Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-12

چنگیز خان بھی کچھ جائزے کے بعد بھانپ چکا تھا کہ اس کیلئے یہ شہر فتح کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اس نے شہر کو مسلسل محاصرے میں رکھ کر چن شہنشاہ کو دباؤ میں لانے کا فیصلہ کیا۔ تا کہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کی جا سکے۔ سو اس نے فوری طور پر پانچ ہزار سپاہیوں کو تعینات کر کے شہر کو جانے والے تمام راستے بند کر دیئے۔ پھر اس نے چِن شہنشاہ کے پاس اپنا سفیر بھیج کر چند شرائط کے بدلے صلح کی پیشکش کی۔ لیکن شہنشاہ کو اپنے دفاعی نظام پر، سیکیورٹی سسٹم پر بہت مان تھا۔ اس نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔

Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-12

کیونکہ شہشاہ کو یقین تھا کہ چنگیز خان اتنا محفوظ شہر فتح نہیں کر سکے گا۔ اور آخر کار موسم کی سختیاں اور وقت کا جبر اسے خالی ہاتھ پلٹ جانے پر مجبور کر دے گا۔ لیکن وہ ایک بات سے لاعلم تھا۔ وہ یہ کہ اس کا ایک گورنر اس کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ اور اس سازش کا ان ڈائریکٹ فائدہ چنگیز خان کو ہونے والا تھا۔ چِن شہنشاہ کا ایک گورنر چی چنگ، سلطنت پر قبضے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ بیجنگ کی طرف بڑھا اور منگول سپاہیوں سے بچتا بچاتا بیجنگ کے دروازے پر پہنچ گیا۔

اس نے دروازے پر پہنچتے ہی بلند آواز میں کہ ا منگول میرے پیچھے لگے ہیں مجھے بچاؤ مجھے بچاؤ۔ پہرے داروں نے شہر کے دروازے کھول دیئے لیکن چی چنگ نے شہر میں داخل ہو کر شاہی محل پر دھاوا بول دیا۔ شہنشاہ اور اس کے محافظ اچانک حملے کا وار سہہ نہ سکے۔ یہاں تک کہ چن شہنشاہ، جسے منگول گولڈن خان کہتے تھے وہ بھی لڑائی میں مارا گیا۔ چی چنگ نے بجائے خود شہنشاہ بننے کے، کنگ میکر بننے کو ترجیح دی۔ اس نے چن خاندان کے ایک کمزور شخص کو تخت پر بٹھا دیا اور خود چِن سلطنت کا سپریم کمانڈر بن گیا۔

اب چینی تخت پر ایک کٹھ پتلی حکمران بیٹھا تھا لیکن آرڈر، کمانڈر ان چیف کا سپہ سالار کا چل رہا تھا۔ لیکن اس ساری کارروائی کا فائدہ چنگیز خان کو صرف یہ ہوا کہ چی چنگ نے جب چنگیز خان کے مقابلے کے لیے فوج کی کمان سنبھال لی تو وہ بیمار ہو گیا۔ لیکن وہ بیماری کی حالت میں بھی جنگ کرنے نکلا۔ وہ ایک چھکڑے پر لیٹ کر چینی فوج کی کمان کرتا رہا۔ اس نے لگاتار دو دن تک منگول فوج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ لیکن اب اس کی صحت مسلسل بگڑ رہی تھی۔ بیماری نے اسے مزید لڑنےکی اجازت نہیں دی۔ چنانچہ تیسرے روز اس نے اپنے ایک کمانڈر جس کا نام ’کاؤ‘ تھا اس کو منگولوں کے مقابلے پر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

لیکن بھیجنے سے پہلے اس نے کاؤ کو دھمکی دی کہ اگر وہ شکست کھا کر لوٹا تو اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ کاؤ موت کا یہ خوف دل میں لئے میدان جنگ میں گیا اور ۔۔۔ ہار گیا۔ شکست کے بعد کاؤ شہر کے دروازے پر اپنی سر کٹی لاش عالم تصور میں دیکھنے لگا۔ بہرحال کاؤ چھپکے سے اس پہلے کہ کسی کے علم میں آئے شہر میں اپنے وفاداروں کے ساتھ داخل ہوا۔ اپنے باس چی چنگ کے پاس گیا اور اس کی گردن اڑا دی۔۔۔۔ وہ ایک بیمار کنگ میکر کے ہاتھوں نہیں مرنا چاہتا تھا۔ چی چنگ کی موت کی خبر پھیلتے ہی اس کے وفادار سپاہی غصے میں بھر گئے۔ شہر میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ دو روز تک دونوں گروپس کے سپاہی آپس میں ہی لڑتے رہے۔ ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے۔

لیکن پھر کٹھ پتلی شہنشاہ نے مداخلت کی اور کسی نہ کسی طرح دونوں گروہوں میں صلح کروا دی۔ صلح کے بعد کاؤ نیا سپریم کمانڈر بھی بنا دیا گیا۔ لیکن شہر کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے تھے۔ چنگیز خان کے سخت محاصرے کی وجہ سے شہر میں کھانے پینےکی چیزیں کم پڑ گئیں تھیں۔ ایسے میں چنگیز خان نے شہنشاہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کیلئے ایک اور بڑا فیصلہ کیا۔ اس نے بیجنگ کو جانے والے راستوں کی ناکہ بندی کیلئے پانچ ہزار فوج چھوڑ کر، باقی فوج کو مختلف ٹولیوں میں تقسیم کیا۔ پھر ان ٹولیوں کو چِن سلطنت کے دوسرے شہروں میں لوٹ مار کے لیے بھیج دیا۔ مقصد یہ تھا کہ شہنشاہ کو جب اپنے شہروں کی تباہی کی خبریں ملیں گی تو وہ ہتھیار ڈال دے گا۔

Read More Why is no military coup in India but multiple in Pakistan?

Similar Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *