History of Crusades and Salahuddin Ayyubi صلیبی جنگوں کی تاریخ اور صلاح الدین ایوبی
ایک ایسی قوم جو خدا کو جانتی ہی نہیں اس نے ہماری مسیحی سرزمین پر حملہ کر دیا ہے۔ ان لوگوں نے گرجا گھروں کی مقدس قربان گاہوں الٹرز کو اپنے کرتوتوں سے تباہ کر دیا ہے۔ مسیحیوں کا خون فواروں میں ڈالا جا رہا ہے۔ یہ لوگ مسیحیوں کو کاٹتے ہیں اور خواتین کی اتنی توہین کرتے ہیں کہ میں اس کا کیا ذکر کروں اس کا تو تذکرہ ہی گناہ ہے اچھا ہے تم سمجھ جاؤں اور میں خاموش رہوں۔ یہ دوستو وہ الفاظ تھے جو کیتھولک پوپ اربن ٹو نے نومبر ایک ہزار پچانوے میں فرانسیسی شہر کلیرمونٹ میں ایک ہجوم کے سامنے کہے تھے۔
History of Crusades and Salahuddin Ayyubi صلیبی جنگوں کی تاریخ اور صلاح الدین ایوبی
وہ لوگوں پر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ مڈل ایسٹ میں مسلمان مسیحیوں پر بے تحاشہ مظالم ڈھا رہے ہیں۔ خاص طور پر بیت المقدس میں رہنے والے مسیحیوں اور یورپی زائرین کے ساتھ تو انتہائی وحشیانہ سلوک ہو رہا ہے۔ یہ وہ بتانا چاہتے تھے۔ حالانکہ یہ ساری کہانی محض پراپیگنڈہ تھی۔ مڈل ایسٹ اور خاص طور پر بیت المقدس میں مسیحیوں سے کوئی بُرا سلوک نہیں ہو رہا تھا۔ جتنا وہ بتا رہے تھے وہاں تو مسلمان اور مسیحی مل جل کر رہتے تھے۔ لیکن پوپ کی اس پراپیگنڈہ تقریر نے یورپ بھر میں آگ لگا دی۔ کچھ ہی عرصے میں ایک لاکھ سے زائد یورپین مرد عورتیں اور بچے بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین لینے کے عزم کے ساتھ یورپ سے روانہ ہوئے۔ یہ ایک خونی جنگ کا آغاز تھا جس کی تباہ کاریوں نے دو صدیوں تک مڈل ایسٹ کو اپنی گرفت میں لئے رکھا۔
ان لڑائیوں نے ایسے ایسے المیوں کو جنم دیا جن کی داستانیں سن کر آج بھی رونگٹے کھـڑے ہو جاتے ہیں۔ تاریخ میں ان جنگوں کو کروسیڈز یا صلیبی جنگوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پوپ اربن ٹو نے صلیبی جنگوں کا آغاز کیوں کیا؟ اور ان جنگوں نے مڈل ایسٹ، مشرقِ وسطیٰ کو کیسے بدلا؟ میں ہوں فیصل وڑائچ اور دیکھو سنو جانو کی نئی سیریز دی کروسیڈز اینڈ ایوبی کی پہلی قسط میں ہم آپ کو یہی سب دکھائیں گے مائی کیوریس فیلوز صلیبی جنگوں کی بنیاد دس سو اکہتر میں منزیکرت کی لڑائی کے دوران رکھی گئی تھی۔ اس جنگ میں سلجوق سلطان الپ ارسلان نے ایسٹرن رومن ایمپائر یعنی بازنطینی سلطنت کو شکستِ فاش دی تھی۔ اس جنگ کے بعد اگلے بیس برس کے دوران سلجوق ایمپائر کی سرحدیں مشرق میں سینٹرل ایشیا سے لے کر مغرب میں قسطنطنیہ یعنی موجودہ استنبول کے قریب جا پہنچی تھیں۔ جنوب میں ان کی سلطنت کی حد مصر کے بارڈر تک تھی اور مصر میں فاطمی خلافت قائم تھی۔ بیت المقدس پر بھی سلجوقوں کا کنٹرول تھا۔ جبکہ عباسی خلفاء بھی سلجوقوں کے زیرِ سایہ ہی اپنی خلافت کا بھرم رکھے ہوئے تھے۔ ایسے میں قسطنطنیہ شہر یورپ اور سلجوقوں کے درمیان آخری دیوار رہ گیا تھا۔ قسطنطنیہ میں بیٹھے رومن شہنشاہ الیگزیئس ون کو یہ فکر لاحق تھی کہ سلجوقوں کا سیلاب نہ روکا گیا تو قسطنطنیہ کے ساتھ پورا ایسٹرن رومن ایمپائر ہی ختم ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے پوپ اربن ٹو کے پاس اپنے نمائندے بھیج کر ان سے مدد مانگی۔ پوپ اربن ٹو پہلے ہی یورپ کو پوری طرح چرچ کے کنٹرول میں لانے کی کوششیں کر رہے تھے۔
انہیں الیگزیئس ون کی درخواست میں ایک موقع نظر آیا۔ انہوں نے سوچا کہ اگر وہ یورپینز کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر کوئی مقدس جنگ شروع کروا دیتے تو یورپ میں ان کی اتھارٹی بڑھ جائے گی۔ چنانچہ انہوں نے الگزئیس ون کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی۔ پھر وہ 1095 میں فرانس کے دورے پر گئے۔ یہاں نومبر میں انہوں نے کلیرمونٹ شہر میں ایک مذہبی اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس کے اختتام پر انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ذاتی طور پر عوام سے بھی گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ اب اتفاق دیکھئے کہ کلیرمونٹ وہ شہر ہے جہاں کچھ آتش فشاں، والکینوز بھی موجود ہیں۔ یعنی صلیبی جنگوں کا لاوا بھی اسی شہر میں پھٹا جس کا دامن پہلے ہی قدرتی آگ سے بھرا ہوا تھا۔ پوپ نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کے خلاف مجمعے کے جذبات کو خوب بھڑکایا۔ انہوں نے جو الفاظ استعمال کئے وہ آپ ویڈیو کے شروع میں جان چکے ہیں لیکن اس کے علاوہ اسی خطاب میں انہوں نے رومن ایمپائر کی مدد کے ساتھ ساتھ صلیبیوں کیلئے ایک اور ٹارگٹ بھی سیٹ کر دیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہماری جنگ کا مقصد یروشلم یعنی بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھیننا ہے۔
اس خطاب کے ساتھ ہی یورپ میں صلیبی جنگوں کیلئے بھرتییاں شروع ہو گئیں۔ یہاں آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ صلیبی جنگوں کی اصطلاح پوپ نے ایجاد نہیں کی تھی۔ یہ ٹرم صلیبی جنگیں شروع ہونے کے تقریباً ایک صدی کے بعد سامنے آئی تھی۔ پوپ اربن ٹو نے تو صلیبیوں یعنی کروسیڈرز کو آرمڈ پیلگریمز یا مسلح زائرین کہا تھا۔ یعنی جو لوگ بیت المقدس پر قبضے کیلئے جائیں گے انہیں جنگجو نہ کہا جائے بلکہ وہ تو اپنے مقدس مقامات کی زیارت کیلئے جا رہے ہیں۔ یعنی فاتح کی حیثیت میں وہ ان مقامات کی زیارت کریں گے یہ ان کا خواب اورخیال تھا۔ پوپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ جو لوگ ان کی کال پر جنگ کرنے جائیں گے ان کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے اور انہیں آخرت میں جنت، پیراڈائیز، ہیون ملے گی۔
پوپ کے ان اعلانات اور جنت کی خوشخبریوں کی تشہیر یورپ بھر میں کی جانے لگی۔ پوپ نے خود بھی فرانس کے مختلف علاقوں کے دورے کر کے فوجیں جمع کرنا شروع کر دیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ یورپ سے صلیبی لشکر پہلے قسطنطنیہ پہنچیں گے اور وہاں سے رومن فوجوں کو ساتھ لے کر آبنائے باسفورس کے پار سلجوق سلطنت پر حملہ کر دیں گے۔ پھر وہ موجودہ ترکیہ سے گزرتے ہوئے بحیرہ روم، میڈیٹرینین کے ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے بیت المقدس پر اٹیک کریں گے۔ تو اب یوں تھا کہ گیارہوں صدی کے آخر میں پوپ اور ان کے حامی پورے جوش و خروش سے مسلمانوں سے جنگ کیلئے بھرتیاں کر رہے تھے۔ پوپ نے صلیبی جنگ شروع کرنے کیلئے پندرہ اگست 1096 کی ڈیٹ بھی فِکس کر دی تھی۔ یعنی اس تاریخ کو یورپ بھر سے فوجوں نے بیت المقدس پر قبضے کیلئے قسطنطنیہ کا رخ کرنا تھا۔ لیکن اس تاریخ سے کئی ماہ پہلے ہی ایک اور شخص جو پوپ جتنا ہی کرزمیٹک تھا وہ اپنی فوج لے کر جنگ لڑنے چلا بھی گیا۔ اسے ہسٹری میں پیٹر دی ہرمیٹ کہا جاتا ہے۔
ہرمیٹ یعنی ایسا شخص جو تنہا اور دنیا سے لاتعلق ہو۔ اس کی مہم جوئی کو تاریخ میں پیپلز کروسیڈ یا عوام کی صلیبی جنگ پکارا جاتا ہے۔ کون تھا یہ شخص؟ پیٹر دی ہیرمیٹ فرانس کا ایک پادری تھا۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ بیت المقدس گیا تھا اور مسلمان مسیحیوں پر جو مبینہ مظالم ڈھا رہے تھے وہ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔ اپنے قیام کے دوران ایک روز وہ چرچ آف دی ہولی سیپلیکا میں سو رہا تھا۔ یہ چرچ عین اس جگہ واقع ہے جہاں مسیحی عقیدے کے مطابق کرائسٹ کو مصلوب کیا گیا تھا اور یہیں ان کے عقیدے کے مطابق وہ دوبارہ زندہ ہوئے تھے۔ تو خیر سوتے میں اس نے خواب دیکھا کہ حضرت عیسیٰ اسے حکم دے رہے ہیں کہ ’پیٹر جاؤ اور بیت المقدس کو مسلمانوں سے آزاد کروائو‘۔ اس خواب کی تشہیر تو خوب ہوئی لیکن ریکارڈ یہ ہے کہ اس کا بیت المقدس جانا تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوتا۔ لیکن یہ کہانی بہرحال روایتی اور جذباتی تھی۔ اس کہانی کے ذریعے پیٹر دی ہیرمیٹ نے عوام کی بڑی تعداد کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس کے پیروکاروں میں زیادہ تر غریب لوگ شامل تھے۔ ان کی تعداد بیس سے تیس ہزار تھی۔ اسی وجہ سے اس مہم کو پیپلز کروسیڈ کہا جاتا ہے۔ پیٹر دی ہرمیٹ پوپ سے پہلے یہ عوامی لشکر لے کر فرانس سے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہو گیا۔