریگولر آرمی، بارڈر سیکیورٹی فورسز اور ایک لاکھ مکتی باہنی کو ملا کر اڑھائی سے تین لاکھ کی فورس موجود تھی۔ ہتھیاروں میں بھی بھارت کو برتری حاصل تھی۔ پاکستانی ٹینک رات کے وقت لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ جبکہ بھارتی ٹینکوں میں نائٹ ویژن آلات نصب تھے۔ پاکستان کے 14 پرانے سیبر لڑاکا طیاروں کے مقابلے میں بھارت کے پاس سپرسانک مگ ٹوئنٹی ون سمیت تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد جدید طیارے تھے۔ اسی طرح پاک بحریہ کے پاس مشرقی پاکستان میں صرف4 بڑی بوٹس تھیں جو انڈین نیوی کے ائرکرافٹ کیریئر وکرانت اور جدید فریگیٹس کے مقابلے میں بالکل بیکار تھیں۔ اس کے علاوہ بھارت کو مشرقی پاکستان کی بنگالی آبادی کے بڑے حصے کا تعاون بھی حاصل تھا۔ تو اب پاکستانی فورسز مغربی پاکستان سے تقریباً 1600 کلومیٹر دور، 3اطراف سے دشمن کے مکمل گھیرے میں تھیں۔ اب انہیں بھارت کی پوری جنگی مشینری اور بنگالی مکتی باہنی کا مقابلہ کرنا تھا اور وہ بھی ائرفورس اور نیوی کے بغیر۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھارت نے حملہ شروع کیا تو تباہی مچ گئی۔ انڈین ائرفورس کی شدید بمباری سے پاک بحریہ صرف 24 گھنٹے میں بیکار ہو گئی۔
6 دسمبر کی صبح بھارتی لڑاکا طیاروں نے ڈھاکہ ائرپورٹ کا رن وے تباہ کر کے پاک فضائیہ کو بھی بیکار کر دیا۔ لیکن بیکار ہونے سے پہلے پہلے پاک فضائیہ نے دشمن کو بہت ٹف ٹائم دیا تھا۔ ڈاگ فائٹس میں پاک فضائیہ کے صرف 2 طیارے تباہ ہوئے تھے جبکہ بھارت کے 13 طیارے تباہ ہوئے تھے۔ زمینی محاذ پر بھارتی فوج کو کئی کامیابیاں مکتی باہنی کی مدد سے ملیں۔ مکتی باہنی کے لوگ چونکہ مشرقی پاکستان کے چپے چپے سے واقف تھے اس لئے ان کی مدد سے بھارتی فوج نے ہر جگہ پاک فوج کو گھیرنا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے بھارت نےجیسورپر قبضے کیااور پھر آگے بڑھنا شروع کیا بھارتی فوجی جن علاقوں پر قبضہ کرتےجاتے تھے وہاں سویلینز کو ٹارچر کرتے تھے جس میں سے ایک واقعے کی وڈیو آپ دیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی فوجی مسلسل پیچھے ہٹ رہے تھے لیکن کئی پاکستانی سولجرزایسے تھے جنہوں نے پیچھے ہٹنے کے بجائے جان قربان کرنے کو اولیت دی ان میں سےایک پاکستانی حوالدار حکمداد بھی تھے جنھوں نے بوگرہ میں تنِ تنہا کئی بھارتی حملے پسپا کیے اور دلیری سے لڑتے ہوئے اپنے مورچے میں ہی شہید ہو گئے۔
مشرقی پاکستان کے بارے میں ایک اہم بات یہ ذہن میں رکھیں کہ پاکستانی کمانڈرز کا خیال تھا کہ یہاں ٹینک نہیں آ سکتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے میں دریا تھے کچھ علاقے دلدلی تھے یا پھر وہاں گھنا جنگل تھا۔ چنانچہ جب بھارت نے مشرقی پاکستان میں بڑے پیمانے پر ٹینک داخل کرنا شروع کئے تو پاکستانی کمانڈرز کو فوری طور پر یقین ہی نہیں آیاکہ ایسا ہو گیا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ کوہلی کے قریب چرائی کے مقام پر پیش آیا۔ ایک پلاٹون کمانڈر نے اپنے افسر کو وائرلیس پر بتایا کہ دشمن کے ٹینک آگے بڑھ رہے ہیں۔ افسر نے کہا بیوقوف یہاں ٹینک کہاں سے آ گئے۔ تم نے شام کے وقت بھینسیں دیکھ لی ہوں گی۔ پلاٹون کمانڈر نے کہا جناب آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن ان بھینسوں پر توپیں بھی فٹ ہیں اور یہ توپیں ہمارے مورچے تباہ کر رہی ہیں۔
اسی مقام کے نزدیک میجر محمد اکرم نے ایک کمپنی کے ساتھ بھارتی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن 8 دسمبر کو وہ توپ کا گولہ لگنے سے شہید ہو گئے۔ انہیں شہادت کے بعد ان کی بہادری پرنشانِ حیدر سے نوازا گیا۔ یہ قربانیاں اور جنگ ابھی جاری تھی لیکن جنرل نیازی ہار مان چکے تھے۔ معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے، لیکن کیوں؟ باقاعدہ جنگ شروع ہونے کے پانچویں روز یعنی7دسمبر تک پاک فوج کو مشرقی پاکستان کے زیادہ تر سیکٹرز میں شکست ہو چکی تھی۔ ان حالات میں 7 دسمبر کی شام مشرقی پاکستان کے گورنر اے ایم مالک نے جنرل نیازی سے ملاقات کر کے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی تو جنرل نیازی بے اختیار رونے لگے۔ جنرل نیازی کے رونے سے گورنر سمجھ گئے کہ صورتحال بے قابو ہو چکی ہے۔ چنانچہ انہوں نے جنگ بندی کیلئے صدر جنرل یحییٰ خان کو پیغام پر پیغام بھیجنا شروع کیے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
ادھر جنرل نیازی نے بھی خود کو اپنے کمرے میں بند کر لیا تھا۔ ایک روز صدیق سالک ان کے کمرے میں گئے تو جنرل نیازی اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامے بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا سالک شکر کرو کہ تم آج جرنیل نہیں ہو۔ ان کا چڑچڑا پن اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ ایک بار جب بی بی سی نے یہ خبر نشر کی کہ جنرل نیازی اپنی فوج کو چھوڑ کر مغربی پاکستان بھاگ گئے ہیں تو جنرل نیازی غصے میں آ گئے۔ وہ ڈھاکہ کے انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل جاکر بی بی سی کے نمائندے کو ڈھونڈتے رہے اور لوگوں سے کہتے رہے کہ میں ابھی یہیں ہوں میں اپنے سپاہیوں کو چھوڑ کو کبھی نہیں جاتا۔ بعد میں انہوں نے بی بی سی کے نمائندے سے ملاقات کی اور یہ کہا۔ وہ ان دنوں ایسی باتیں کرتے تھے جن کا مطلب یہ تھا کہ وہ آخری دم تک لڑیں گے۔ اس دن جنرل نیازی میڈیا کے سامنےکہہ رہے تھے کہ وہ سرنڈر نہیں کریں گے۔ ادھر اقوام متحدہ میں ذوالفقار علی بھٹو جو اس وقت پاکستان کے نائب وزیراعظم تھے وہ بھی جنگ جاری رکھنے کی باتیں ہی کر رہے تھے۔ لیکن ان باتوں کے باوجود پاکستان کو صرف مشرقی محاذ پر ہی نہیں بلکہ مغربی محاذ پر بھی شکست ہی ہو رہی تھی۔
انڈین نیوی نے پاکستان کی بندرگاہ کو گھیر لیا تھا۔ زمینی محاذ پر بھی بھارت جیت رہا تھا بلکہ مغربی پاکستان کے کئی علاقوں پر قابض بھی ہو چکا تھا۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں تو فرسٹ کور کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ارشاد احمد خان کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کئی گئی ہے۔ کیونکہ انہوں نے سیالکوٹ کے قریب تحصیل شکر گڑھ کے علاقے میں500 دیہات بغیر کسی لڑائی کے دشمن کے حوالے کر دیئے تھے۔ صدر جنرل یحییٰ بھی مشرقی پاکستان میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ میں مشرقی پاکستان کیلئےاور کر بھی کیا سکتا ہوں۔ ان حالات میں امریکہ اور چین جیسے اتحادی بھی اپنی اپنی مجبوریوں کا شکار تھے اور وہ پاکستان کی مدد کے لیے نہیں آئےتھے۔ حالانکہ اس دوران بھارتی فوج کے دستے ڈھاکہ شہر کے قریب پہنچ چکے تھے۔ اب انہیں ڈھاکہ کے قریب ترین 3 بڑے دریاؤں جمنا، میگھنا اور برہم پترا پر عارضی پل بنانا تھے۔ ایک ہفتے میں وہ یہ کام کر کے ڈھاکہ پر قبضہ کر سکتے تھے۔ کیونکہ ڈھاکہ میں پاکستان کی ریگولر فوج موجود نہیں تھی۔ وہ دوسرے محاذوں پر بکھری ہوئی تھی۔ جنرل نیازی کے حکم پر جنرل جمشید نے افراتفری میں تقریباً ساڑھے 5 ہزار رضاکاروں کی ایک فورس تیار کی۔ لیکن یہ فورس بھارتی ریگولر آرمی کے مقابلے میں بہت کمزور تھی۔ مقابلہ بیکار تھا۔
اس دوران 14 دسمبر کو جنرل نیازی کو جنرل یحییٰ خان کا ایک ٹیلیگرام ملا جس نے صورتحال بدل دی۔ اس ٹیلیگرام میں جنرل یحییٰ نے جنرل نیازی سے کہا تھا کہ اب آپ ایسے مرحلے میں ہیں جہاں نہ مزید مزاحمت ممکن ہے اور نہ اس مزاحمت سے کوئی فائدہ ہو حاصل ہوسکتا ہے۔ بلکہ اس سے مزید جان و مال کا نقصان ہو گا۔ آپ کو ان حالات میں مسلح افواج، مغربی پاکستان کے رہنے والوں اور دوسرے وفادار لوگوں کی سلامتی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ جنرل نیازی نے یہ پیغام ملتے ہی ڈھاکہ میں موجود امریکی قونصل جنرل کے ذریعے بھارتی آرمی چیف جنرل مانک شا کو جنگ بندی کی پیشکش کا مسودہ بھیج دیا۔ اس مسودے میں جنگ بندی کیلئے فوجیوں اور عام شہریوں کی تحفظ کی شرط رکھی گئی تھی۔ جب یہ مسودہ جنرل مانک شا کو ملا تو وہ جنگ بندی پر تیار تو ہو گئے لیکن ایک شرط یہ رکھی کہ پہلے پاک فوج سرنڈر کرے۔ مانک شا کایہ پیغام جنرل نیازی کو ملا یہ ایک غیر معمولی پیغام تھا۔اوراتنا بڑا فیصلہ وہ تنہا نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے راولپنڈی سے جواب مانگا۔ 15 دسمبر کی شام کو راولپنڈی سے جواب تو آ گیا لیکن اس میں نہ تو کھل کر سرنڈر کرنے کی بات کہی گئی تھی
اور نہ ہی جنرل نیازی کو جنگ بندی سے روکا گیا تھا۔ جواب میں لکھا تھا کہ میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ ان شرائط پر یعنی فوجیوں اور عام شہریوں کے تحفظ کی شرائط پر جنگ بندی کر لیں لیکن یہ جنگ بندی صرف مقامی کمانڈروں کے بندوبست جیسی ہو گی۔ اگر یہ سمجھوتہ پاکستان کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر جاری امن کوششوں کے خلاف ہوا تو اسے کالعدم یعنی نل اینڈ وائڈ سمجھا جائے گا۔ راولپنڈی سے ملنے والے جواب میں یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ جنرل مانک شا کی ہتھیار ڈالنے والی شرط کا کیا جواب دیا جائے؟ بہرحال جنرل نیازی کو جیسے ہی یہ پیغام ملا تو انہوں نے جنگ بندی کے احکامات جاری کرنا شروع کر دیئے۔ جنرل نیازی کو بہرحال یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ چاہتے تو آرمی ایوی ایشن کے کسی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر برما فرار ہو سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے 3 ہیلی کاپٹروں میں فوجیوں کے 28 خاندانوں کو برما بھیجا مگر خود نہیں گئے۔
16 دسمبر کی صبح بھارتی فوج کے101 کمیونیکیشن زون کا ایک چھوٹا سا دستہ میر پور پل کے قریب پہنچ گیا۔ وہاں بھارتی میجر جنرل ناگرا نے جنرل نیازی کو خط لکھا۔ انہوں نے لکھا پیارے عبداللہ میں میر پور پل پر ہوں اپنا نمائندہ بھیج دو۔ جنرل امیر خان نیازی کو صبح نو بجے یہ خط ملا اس وقت جنرل فرمان اور ریئر ایڈمرل شریف بھی ان کے پاس تھے۔ جب جنرل نیازی نے یہ خط دیکھ لیا تو جنرل فرمان نے ان سے پوچھا کیا کچھ ریزرور فوج باقی ہے۔ جنرل نیازی خاموش رہے۔ ریئر ایڈمرل شریف نے پنجابی میں پوچھا کج پلے ہے؟ جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے محافظ جنرل جمشید کی طرف دیکھا انہوں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ اب جنرل فرمان اور ایڈمرل شریف نے ایک زبان ہو کر کہا اگر یہ کیفیت ہے تو جاؤ اور جو وہ یعنی بھارتی جنرل ناگرا کہتا ہے کرو۔ یوں میجر جنرل ناگرا کو فاتحانہ انداز میں ڈھاکہ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل نیازی نے جنگ کے بعد حمود الرحمان کمیشن کو جو بیان دیا اس میں انہوں نے ایک مختلف کہانی سنائی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ڈھاکہ میں 26 ہزار، 4 سو فوجی موجود تھے اور وہ چاہتے تو بھارتی فوج کو 2 ہفتوں تک مزید روک سکتے تھے۔ اگر جنرل نیازی کا یہ بیان درست ہے اور ساڑھے 5ہزار کمزور فورس والی کہانی غلط ہے تو پھر سرنڈر کا سارا الزام جنرل نیازی کے اپنے سر پر آ جاتا ہے۔ بہرحال میجر جنرل ناگرہ کے ڈھاکہ پہنچنے کے کچھ ہی وقت بعد بھارتی ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ بھی ڈھاکہ پہنچ گئے۔ جنرل نیازی نے جنرل اروڑہ کو سلیوٹ کیا اور ان سے ہاتھ ملایا۔ پھر وہاں سے یہ دونوں جنرل رمنا ریس کورس گراؤنڈ ڈھاکہ پہنچے جہاں جنرل نیازی نے سرنڈر کی دستاویز پر دستخط کر دیئے۔ اور جنگ بندی ہو گئی۔ انہوں نے اپنا ریوالور بھی جنرل اروڑہ کو پیش کر دیا جو آج بھی بھارتی میوزیم میں محفوظ ہے۔ لیکن باقی پاکستانی فوجیوں کو مکتی باہنی کی انتقامی کارروائیوں سے بچانے کیلئے 19دسمبر تک ان کے ہتھیاران کے پاس رکھنے کی بھارتی فوج نے اجازت دے دی یہ ہتھیار بعد میں بہرحال ان سے واپس لے لیے گئے تھے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگر جنرل نیازی اپنی جان دے دیتے تو وہ تاریخ میں امر ہو جاتے اور آنے والی نسلوں میں ایک عظیم ہیرو اور شہید کی حیثیت سے یاد رکھے جاتے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ شروع ہی میں اپنے دفاعی قلعوں کو کھونے کے بعد ہمت ہار بیٹھے تھے۔
مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے والوں کے بارے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وہ سب پاکستانی فوج کے جوان تھے۔ ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ جب جنگ شروع ہوئی تو مشرقی پاکستان میں صرف45 ہزار پاکستانی فوجی تھے۔ باقی لوگ سول آرمڈ فورسز، پولیس والے اور سرکاری ملازمین یعنی سویلینز تھے۔ جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ پاکستان کی ریگولر اور رضاکار یا والنٹیئر فورسز کی کل تعداد 118000کے قریب تھی۔ تو ان میں 90 ہزار تو گرفتار ہوئے۔ اب باقی تقریباً28 ہزار لوگوں کے متعلق یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں سے کتنےجان سے گئے اور کتنے مقامی آبادی میں گھل مل کر گرفتاری یا ہلاکت سے بچ گئے۔ یہ تو تاریخ کا ایک سچ ہے کہ پاک فوج کو71 کی جنگ میں شکست ہوئی تھی مگر ایسے حالات میں جن میں فتح ناممکن تھی۔ بنگالی نژاد امریکن مصنفہ شرمیلا بوس لکھتی ہیں کہ پاک فوج نے مشرقی پاکستان کے اندر ناممکن حالات میں بھی حیران کن حد تک شاندار کارکردگی دکھائی تھی۔ مشرقی پاکستان پر بھارتی قبضہ ہوتے ہی مکتی باہنی نے غیربنگالیوں اور پاک فوج سے تعاون کرنے والے لوگوں کا قتل عام شروع کر دیا۔
نہتے لوگوں کو ہجوم کے سامنے سنگینیں گھونپ کر قتل کردیا جاتا۔ ادھر مشرقی پاکستان پر قابض بھارتی فوج نے بھی کھل کر لوٹ مار شروع کر دی تھی۔ جنگی سازو سامان کے علاوہ خوراک، بنگالی فیکٹریوں کی ساری مشینری اور گھروں کا بہت سا قیمتی سامان بھی لوٹ کر بھارت بھیج دیا گیا۔ ادھر مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد جنرل یحییٰ کی حکومت بھی ختم ہو گئی۔ 20 دسمبر1971 کو جنرل یحییٰ خان کی جگہ ذوالفقار علی بھٹو صدر پاکستان اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ 27 دسمبر 1971 کو راولپنڈی چکلالہ ائرپورٹ کے قریب ایک بنگلے کے باہر گاڑیوں کا ایک قافلہ آ کر رکا۔
صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو ایک گاڑی سے اترے اور بنگلے میں داخل ہو گئے۔ بنگلے کے ایک کمرے میں شیخ مجیب الرحمان موجود تھے جنہیں جیل سے یہاں منتقل کیا گیا تھا۔ بھٹو نے شیخ مجیب الرحمان سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ اب میں پاکستان کا صدرہوں شیخ مجیب نے بھٹو کا مذاق اڑاتے ہوئےطنزاً کہا 70 کے الیکشن کے مطابق یہ حق تو میرا تھا تو آپ کیسے صدر بن گئے؟ بھٹو اس بات کو ٹال گئے اور انہوں نے شیخ مجیب سے کہا کیا وہ بنگلہ دیش کو جو کہ اب ظاہر ہے ایک آزاد ملک بننے جا رہا تھا اس کوپاکستان کے ساتھ ایک ڈھیلی ڈھالی یا کمزور کنفیڈریشن میں رکھنا پسند کریں گے؟ شیخ مجیب نے بھٹو کی تجویز کے جواب میں انہیں انتظار کرنے کیلئے کہا۔ 7 جنوری کو بھٹو دوبارہ شیخ مجیب سے ملنے آئے اور کنفیڈریشن والی بات کو دوہرایا۔ شیخ مجیب نے پھر انہیں انتظار کیلئے کہا۔
8 جنوری کی صبح صدر بھٹو نے شیخ مجیب کو چکلالہ ائربیس سے خدا حافظ کہا اور شیخ مجیب لندن کی طرف پرواز کر گئے جہاں سے انہیں ڈھاکہ جانا تھا۔ شیخ مجیب راولپنڈی سےلندن اور لندن سےدہلی پہنچے جہاں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنی پوری کیبنٹ کے ساتھ خوش آمدید کہا اسی روز شیخ مجیب ڈھاکہ پہنچے اور رمنا ریس کورس گراؤنڈ میں اعلان کیا کہ اب پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کوئی تعلق نہیں رہ سکتا۔ ان کے الفاظ کچھ اس طرح تھے کہ یہ تعلق اب ہمیشہ کیلئے ٹوٹ چکا ہے، اب تم امن سے رہو اور ہمیں بھی امن سے رہنے دو۔ 1972 میں جب موسمِ گرما اپنے عروج پر تھا تو پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی سے ملنے شملہ پہنچے۔ ہم نے آپ کو دکھایا تھا کہ پینسٹھ کی جنگ کے بعد تاشقند معاہدے کے دوران بھارت نے مذاکرات کی میز پر جنگ جیت لی تھی۔
لیکن حیرت انگیز طور پر شملہ میں بھٹو نے تاریخ بدل دی جسے موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی مانتے ہیں۔ تو یہ ایک تصویر جو71 کی جنگ میں پاکستان کی شکست اور دونوں ملکوں میں نفرت اور دشمنی کی نشانی ہے تو یہ دوسری تصویر اس بات کی علامت ہے کہ مذاکرات کی میز پر شکست کا داغ دھویا جا سکتا ہے ہمسائیوں کے ساتھ امن سے رہا جا سکتا ہے۔ دوستوں یہ سیریز آپ نے دیکھی آپ کو کیسی لگی کمنٹس میں ضرور بتائیے اور اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنے قیام سے اب تک کن حالات سے گزرا تو اس پلے لسٹ پر کلک کیجئے۔ یہاں جانیے تاریخ کی نامور شخصیات اور موجودہ لوگوں کی بیو گرافیز اور یہاں دیکھیے کل کائنات سیریز