ایلین کیسے ہیں، یہ ایلین کہان ہوتے ہین، یہ ایلین کس ستارے مین ہوتے ہیں

یہ ہماری دنیا ہے ہمارا گھر یہاں خوبصورت زندگی بسر کی جاتی ہے جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں لیکن کیا نہیں جانتے کہ اس کائنات کے اندھیروں میں ہماری زمین جیسی کھربوں جہانیں ہیں جو اپنے اندر ایسی ناممکن زندگی پیدا کر لیتے ہیں جو کوئی نہیں کر سکتا۔ کے بارے میں بھی سوچیں گے لیکن آج ہم سوچیں گے تو چلو میرے ساتھ ایسے سفر پر جس میں ہم اس کبھی نہ ختم ہونے والی کائنات کے اندھیروں میں تلاش کریں گے کہ ان انجان دنیاؤں کو تلاش کریں جو وہاں کے رحموں میں کچھ پال رہے ہیں

زندگی ایک ایسی زندگی جسے کوئی نہیں جانتا۔ ایسی خوبصورت اور ظالم دنیاوں میں کون رہتا ہے اس کے بارے میں کچھ بھی جہاں زندہ رہنے کے لیے ہر کسی کو ہر روز موت سے لڑنا پڑتا ہے کون جانتا ہے شکار اور شکاری کی کہانی کیا یہی زندگی ہے؟ کیا انسانوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا؟

یا وہ جس کے لیے انسان کوئی معنی نہیں رکھتے؟ جس کی سوچ ہم انسانوں کی سوچ سے اربوں سال آگے ہے ایک ایسی زندگی جو اس کائنات کے گہرے رازوں کو جانتی ہے جو ہر ناممکن کو ممکن میں بدل سکتی ہے اس زندگی کے بارے میں جاننے کا سفر ہے جسے ایلین کہتے ہیں لیکن ایلین کے بارے میں جاننے سے پہلے ہمارے پاس صرف ایک سوال کا جواب ہے کہ ایلین کہاں ہیں؟ لیکن جس زندگی کو ہم آج ڈھونڈ رہے ہیں کسی نہ کسی طرح وہ ہمیں پہلے مل گیا تو کیا ہوگا؟ آکاشگنگا 100,000 نوری سالوں میں پھیلتا ہے

جو 400 ارب ستاروں سے بنا ہے ان اربوں ستاروں میں سے ایک ستارہ SUN ان آٹھ پودوں کو کون روشنی دیتا ہے اور ان میں سے ایک ہمارا گھر (زمین) ہمارے سورج کی طرح آکاشگنگا میں بھی 400 ارب ستارے ہیں۔ ان کے اپنے سیارے ہیں اس کا مطلب ہے کہ ملکی وے 10 ٹریلین سیاروں کا گھر ہے اور اس کائنات میں آکاشگنگا جیسی کتنی کہکشائیں ہیں 2 ٹریلین سے زیادہ ہماری قابل مشاہدہ کائنات 93 بلین نوری سالوں میں پھیلی ہوئی ہے اگر انسان آج کے جدید ترین سیاروں کے ساتھ خلا میں سفر کرے ٹیکنالوجی صرف 1 نوری سال مکمل ہونے میں 40 ہزار سال لگیں گے صرف 1 نوری سال سچ یہ ہے کہ ہم اس دیوقامت کائنات کے سامنے خاک کا ایک ذرہ ہیں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کھربوں کہکشاؤں، اربوں ستاروں اور ان گنت سیاروں میں صرف ایک ہے۔ سیارے پر زندگی ہے اور ہم سب اس کائنات میں اکیلے ہیں یہ کیسے ممکن ہے؟

ہم انسان ہمیشہ سے زمین سے باہر کی زندگی کو جاننا چاہتے ہیں اور ہم نے اپنے نظام شمسی میں زندگی کی تلاش شروع کردی ہم نے نظام شمسی کے تمام سیاروں مریخ، مشتری، زحل کو ان کے چاندوں پر بھی تلاش کیا لیکن زندگی کا کوئی نشان نہیں ملا لیکن سفر ہم نے شروع کیا تھا ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ ہم نے اپنے نظام شمسی سے باہر ہزاروں نوری سال دور سیاروں کو تلاش کرنا شروع کر دیا جنہیں Exoplanets کہا جاتا ہے صرف ایک مسئلہ یہ تھا کہ Exoplanets وہاں موجود میزبان ستارے سے بہت چھوٹے ہیں اور ان کو تلاش کرنا ناممکن تھا۔ ان کے ستارے کی تیز روشنی ان کے سامنے ہوتے ہوئے بھی انہیں چھپا لیتی ہے اور سب سے بڑی دوربینوں کے لیے ان سیاروں کا پتہ لگانا سمندر میں نمک تلاش کرنے کے مترادف ہے

سائنسدانوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایسی تکنیک کا استعمال کیا جس سے وہ نہ صرف انہیں تلاش کر سکے بلکہ اس کے سائز سے لے کر اس کی کیمیائی ساخت تک سب کچھ معلوم ہو جائے گا ڈوپلر تکنیک جیسے ہی سیارہ ستارے کے سامنے سے گزرتا ہے، ستارے کی روشنی میں معمولی کمی واقع ہوتی ہے جس سے کسی سیارے کا پتہ چلتا ہے اور اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے اپنا پہلا exoplanet 51 پایا۔ پیگاسی بی جو ہم سے 50 نوری سال دور سورج جیسے ستارے کے گرد چکر لگا رہا تھا 51 پیگاسی بی بھی ہمارے مشتری کی طرح گیس کا دیو ہے لیکن اس کا ماحول مشتری جیسا نہیں ہے کیونکہ یہاں بھی بارش ہوتی ہے لیکن ہم پگھلے ہوئے لوہے کی ایک ایسی دنیا کو تلاش کرنے نکلے تھے جو ہمارے نظام شمسی کے سیارے سے ملتی جلتی ہو جہاں زندگی رہ سکتی ہو لیکن اس سیارے نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا اور بتایا کہ ہم جس چیز کی تلاش میں ہیں وہ اتنی آسانی سے نہیں ملے گی 51 پیگاسی کے بعد ہم کچھ ایسی دنیا دیکھی جو انسانی سوچ کو مروڑ کر رکھ دینے والی تھی سیارے جو مکمل طور پر منجمد ہو گئے تھے کچھ اتنے ہلکے ہیں کہ سمندر میں ڈالیں تو تیرتے ہیں لیکن اتنی بڑی کہ ان میں ہزاروں جہانیں سما جائیں کور کا دباؤ اتنا ہے کہ ہیرا بھی پلٹ جائے۔ ذرات میں ان تباہ کن دنیاؤں سے بہت دور ایک سیارہ ہے جو پہلی نظر میں ہمیں ہماری زمین کی یاد دلاتا ہے لیکن دوسری بار دیکھنے پر معلوم ہو جائے گا کہ یہ جہنم سے کم نہیں کیپلر 36b جو بند ہونے کی وجہ سے اپنے مدار میں بند ہے۔ اس کے ستارے کی طرف یعنی اس کا ایک رخ ہمیشہ ستارے کی طرف ہوتا ہے اور یہاں ستارے کی گرمی ایک ندیاں بناتی ہے لیکن سرخ گرم لاوے سے بھری ہوئی ہے جو پوری زمین کو ڈھانپ لیتی ہے اور جو چیز کرہ ارض کے زخموں پر نمک پاشی کرتی ہے وہ اس کا اپنا ساتھی کیپلر 36 سی اے ہے۔

گیس دیو اس سے کئی گنا بڑا یہ دونوں اتنے قریب ہیں کہ جب یہ گیس دیو اس کے پاس سے گزرتا ہے تو اس کے پہاڑ کو گرانے والی کشش ثقل نے لاوے کو آسمان پر پھینکا ایک طرف گرم لاوے کی ندیاں ہیں لیکن دوسری طرف جمنے والی سردی۔ لاکھوں کلومیٹر پر پھیلے برف کے پہاڑ اور اندھیرا ہمیشہ کے لیے آگ اور برف کا سیارہ یہ دنیا اس خطرناک کائنات کی صرف ایک جھلک تھی جس میں ہم زندگی کی تلاش میں نکلے تھے ایسا لگتا ہے کہ یہ سیارے ہم سے کہہ رہے ہیں کہ کائنات وہ نہیں جو ہم ہیں۔ لگتا ہے یہ سب جہنم سے بھی بدتر ہیں زندگی کا نام و نشان مٹا رہے ہیں آخر ان پر زندگی کیسے ہو سکتی ہے؟ کیا ہم سب اس کائنات میں اکیلے ہیں؟ کیا یہاں ہمارے سوا کوئی نہیں؟ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ زندگی کی تلاش میں ہیں تو پہلے پانی کو تلاش کریں پانی کی پیروی کریں کیونکہ گیس کے ایٹم اتنے تیز ہوتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے جڑ نہیں سکتے اور ٹھوس میں حرکت نہیں کر سکتے لیکن پانی میں یہ آہستہ سے ایک دوسرے کو چھو کر ایک کمپلیکس بناتے ہیں۔ مالیکیولر ڈھانچہ جو زندگی کے لیے ذمہ دار ہے K2 18b زمین سے آٹھ گنا بڑا سیارہ جہاں زندگی بنانے والی سب سے ضروری چیز پانی ہے لیکن شاید تھوڑی بہت پانی کی دنیا جو مکمل طور پر پانی سے ڈھکی ہوئی ہو کیا اس پر زندگی ہو سکتی ہے؟ یہ ہائیڈروجن سے بھرپور ماحول ہے اور اتنا بڑا سائز بہت زیادہ کشش ثقل کا سبب بنتا ہے پانی کے نیچے جانے والے دباؤ کی وجہ سے درجہ حرارت 5000 فارن ہائیٹ ہو جاتا ہے کہ اتنی گرمی ڈی این اے جیسی پیچیدہ زندگی کو پانی نہیں بننے دے گی جو زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ وہی پانی موت کا سبب بنتا ہے

معلوم کائنات کے باقی سیاروں کے مقابلے میں صرف زمین پر ہی زندگی کیوں ہے؟ کیونکہ زمین ایک کامل سیارہ ہے نہ بہت زیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا نہ مکمل طور پر پانی سے ڈھکا ہوا نہ بنجر زمین ایک ایسا سیارہ جس کا زمین سے لے کر آسمان تک ہر ایک انو یا ایٹم زندگی سے بھرا ہوا ہے اور اگر ہمیں زندگی کی تلاش کرنی ہے تو بس تلاش کرنی ہوگی۔ ہماری زمین جیسا ایک کامل سیارہ لیکن اس کائنات میں کتنے خطرناک اور جہنم نما سیارے ہماری زمین جیسے ہیں؟ 100 بلین ٹریلین 10,000,000,000,000,000,000,000 لیکن اگر ان 100 بلین ٹریلین قابل رہائش سیاروں میں صرف ایک سیارہ زمین جیسا ہے تو اس پر زندگی کیسی ہوگی؟ تیار ہو جاؤ! کیونکہ اب ہم اپنی سوچ کی وہ دیواریں گرانے والے ہیں جو ہمیں ان دنیاؤں میں داخل ہونے سے روکتی ہیں جو کہ غیر ملکیوں کا گھر ہے۔ اس کے بارے میں سوچیں ہماری زمین جیسی دنیا لیکن ایک نہیں بلکہ دو ستاروں کے گرد گردش کر رہی ہے زمین 2.0 کچھ سبزی خور اجنبی ہیں جو زمین پر اگنے والی پھپھوندی کھاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو انہیں کھاتے ہیں ایک درخت پر رہنے والے شکاری کی زمین پر رفتار بہت کم ہوتی ہے

لیکن وہ اس کے پاس ہتھیار ہے ارتقاء نے اس بار شکار بھاگ گیا شاید اگلی بار قسمت ساتھ نہ دے اس دنیا میں زمین سے 10 فیصد زیادہ آکسیجن ہے جس کی وجہ سے یہاں کی ہر چیز بڑی، زیادہ طاقتور اور زیادہ رنگین ہے آج یہ سبزی خور اجنبی ہے پیٹ بھرنے کے لیے دوبارہ یہاں واپس آیا لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ یہ اس کا آخری دن ہے فنگس ایک انفیکشن اسپرے کرتی ہے جس سے دماغ بے حس ہو جاتا ہے اور یہ انفیکشن خوف کا احساس ختم کر دیتا ہے اور شکاری کے سامنے بھی شکار نہیں بھاگتا۔ دور اس بار اگر کسی شکاری کو بھاگے بغیر شکار مل جائے تو اسے نہ کہنا ناممکن ہے۔ ایک آسان شکار لیکن زہر سے بھرا ہوا فنگس نے شکار کو مارنے کے لیے استعمال کیا تاکہ فنگس اس کے جسم کو کھا کر اپنی اولاد کو بڑھا سکے یہ دنیا ہمیں بتاتی ہے

کہ کوئی بھی جگہ کوئی بھی ہو اصول ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے اگر تم نہیں مارو گے تو تم مارے جائیں گے سائنس کے مطابق زمین جیسے پرفیکٹ سیارے پر زندگی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ صرف وہی دنیا آباد کر سکتی ہے جہاں سب کچھ توازن میں ہے لیکن میں ایسے جانور کو جانتا ہوں جو ہم سے متفق نہیں ہے Tardigrades آٹھ ٹانگوں والا ایک آبی ریچھ جو ہمارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ یہ خیال کہ زندگی صرف زمین جیسے سیارے پر موجود ہو سکتی ہے ایک ایسا جانور جو زمین سے تعلق رکھتا ہے لیکن کسی اجنبی سے کم نہیں یہ ٹارڈی گریڈ ابلتے پانی اور ٹھوس برف میں زندہ رہنے کے لیے کافی سخت ہیں اور اگر خلا کے خلا اور تابکاری کے سامنے چھوڑ دیا جائے، اس پر ایک خراش بھی نہیں آئے گی یہ دنیا کے بلند ترین پہاڑوں سے لے کر سمندر کی گہرائیوں تک ہر جگہ موجود ہیں یہاں تک کہ اپنے باغ کی کائی میں بھی آپ نے انہیں کبھی نہیں دیکھا ہوگا

کیونکہ یہ سوئی کی نوک کی طرح بہت چھوٹے ہیں لیکن سخت ہیں۔ وہ زمین کی پانچ بڑی آفات سے بچ گئے ہیں جہاں دنیا کے تمام ڈائنوسار مر گئے لیکن وہ زندہ رہے اور وہ پانی کے ایک قطرے کے ساتھ دس سال تک زندہ رہ سکتے ہیں ہمارا خیال ہے کہ زندگی کی بہت سی حالتیں ہیں یہ صرف وہیں ہو سکتی ہے جہاں وہ بھی نہ ہو۔ سردی نہ زیادہ گرم نہ بہت زیادہ تابکاری نہ بہت اندھیرا اور خدا جانے کتنی کیفیات ہیں اور سب سے اہم چیز پانی لیکن ہماری سوچ غلط ہے ان ٹارڈی گریڈ نے ثابت کر دیا کہ زندگی ایسے حالات میں زندہ رہ سکتی ہے جہاں انسان نہیں رہ سکتا اگر دنیا کا یہ سب سے چھوٹا جانور کہیں بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ تو غیر ملکی کیوں نہیں؟ مشتری ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے

جہاں کوئی زمین نہیں ہے یہاں ہائیڈروجن، ہیلیم، امونیا اور میتھین کے بادل ہیں ان بادلوں کی رفتار 300 کلومیٹر سے زیادہ ہے کیا یہاں زندگی گزارنے کے لیے کافی مشکل ہے؟ اگر ہاں تو مشتری پر زندگی کیسی ہوگی؟ ایسے اجنبی جن کو زمین کی ضرورت نہیں وہ جو تمام گیسیں فضا میں چھوڑ کر صرف ہائیڈروجن کو جذب کر لیتے ہیں تاکہ وہ ہمیشہ گرم ہوا کے غبارے کی طرح اڑ سکیں اور ان کی خوراک وہ بھاری گیسیں ہوں جو انہیں زندہ رکھتی ہیں یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنی غذا تیار کریں۔ اپنی خوراک جیسے ہوا سے نکلنے والے پودے اور سورج کی روشنی کا سائز شہروں سے بڑا ہوتا ہے لیکن رنگ بادلوں کے بادلوں کی طرح ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو شکاریوں سے چھپا سکیں، حقیقت یہ ہے کہ زندگی ان حالات میں زندہ رہتی ہے یہ بتاتی ہے کہ جہاں ہم نے اس کے وجود کو پالا ہے وہ زندہ رہ سکتی ہے۔ زندگی اس دنیا میں زندہ رہ سکتی ہے

جہاں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ ہو یا اتنا پانی ہو کہ زمین نظر نہیں آتی یہاں تک کہ ایسی دنیا میں جہاں ہمیشہ ایک طرف دن اور دوسری طرف رات ہو جہاں کشش ثقل اتنی مضبوط ہو۔ سب کچھ زمین میں دھنس جاتا ہے یا اتنا کم کہ ہر چیز ہوا میں اڑنے لگی اور کون جانے زندگی نے 51 پیگاسی بی کے جہنم میں جینے کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے جہاں پگھلے ہوئے لوہے کی بارش ہوتی ہے ہمیں ان چیزوں کے بارے میں سوچنا بہت عجیب لگتا ہے کیونکہ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ کائنات ہے یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور جہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے وہاں زندگی ہو سکتی ہے، ذہین زندگی کہلاتی ہے 10 ارب سال پرانا سیارہ جو کبھی ہرا بھرا ہوا کرتا تھا بالکل جنت جیسا لیکن مرتے سورج نے سب کچھ چھین لیا اس سے دور لیکن اس پر بسنے والی زندگی ان دس ارب سالوں میں اتنی ترقی کر چکی ہے کہ کرہ ارض کے بنجر ہونے کی انہیں کوئی پروا نہیں ہے جو آپ کے خیال میں ایلین ہے بس ایک روبوٹ ہے ہر ڈبے میں ایک ایلین ہے جو جسم کی ضرورت نہیں، بس ایک دماغ ہے، جو کبھی بوڑھا نہیں ہوتا اور نہ ہی مرتا ہے۔ اور ہر ذہن ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اور یہ تمام ذہن مل کر پورے سیارے کو کنٹرول کرتے ہیں چاہے اجنبی زندگی کتنی ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائے لیکن اس کائنات کے قہر سے بچنا ناممکن ہے

شمسی بھڑکنا، گاما شعاع پھٹنا سپرنووا، سیارچے کے اثرات کو مٹا سکتے ہیں۔ کسی بھی سیارے سے زندگی کا نام اور نشانی ہے اور ان کے زندہ رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے بس ملٹی پلینٹری تہذیب بن جائیں اجنبی تہذیبیں جو سیاروں کو شہروں کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور اس کائنات میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے ایسی ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہے جو رفتار سے زیادہ تیز ہے۔ روشنی کے ملین نوری سال 1 سیکنڈ میں چاہے خلائی تانے بانے یا ورم ہولز کے ذریعے سفر کریں جدید اجنبی تہذیب کو بڑی مقدار میں توانائی درکار ہوتی ہے جو وہ سیارچے کی کان کنی سے حاصل کریں گے تاکہ ان سیارچے کے وسائل اپنے خلائی جہازوں اور سیاروں کو چلائیں اور اگر یہ چھوٹے سیارچے کافی نہیں اس لیے اکیلے کشودرگرہ اور سیارے ہی ترقی یافتہ تہذیبوں کے لیے کافی نہیں ہیں ان کو توانائی کی حیرت انگیز مقدار کی ضرورت ہے ستارے سیاروں اور سیاروں سے اربوں گنا زیادہ توانائی بناتے ہیں اور اس ساری توانائی کو استعمال کرنے کے لیے ایلینز نے ایسا میگا ڈھانچہ بنایا ہوگا

جو جذب کر سکے۔ سورج کی طاقت مکمل طور پر ڈائیسن کرہ ہے اور اگر اس سے بھی طاقت کی بھوک پوری نہیں ہوتی تو بلیک ہول سے زیادہ توانائی کون دے سکتا ہے؟ اتنی طاقت ایک کثیر الجہتی اجنبی تہذیب کو کثیر الجہتی اجنبی تہذیب میں تبدیل کر سکتی ہے جس کا ہر کہکشاں پر قبضہ ہو گا، جو پوری کہکشاں کو نگل کر اپنی طاقت کی بھوک مٹا دے گا، گہری خلا میں کچھ جگہیں ایسی ہیں جو بالکل خالی خالی ہیں سینکڑوں نوری سال مکمل کیا یہ خالی جگہیں اجنبی تہذیب کا ثبوت نہیں ہیں؟ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کائنات کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے جو ان خلاوں کی وجہ ہے لیکن اگر یہ درست نہیں تو کیا ہوگا؟ کیا ہوگا اگر غیر ملکیوں کی نہ ختم ہونے والی بھوک ہماری طرف کھینچے گی؟ ہم کیا کریں گے؟ جن غیر ملکیوں کو ہم ہر روز بے چینی سے تلاش کرتے ہیں اگر ایک دن یہ اجنبی ہمیں مل جائیں تو کیا ہوگا؟ کیا ہو گا؟

ہم نہیں جانتے کہ اجنبی کیسے لگتے ہیں؟ لیکن ہم یہ کہ ہماری زمین ان بڑے سیاروں کی تہذیبوں کے سامنے ایک چھوٹی سی گیند کی طرح ہے وہ زمین کے تمام وسائل کو چوس لیں گے اور انسانوں کو بھی اپنے غلام کے طور پر استعمال کرنے کے لیے اگر مستقبل میں ہم انسان اتنی ترقی کر گئے کہ ٹیکنالوجی ایجاد کر لیں جتنی ترقی یافتہ اجنبی۔ تو ایک ایسی جنگ ہو گی جس کے بارے میں آج تک کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا چاہے وہ جنگ انسان ہی جیت جائیں لیکن آخر میں صرف تباہی اور موت ہی رہے گی یا اتنا ہی برا ہو گا جتنا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ غیر ملکی ہیں، اگر وہ ایسے نہیں ہیں تو کیا ہوگا؟ بلکہ وہ ہمیں اپنے جیسی ترقی یافتہ تہذیب بننے میں مدد کریں گے تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر اس کائنات کو سمجھ سکیں اگر ایسا ہو جائے تو انسان وہ سب کچھ کر پائے گا جو اس نے کبھی سوچا ہو گا کیا یہ کہانی کا اختتام ہے؟ ورنہ اس کائنات میں کوئی اور ہے

جو ان سب چیزوں کی پرواہ نہیں کرتا جو زمان و مکان کی تمام حدود سے باہر ہے جسے کسی چیز کی ضرورت نہیں جو زندہ ہے لیکن ایک سوچ کے طور پر جو انہیں ایک سپر تہذیب بنا دے گی۔ کائنات کے گہرے رازوں کو جانتا ہے جو ہر ناممکن کو ممکن میں بدل سکتا ہے سائنسدانوں نے اب تک جتنے سیارے دریافت کیے ہیں ان میں سے بہت سے سیارے ہماری زمین سے ملتے جلتے ہیں لیکن اب تک ان سیاروں پر زندگی کا کوئی نشان نہیں ملا یہ سچ ہے کہ ہم سب اکیلے ہیں۔ یہ پوری کائنات؟

لیکن اگر آپ کہانی کا دوسرا رخ دیکھیں تو سچ یہ ہے کہ سائنس دانوں نے ہماری کہکشاں میں موجود اربوں سیاروں میں سے صرف 5000 سیاروں کو ہی دریافت کیا ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ سمندر کے پانی سے بالٹی بھریں اور کہیں کہ کوئی نہیں ہے۔ بالٹی میں مچھلی، اس کا مطلب ہے کہ پورے سمندر میں کوئی مچھلی نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر سفر کا اختتام ہوتا ہے لیکن جو سفر آپ نے حادثاتی طور پر شروع کیا اس کی نہ کوئی انتہا ہوتی ہے اور نہ ہی واپسی کا کوئی راستہ کیونکہ ہم نے ابھی دیکھنا شروع کیا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر چیز نظر آ رہی ہو۔

Similar Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *