Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-3
اس کی زنجیر ایک نوعمر لڑکے کے ہاتھ میں تھی۔ تموجن کے اردگرد قبیلے والے ناچ رہے تھے، گا رہے تھے اور فتح کی خوشیاں منا رہے تھے۔ لیکن پھر جلد ہی قبیلے کے لوگ مدہوشی میں ادھر ادھر بکھرنے لگے۔ بکھرتے لوگوں میں تموجن موقع تلاش کرنے لگا۔ اور موقع پا کر اس نے اپنا گردن میں پڑا بھاری شکنجا زور سے گھمایا جو زنجیر پکڑنے والے لڑکے کے سر پر لگا۔ لڑکا چوٹ کھا کر زمین پر گرا، اس کے ہاتھ سے زنجیر چھوٹی اور تموجن بھاگ نکلا۔ زخمی لڑکے نے شور مچا دیا
Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-3
لیکن جشن مناتے لوگوں کو صورتحال سمجھنے میں کچھ وقت لگا۔ لیکن جیسے ہی انہیں صورتحال کا ادراک ہوا وہ تیزی سے حرکت میں آئے اور اردگرد کے جنگل اور ندی نالوں کو ناپنے لگے۔ رات چاندنی تھی، دور دور تک ہر چیز صاف دکھائی دے رہی تھی۔ پھر تموجن کی گردن میں جو شکنجہ پڑا تھا وہ بھی بہت بھاری تھا۔ تموجن کا بچ نکلنا بظاہر ناممکن تھا۔ قبیلے والوں کو یقین تھا کہ وہ بھاگ کر زیادہ دور نہیں جا سکتا۔ وہ اسے جلد ہی ڈھونڈ نکالیں گے لیکن چپہ چپہ چھان مارنے کے باوجود انھیں تموجن کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ آخر تموجن کہاں غائب ہو گیا تھا؟
دراصل ہوا یہ تھا کہ تموجن نے بہت ہوشیاری دکھائی تھی۔ وہ اس کیمپ سے زیادہ دور گیا ہی نہیں تھا۔ وہ قریب ہی ایک ایسی ندی میں لیٹ گیا تھا جس میں پانی بہت کم تھا۔ وہ مناسب موقع کی تاڑ میں تھا، لیکن پھر یہ ہوا کہ اسے ایک شخص نے ندی میں چھپے ہوئے دیکھ لیا۔ یہ دن تموجن کا آخری دن بھی ہو سکتا تھا، لیکن ہوا یہ کہ یہ شخص تموجن کا خفیہ ہمدرد نکلا۔ اس نے خبر عام کرنے کے بجائے تموجن کو چپکے سے اپنے بھائیوں اور ماں کے پاس چلے جانے کا مشورہ دیا اور خود خاموش رہنے کا وعدہ کیا۔ یہ مشورہ دے کر وہ خاموشی سے کسی کو بتائے بغیر اپنے خیمے میں لوٹ آیا۔ لیکن پھر رات میں کسی پہر اس کے خیمے میں کوئی داخل ہوا۔ یہ تموجن ہی تھا اور اسے ایک بار پھر اپنے خفیہ ہمدرد کی مدد چاہیے تھی۔ کیونکہ وہ گردن میں پڑے بھاری شکنجے کے ساتھ آسانی سے حرکت نہیں کر سکتا بھاگ نہیں سکتا تھا۔ وہ شخص ایک بار پھر کام آیا۔
اس نے اور اس کے بیٹوں نے تموجن کا شکنجہ اتارا کر جلا دیا۔ لیکن اسی دوران تموجن کو تلاش کرنے والے بھی ایک ایک جگہ کو دیکھتے ہوئے اسی طرف آ رہے تھے۔ سو ہمدرد کے گھر والوں نے تموجن کو اپنے خیمے کے پیچھے کھڑے ایک چھکڑے میں چھپا کر اس پر اون کا ڈھیر لگا دیا۔ ڈھونڈنے والے اس اون کے ڈھیر تک بھی آن پہنچے۔ انھوں نے چھکڑے سے اون ہٹانا شروع کر دی تاکہ دیکھ سکیں کہ کہیں وہ اس میں چھپا ہوا تو نہیں ہے۔ قریب تھا کہ وہ لوگ تموجن کو ڈھونڈ نکالتے۔ لیکن ایسے میں اس کے ہمدرد میزبان کی ہوشیاری کام آ گئی۔
اس نے دیکھا کہ تلاشی لینے والے پسینے میں شرابور ہو رہے ہیں۔ اس نے سپاہیوں سے کہا کہ اتنی شدید گرمی میں جب اون کے پاس کھڑے رہنا تک مشکل ہے ایسے میں اس کے اندر کوئی چھپا ہو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سپاہی شاید پہلے ہی ڈھونڈ ڈھونڈ کر اکتائے ہوئے تھے۔ یہ جملہ ان کے لیے بہانہ بن گیا اور وہ تلاش چھوڑ کر ’’بالکل۔۔ بالکل ‘‘ کہتے ہوئے جہاں سے آئے تھے اسی طرف لوٹ گئے۔ تموجن ایک بار پھر بال بال بچا تھا۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد اس شخص نے تموجن کو چھکڑے سے نکالا۔ اسے سفر کیلئے ایک گھوڑی دی، ساتھ میں کھانے کیلئے گوشت، ایک کمان اور دو تیر بھی دیئے۔
ایک لمبا چکر کاٹتے ہوئے تموجن جب اس جگہ پہنچا جہاں اس کے بھائیوں اور وفاداروں نے آخری بار اسے بھاگنے میں مدد کی تھی، جہاں کبھی اس کا کیمپ تھا۔ لیکن وہاں تو اب کچھ بھی نہیں تھا، اس کے گھروالے مزید حملے کے خوف سے وہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے تھے۔ لیکن تموجن باقی منگولوں کی طرح ایک ماہر کھوجی بھی تھا۔ اس نے راستے میں گھوڑوں کے ٹاپوں کے نشانات اور دوسری چیزوں سے اندازہ لگا لیا کہ اس کے ساتھی کس طرف کو گئے ہیں۔ کھوجتا کھوجتا جلد ہی وہ اپنوں سے آن ملا۔ اس کے بعد تموجن اپنے مختصر سے قافلے کو لے کر پہاڑوں کی طرف نکل گیا۔ تا کہ اس کی تلاش میں نکلے ہوئے دشمن اس کی اور اس کے پیاروں کی جان نہ لے سکیں۔
وہ ایک ایسی جگہ پڑاؤ کے لیے ٹھہرے جو کسی قدر محفوظ تو تھی۔ لیکن وہاں انھیں بھوک مٹانے کیلئے بہت مسائل کا سامنا تھا یہاں تک کہ انھیں کئی بار چوہے تک کھانا بڑے۔ کئی دفعہ انھیں ڈاکوؤں کے حملوں کا بھی سامنا ہوا لیکن وہ یہ سب جھیلتے رہے اور دن گزرتے رہے۔ اور اس سب میں آپ یقیناً بھول گئے ہوں گے کہ تموجن کی ایک منگیتر بھی تھی۔ تموجن سولہ برس کا ہو چکا تھا۔ اسے اپنی منگیتر کی یاد ستانے لگی۔ سو وہ اپنے ہونے والے سسر کے گھر جا پہنچا۔ یہاں اس نے بورتے سے شادی کی اور تحفے میں سسرالیوں نے اسے سمور کی انتہائی قیمتی پوستین دی۔ تموجن اپنی دلہن اور قیمتی پوستین کو لے کر اپنے گھر واپس چلا آیا۔ اس نے ایک نئی اور پر امن شروعات کر دیں۔ لیکن اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ اس کی دلہن بورتے اور سمور کی قیمتی پوستین اسے تاریخ میں ایک ناقابل فراموش موڑ کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔