Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-6
اور پھر ایک دن تموجن کو کسی نے اطلاع دی اس کا پرانا قبیلہ، جس کا سردار کبھی اس کا باپ تھا۔ اور جس نے اس پر حملہ بھی کیا تھا اور قیدی بھی بنایا تھا وہ قبیلہ اور اس کے لوگ جموکا سے دوستی کا رشتہ گانٹھ چکے ہے۔ یہ تموجن کے بچپن کے دوست، بلڈ برادر جموکا کی طرف سے دوستی ختم کرنے کا عملاً اعلان تھا۔ بلکہ ایک طرح سے دشمنی کا آغاز تھا۔ سو یوں ہوا کہ دونوں کیمپوں میں ایک الگ الگ تقریب منعقد ہوئی۔ اور منگولیا میں یوں تھا جیسے دو سورج نکل رہے ہوں۔ جموکا کے کیمپ میں ایک تقریب جاری تھی۔ جس میں اس کے بہت سے حامی قبائل جمع تھے۔
Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-6
انھوں نے جموکا کو گورخان کا خطاب دیا۔ اس کا مطلب تھا منگولوں کا سب سے بڑا سردار۔ یہ خطاب دینے والے تیرہ سے سولہ قبائل تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ جموکا کے کچھ حامی کسی وجہ سے اسے چھوڑ کر اس دوران تموجن سے آن ملے تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے تموجن کو بتایا کہ اس نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ہے۔ اس نے دیکھا ہے کہ زمین اور آسمان ایک ہو گئے ہیں۔ اور ایک ہو کر کہہ رہے ہیں کہ سب سے بڑا خان صرف تِموجن ہی کو ہونا چاہیے۔ سو تموجن کے یمپ میں بھی ایک تقریب منعقد ہوئی۔ تموجن کو چنگیز خان یعنی پوری کائنات کے سردار کا لقب دیا گیا اور خوب جشن منایا گیا۔ آپ غور کیجئے کہ دونوں منگولوں کے سب سے بڑے سردار بننا چاہتے تھے لیکن کسی نے خاقان کا لقب اختیار نہیں کیا۔
حالانکہ منگولوں میں سب سرداروں کے سردار کو خاقان کہا جاتا تھا۔ ظاہر ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں جانتے تھے کہ جب تک ان میں سے ایک ختم نہیں ہو جاتا یا دوسرے کی اطاعت قبول نہیں کر لیتا، دوسرا کبھی خاقان نہیں کہلا سکتا۔ سو کبھی جو ایک دوسرے کا خون پی کر خون کے رشتے میں بندھے تھے آج ایک دوسرے کا خون بہانے کی تیاری کر رہے تھے۔ سچ ہے طاقت کی جنگ میں اخلاق نام کا کوئی ہتھیار نہیں ہوتا۔ دو بلڈ برادرز میں اقتدار کی جنگ سامنے کھڑی تھی، بس ایک چنگاری جیسے معمولی سے بہانے کی ضرورت تھی۔
اور پھر دیکھئے کہ بہانہ بنا ایک بہت ہی معمولی سا واقعہ ۔۔۔ دا سیکرٹ ہسٹری آف منگولز کے مطابق جموکا کے بھائی تیچار نے چنگیز خان کے ایک دوست کے گھوڑے چرا لئے۔ چنگیز خان کے ساتھی نے چور کا پیچھا کیا اور اسے تیر مار کر ہلاک کر دیا۔ جب جموکا کو اپنے بھائی کی موت کا علم ہوا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے تیس ہزار کا لشکر تیار کیا اور چنگیز خان پر دھاوا بھول دیا۔ چنگیز خان کے پاس صرف تیرہ ہزار کی فوج تھی۔ مختصر فوج نے جموکا کی بڑی فوج کا خوب مقابلہ کیا لیکن میدان جموکا کے ہاتھ رہا۔ چینگیز خان شکست کھا کر بھاگ نکلا اور ایک گھاٹی میں پناہ لے کر چھپ گیا۔ ایک تو وہ ہار کا زخم چاٹ رہا تھا دوسرا ستم یہ ہوا کہ اسے ایک دردناک خبر اور ملی۔
خبر یہ تھی کہ اس کے ایک اتحادی قبیلے جرکن کے کچھ لوگوں کو جموکا نے پکڑ لیا تھا۔ اور اس خبر میں دردناک یہ تھا کہ ان میں سے ستر لوگوں کو جموکا نے کھولتے ہوئے پانی میں ڈبو کر ہلاک کر دیا تھا۔ جب چنگیز خان کو اس کا علم ہوا تو اس نے ایک قسم کھائی۔ قسم یہ کہ اب وہ خود کو یوں تیار کرے گا کہ اسے کبھی دوبارہ شکست کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس نے ایک بار پھر فوج جمع کرنا شروع کی۔ اس نے اپنے پرانے اتحادی کرائیت قبیلے کے سردار اونگ خان سے رابطہ کیا۔
اونگ خان نے چنگیز کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور ایک بڑی فوج لے کر چنگیز خان کی مدد کو پہنچ گیا۔ جموکا کے خلاف اب ایک بڑا لشکر تیار ہو چکا تھا۔ لیکن جموکا کے خلاف فیصلہ کن کارروائی سے پہلے چنگیز خان تاتاریوں سے دو دو ہاتھ کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ یہ لوگ صدیوں سے ان کے خاندانی دشمن تھے۔ انھوں نے ہی چنگیز خان کے باپ یسوگئی کو قتل کیا تھا اور یہ کہانی ہم آپ کو دکھا چکے ہیں۔ تو چنگیز خان اور اس کے اتحادی اونگ خان نے فیصلہ کن حملہ کر کے تاتاری قبائل اور ان کی طاقت کو تتر بتر کر کے رکھ دیا۔ تو چنگیز خان نے فوج کو حکم دے دیا کہ جس بھی تاتاری مرد کا قد، ہائیٹ، ایک چھکڑے کے پہیے سے اٹھتا ہوا ہے، اس کی گردن اتار دی جائے۔ یہ حملہ اتنا زور دار تھا کہ تاتاریوں کی کمر ٹوٹ گئی۔
وہ اتنے کمزور ہو گئے کہ لمبے عرصے کے لیے مقابلے کی سکت ہی کھو بیٹھے۔ تاتاریوں کے خلاف مہم کے دوران چنگیز خان اور اونگ خان کو چین کے چن شاہی خاندان کی بھی بھرپور مدد حاصل تھی۔ وجہ یہ تھی چینی حکمران بھی اپنے بارڈر کے قریب رہنے والے تاتاری قبائل سے پریشان رہتے تھے۔ ایسے ہی گروہوں کے حملوں سے بچنے کے لیے وہ دیوار چین چیسی عظیم دیواریں کھڑی کرتے آئے تھے۔ اس لیے جب تاتاریوں کو عبرتناک شکست ہوئی تو چینی حکمران بھی بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے اونگ خان کو ’وانگ‘ کا خطاب دیا جس کا مطلب تھا شہزادہ، پرنس۔ لیکن حیرت انگیز طور پر وہ چینگیز خان کی صلاحیتوں کو پہچان نہ سکے۔ انھوں نے اسے صرف کمانڈر کا خطاب دیا۔ اور اس خطاب کی چین میں کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ لیکن وقت کا ستم تو دیکھئے کہ جسے وہ معمولی کمانڈر سمجھ رہے تھے وہ چند برس بعد ان ہی کا بادشاہ بننے والا تھا۔
Read More What did Dante’s Divine Comedy change in history? ڈانٹے کی ڈیوائن کامیڈی نے تاریخ میں کیا تبدیلی کی؟