History of Crusades and Salahuddin Ayyubi صلیبی جنگوں کی تاریخ اور صلاح الدین ایوبی Part-2
لیکن اس فوج نے قسطنطنیہ پہنچ کر مسلمانوں سے جنگ کرنے کا انتظار نہیں کیا۔ انہوں نے قسطنطنیہ پہنچنے سے پہلے ہی یورپ میں مسیحیوں کے روایتی مذہبی حریفوں یہودیوں کے خلاف کروسیڈ شروع کر دی۔ پیٹر کے حامیوں نے جرمنی میں بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتلِ عام کیا اور ان کی آبادیوں کو تہس نہس کر دیا۔ بہت سے یہودیوں کو زبردستی اپنا مذہب بدلنے پر بھی مجبور کیا گیا۔ پھر یہ لشکر جب ہنگری پہنچا تو وہاں بھی اس لشکر نے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی۔ ہنگری کی فوج سے اس کی کئی جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں دونوں طرف سے ہزاروں لوگ مارے گئے۔ حالانکہ ہنگری والے یہودی نہیں بلکہ مسیحی تھے لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ صلیب کے نام پر جنگ لڑنے والے اپنے ہی بھائی بندوں سے ٹکرا رہے تھے۔
History of Crusades and Salahuddin Ayyubi صلیبی جنگوں کی تاریخ اور صلاح الدین ایوبی Part-2
آخر جولائی، 1096 میں یہ بچا کھچا لشکر قسطنطنیہ جا پہنچا۔ یعنی ایسٹن رومن ایمپائیر یہاں سے انہوں نے آبنائے باسفورس کو یعنی اس سمندری پٹی کو عبور کرنا تھا جس کے بعد سلجوق علاقے تھا جہاں انہوں نے داخل ہونا تھا۔ قسطنطنیہ والوں نے اپنے شہر کے دروازے پیٹر کے لشکر کیلئے کھول دیئے۔ لیکن اس لشکر نے یہاں بھی کافی ہنگامہ آرائی کی۔ البتہ آخر میں پیٹر اور رومن شہنشاہ الیگزیئس ون کی ایک ملاقات ہوئی جس کے بعد امن قائم ہو گیا۔ الیگزیئس ون جلد از جلد پیٹر اور اس کے پریشان کن صلیبیوں سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ انہوں نے پیٹر کے لشکر کو کشتیوں میں بٹھا کر آبنائے باسفورس پار کروا دی۔ اب یہ لشکر سلجوق ٹیریٹری یعنی مسلم علاقے میں داخل ہو چکا تھا۔ یہاں آپ کو دوستو یہ بھی بتا دیں کہ جب پیپلز کروسیڈ کے سپاہی سلجوق علاقے میں داخل ہوئے تو وسیع و عریض سلجوق ایمپائر کئی چھوٹی بڑی ریاستوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ترکیہ میں موجود سلجوق سلطنت سلجوقیانِ روم کہلاتی تھی۔ اس کا دارالحکومت نیقیہ تھا جو اب ایزنیک کہلاتا ہے۔ پرانے نیقیہ شہر کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔ تو پیپلز کروسیڈ کا فوری واسطہ اسی سلجوقیانِ روم کی سلطنت سے پڑا جس کے حکمران اٹھارہ، انیس برس کے قلج ارسلان تھے۔
مائی کیوریس فیلوز پیٹر کے لشکر نے سلجوق سلطنت میں بھی وہی کھیل کھیلا جو وہ یورپ میں کھیل چکے تھے۔ یعنی یہاں بھی مختلف آبادیوں پر حملے کر کے لوٹ مار اور قتلِ عام کا بازار گرم کر دیا۔ ان کے مظالم کی کہانیاں دل دہلا دینے والی ہیں۔ مختصر بتا دیں کہ یہ لوگ ننھے بچوں تک کو تلواروں سے کاٹ ڈالتے تھے۔ حتیٰ کہ کئی بچوں کو تو سلاخوں میں پرو کر آگ پر بھونا جاتا تھا۔ صلیبیوں کے حوصلے اس حد تک بـڑھ گئے تھے کہ انہوں نے سلجوق سلطنت کے دارالحکومت نیقیہ کے گردونواح میں بھی لوٹ مار شروع کر دی تھی۔ انہوں نے سلجوقوں کے کچھ چھوٹے قلعوں پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔ ان جارحانہ کارروائیوں پر سلجوقی ترک خاموش نہ رہ سکے۔ انہوں نے نیقیہ کے مشرق میں ایک قلعے میں صلیبی لشکر کے ایک بڑے حصے کو گھیر لیا۔ آٹھ روز تک قلعے کا محاصرہ جاری رہا۔ صلیبیوں کے پاس پانی ختم ہو گیا۔ کہتے ہیں
صلیبی پیاس سے اس قدر بیتاب تھے کہ وہ اپنے گھوڑوں اور گدھوں کو مار کر ان کے خون سے پیاس بجھاتے رہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ خون ناکافی تھا۔ جب جانور بھی مر گئے اور پینے کیلئے خون بھی نہ ریا تو صلیبیوں کی مزاحمت دم توڑ گئی۔ سلجوق لشکر قلعے میں داخل ہو گیا اور تمام صلیبی یا تو مارے گئے یا غلام بنا لئے گئے۔ صلیبی لشکر کا باقی حصہ ایک دوسرے قلعے کیویٹاٹ میں تھا جو کہ نیقیہ کے مغرب میں کافی دور تھا۔ صلیبیوں کا لیڈر پیٹر دی ہیرمیٹ رومن شہنشاہ سے فوجی مدد حاصل کرنے قسنطنطیہ گیا ہوا تھا۔ اس کی غیرموجودگی میں قلعے والوں کو اپنے ساتھیوں کی سلجوقوں کے ہاتھوں تباہی کی خبر ملی۔ وہ انتقام لینے کیلئے بے چین ہو گئے۔ انہوں نے سلجوق دارالحکومت نیقیہ پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ اکیس اکتوبر 1096 میں وہ اپنے لیڈر پیٹر کے بغیر ہی حملے کیلئے روانہ ہو گئے۔ لیکن سلجوق ان کا ارادہ بھانپ کر پہلے ہی نیقیہ اور کیویٹاٹ کے دمیان پہاڑوں میں پوزیشن لئے ہوئے تھے۔
وہ اپنے نوجوان بادشاہ قلج ارسلان کی کمان میں اچانک صلیبیوں پر جھپٹ پڑے اور ان کا صفایا کر دیا۔ اس لشکر کے خاتمے کے ساتھ ہی اڑھائی ماہ کی پیپلز کروسیڈ اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ اس میں سلجوق مسلم جیت گئے تھے۔ جنگ کے ہیرو نوجوان سلطان قلج ارسلان تھے جنہوں نے کم عمری میں ہی ایک بڑی فتح حاصل کر لی تھی۔ تاہم پیپلز کروسیڈ تو صرف ٹریلر تھا۔ یہ حملہ آور زیادہ تربیت یافتہ نہیں تھے اس لئے آسانی سے ہار گئے تھے۔ لیکن ان کے پیچھے زیادہ منظم اور تربیت یافتہ فوجیں آ رہی تھیں۔ اور یہی وہ فوجیں تھیں جن سے مسلمانوں کی اصل صلیبی جنگ شروع ہونے والی تھی۔ مائی کیوریس فیلوز پوپ اربن ٹو کی کوششوں سے یورپ میں جو لشکر جمع ہوا تھا اس کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی۔
اس میں پینتیس ہزار پیدل سپاہی تھے۔ سات ہزار نائٹس یعنی گھڑسوار تھے۔ اس کے علاوہ بیس سے ساٹھ ہزار ملازمین اور عام لوگ خواتین اور بچوں سمیت شامل تھے۔ یہ فوج بھی یورپ میں کسی ایک مقام پر جمع نہیں تھی بلکہ فرانس، جرمنی اور اٹلی میں الگ، الگ مقامات پر اکٹھی ہوئی تھی۔ اس کے کمانڈرز میں یورپ کے مختلف ممالک کی اشرافیہ کے لوگ شامل تھے۔ اس فرسٹ کروسیڈ کے مشہور کمانڈرز میں فرانسیسی سردار گوڈفرے آف بیون اس کا بھائی بالڈوین آف بیون برطانیہ کے پہلے نارمن بادشاہ ولیم دی کنکرر کا بیٹا رابرٹ ٹو اور اٹلی کا ایک شہزادہ بوہیمونڈ آف ٹورانٹو بھی شامل تھے۔ ان لوگوں کے پاس اپنی پرائیویٹ آرمیز تھیں جنہیں یہ صلیبی جنگ کیلئے ساتھ لے آئے تھے۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں عام شہری بھی رضاکارانہ طور پر والینٹیرلی اس لشکر کا حصہ بن گئے تھے۔ ویسے تو اس لشکر میں بہت سی یورپی قوموں کے لوگ شامل تھے لیکن تاریخ میں مجموعی طور پر یہ لوگ فرینکش یا فرینکس کہلائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ صلیبی جنگ کی شروعات فرانس سے ہوئی تھی۔ فرانس کا نام ایک قدیم سلطنت فرینکیا کے نام پر رکھا گیا تھا جو اپنے عروج کے دور میں جرمنی اور اٹلی تک پھیلی ہوئی تھی۔ اسی مناسبت سے فرانس کے باشندے فرینکش یا فرینکس کہلاتے تھے۔