History of Crusades and Salahuddin Ayyubi صلیبی جنگوں کی تاریخ اور صلاح الدین ایوبی Part-2

تو اسی لحاظ سے تمام صلیبی فرینکس کہلائے اور غالباً یہی ٹرم پھر اسلامی دنیا میں فرنگی کے نام سے مشہور ہوئی۔ یعنی فرینکس سے فرنگی۔ دس سو چھیانوے کے آخر میں یعنی پوپ کی دی ہوئی تاریخ گزرنے کے چند ماہ بعد صلیبی فورسز قسطنطنیہ روانہ ہونا شروع ہو گئیں۔ فرسٹ کروسیڈ کے تمام سردار مختلف جگہوں سے مختلف اوقات میں اپنی فورسز کے ساتھ چلے۔ ان میں سے کچھ راستے میں اور باقی قسنطنیہ پہنچ کر مرکزی فوج میں شامل ہوئے۔ پوپ اربن ٹو خود تو اس لشکر کے ساتھ نہیں گئے لیکن انہوں نے اپنا ایک نمائندہ ’’ادھیمر آف لی پوئے‘‘ اس فوج کے ساتھ بھیج دیا تھا۔

History of Crusades and Salahuddin Ayyubi صلیبی جنگوں کی تاریخ اور صلاح الدین ایوبی Part-2

یہ نمائندہ اس فرسٹ کروسیڈ کا علامتی سپریم کمانڈر تھا۔ تاہم اس کی موجودگی کے باوجود تمام کمانڈرز آزاد تھے اور اپنے فیصلے الگ الگ کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار وہ کسی فیصلے پر اتفاق کر لیتے اور اسی طرح بعض اوقات آپس میں جھگڑ بھی پڑتے تھے۔ بہرحال یہ مرکزی صلیبی فوج جو سویلینز سمیت ایک لاکھ کے قریب تھی۔ دس سو ستانوے کے آخر تک قسطنطنیہ میں جمع ہو گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب پیپلز کروسیڈ ختم ہو چکی تھی۔ اس کا سربراہ پیٹر دی ہرمیٹ ایسٹرن رومن ایمپائر میں قیام پذیر تھا۔ قسطنطنیہ کے شہری پیپلز کروسیڈ میں شامل لوگوں کا متشدد رویہ دیکھ چکے تھے۔ اس لئے جب یہ نیا صلیبی لشکر قسطنطنیہ پہنچا تو شہروالوں نے کسی گرمجوشی کا اظہار کرنے کے بجائے محتاط رویہ اپنایا۔ صلیبی جو کہ جلد از جلد سلجوق علاقے میں داخل ہو کر بیت المقدس فتح کرنے کیلئے بے چین تھے وہ شہریوں کا سرد رویہ دیکھ کر مشتعل ہو گئے۔

چند ایک بار تو نوبت لڑائی تک بھی پہنچی لیکن کسی نہ کسی طرح ٹل گئی۔ الیگزیئس ون نے نا صرف یہ کہ اپنی کشتیوں کے ذریعے صلیبیوں کو سلجوق علاقے میں پہنچا دیا بلکہ اپنی کچھ فوج بھی ان کے ساتھ بھیج دی۔ راستے میں کسی مقام پر پیٹر دی ہیرمیٹ بھی اس فوج میں شامل ہو گیا۔ اس صلیبی لشکر کا پہلا ٹارگٹ سلجوق دارالحکومت نیقیہ تھا۔ اس کے بعد ان کا ارادہ ترکیہ سے گزرتے ہوئے انٹیوچ یعنی انطاکیہ شہر پر حملہ کرنا تھا۔ اس کے بعد ہی وہ آگے بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کر سکتے تھے۔ نیقیہ پر حملہ اصل صلیبی جنگ کا آغاز تھا۔ لیکن صلیبیوں کے مقابلے میں جو سلجوق سلطنت تھی وہ اتنے بڑے لشکر سے نمٹنے کیلئے ابھی پوری طرح تیار نہیں تھی۔

یہی وجہ ہے کہ پھر جو ہوا اس نے گیارہویں صدی، الیونتھ سنچری کی اسلامی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ مائی کیوریس فیلوز مئی1097 کے شروع میں صلیبی فوج نے نیقیہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ ان کے کچھ فوجی دستوں کو راستے میں پیپلز کروسیڈ میں مارے گئے صلیبیوں کی گلی سڑی لاشیں اور ہڈیاں وغیرہ بھی ملیں۔ یہ سب دیکھ کر مسلمانوں کے خلاف ان کا اشتعال بڑھ گیا۔ چودہ، فورٹین مئی کو صلیبیوں نے سلجوق دارالحکومت نیقیہ کا محاصرہ کر لیا۔ دوستو یہ شہر دفاعی لحاظ سے ایک آئیڈیل جگہ پر واقع تھا۔ اس کے مغرب میں ایک بہت بڑی جھیل تھی جسے لیک ایزنیک کہا جاتا ہے۔

اس جھیل کی موجودگی میں مغربی طرف سے شہر کا محاصرہ نہیں ہو سکتا تھا۔ شہر کے باقی تین طرف یعنی مشرق، شمال اور جنوب میں حفاظتی دیوار تھی۔ اس دیوار میں تینوں سمتوں کی طرف تین دروازے کھلتے تھے۔ محافظوں نے یہ کیا کہ تینوں دروازے بند کر کے قلعے کی دیواروں پر پوزیشنز سنبھال لیں۔ جب صلیبی لشکر یہاں پہنچا تو وہ انہی تینوں دروازوں کے سامنے شہر کو گھیر کر بیٹھ گیا۔ اب دوستو نیقیہ شہر تھا تو سلجوقی سلطنت کا دارالحکومت لیکن اس کی حفاظت کیلئے بہت کم فوج موجود تھی۔ سلجوق سلطان قلج ارسلان نے پیپلز کروسیڈ کو ہرانے کے بعد یہ سمجھ لیا تھا کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ اس لئے وہ شہر کی حفاظت سے کسی حد تک غافل ہو گئے تھے۔ حتیٰ کہ جس وقت شہر کا محاصرہ ہوا تو وہ خود بھی شہر میں موجود نہیں تھے۔ وہ شہر سے کافی دور تھے اور جب انہیں دشمن کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی ایمپائر کے دوسرے حصوں سے فوج جمع کرنا شروع کر دی۔ کچھ عرصے بعد وہ فوج لے کر آئے اور نیقیہ کے قریب پہاڑوں میں چھپ گئے۔

وہ دشمن پر پیچھے سے حملہ کرنے کیلئے موقعے کی تلاش میں تھے کہ صلیبیوں کو ان کی آمد کا علم ہو گیا۔ سو وہ لڑائی کیلئے تیار ہو گئے۔ قلج ارسلان نے اپنی فوج کے ساتھ جنوب کی طرف سے صلیبی لشکر پر حملہ کر دیا۔ انہیں اپنی فتح کا اس قدر یقین تھا کہ ان کے سپاہی صلیبیوں قیدیوں کو باندھنے کیلئے بڑی تعداد میں رسیاں بھی ساتھ لائے تھے۔ لیکن ایک تو صلیبی پہلے ہی ہوشیار ہو چکے تھے دوسرا سلطان کی فوج بھی دشمن سے کم تھی۔ اس لئے انہوں نے شکست کھائی اور وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے بعد صلیبیوں نے یہ کیا کہ مارے جانے والے سلجوق سپاہیوں کے سر کاٹے اور انہیں قلعے کے اندر پھینکنا شروع کر دیا۔ بہت سے سروں کو نیزوں پر لٹکا کر قلعے کے سامنے ان کی نمائش بھی کی گئی۔ صلیبی ان طریقوں سے قلعے میں موجود ترک فوج کو خوفزدہ کرنا چاہتے تھے۔ اور دیکھیں کہ وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔

قلعے والے سمجھ گئے کہ اب انہیں قلج ارسلان سے کوئی مدد نہیں ملنے والی۔ اس دوران صلیبیوں کی اتحادی رومن ایمپائر جس کی فوج ان کے ساتھ محاصرے میں شریک تھی اس نے ایک گہری چال چلی۔ رومنز نے سمندر سے بہت سی کشتیوں کو زمینی راستے سے لا کر شہر کے پیچھے موجود جھیل میں پہنچا دیا۔ ان کشتیوں نے مغربی طرف سے بھی شہر کی ناکہ بندی کر دی۔ اب شہر مکمل محاصرے میں تھا چارو طرف سے حصار میں تھا اور شہر کے محافظ سنجیدگی سے ہتھیار ڈالنے پر غور کرنے لگے تھے۔ لیکن وہ یورپ کے صلیبیوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ صلیبی شہر کو برباد کر دیں گے کسی کو زندہ نہیں چھوڑے گے۔ چنانچہ انہوں نے خفیہ طور پر رومن ایمپائر کے کمانڈرز سے مذاکرات شروع کر دیئے جو صلیبی لشکر کے ساتھ قسطنطنیہ سے آئے تھے۔ جو رومن شہنشاہ کے نمائندے بھی تھے۔ ان کمانڈرز نے قلعے والوں کو امان دے دی اور شہر نے سرنڈر کر دیا۔ اس طرح تقریباً ایک ماہ کے محاصرے میں شہر فتح ہو گیا تھا۔ لیکن یہ ایک پُرامن سرنڈر تھا۔ اس سرنڈر سے صلیبی بہت ناراض ہوئے کیونکہ اس طرح شہر کو لوٹنے کی ان کی خواہش ادھوری رہ گئی تھی۔ تاہم رومن کمانڈرز نے شہر کے سرکاری خزانے سے انہیں اچھی خاصی رقم اور تحائف دے کر راضی کر لیا۔

تو اسی لحاظ سے تمام صلیبی فرینکس کہلائے اور غالباً یہی ٹرم پھر اسلامی دنیا میں فرنگی کے نام سے مشہور ہوئی۔ یعنی فرینکس سے فرنگی۔ دس سو چھیانوے کے آخر میں یعنی پوپ کی دی ہوئی تاریخ گزرنے کے چند ماہ بعد صلیبی فورسز قسطنطنیہ روانہ ہونا شروع ہو گئیں۔ فرسٹ کروسیڈ کے تمام سردار مختلف جگہوں سے مختلف اوقات میں اپنی فورسز کے ساتھ چلے۔ ان میں سے کچھ راستے میں اور باقی قسنطنیہ پہنچ کر مرکزی فوج میں شامل ہوئے۔ پوپ اربن ٹو خود تو اس لشکر کے ساتھ نہیں گئے لیکن انہوں نے اپنا ایک نمائندہ ’’ادھیمر آف لی پوئے‘‘ اس فوج کے ساتھ بھیج دیا تھا۔ یہ نمائندہ اس فرسٹ کروسیڈ کا علامتی سپریم کمانڈر تھا۔ تاہم اس کی موجودگی کے باوجود تمام کمانڈرز آزاد تھے اور اپنے فیصلے الگ الگ کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار وہ کسی فیصلے پر اتفاق کر لیتے اور اسی طرح بعض اوقات آپس میں جھگڑ بھی پڑتے تھے۔ بہرحال یہ مرکزی صلیبی فوج جو سویلینز سمیت ایک لاکھ کے قریب تھی۔ دس سو ستانوے کے آخر تک قسطنطنیہ میں جمع ہو گئی۔ یہ وہ وقت تھا

جب پیپلز کروسیڈ ختم ہو چکی تھی۔ اس کا سربراہ پیٹر دی ہرمیٹ ایسٹرن رومن ایمپائر میں قیام پذیر تھا۔ قسطنطنیہ کے شہری پیپلز کروسیڈ میں شامل لوگوں کا متشدد رویہ دیکھ چکے تھے۔ اس لئے جب یہ نیا صلیبی لشکر قسطنطنیہ پہنچا تو شہروالوں نے کسی گرمجوشی کا اظہار کرنے کے بجائے محتاط رویہ اپنایا۔ صلیبی جو کہ جلد از جلد سلجوق علاقے میں داخل ہو کر بیت المقدس فتح کرنے کیلئے بے چین تھے وہ شہریوں کا سرد رویہ دیکھ کر مشتعل ہو گئے۔ چند ایک بار تو نوبت لڑائی تک بھی پہنچی لیکن کسی نہ کسی طرح ٹل گئی۔ الیگزیئس ون نے نا صرف یہ کہ اپنی کشتیوں کے ذریعے صلیبیوں کو سلجوق علاقے میں پہنچا دیا بلکہ اپنی کچھ فوج بھی ان کے ساتھ بھیج دی۔ راستے میں کسی مقام پر پیٹر دی ہیرمیٹ بھی اس فوج میں شامل ہو گیا۔ اس صلیبی لشکر کا پہلا ٹارگٹ سلجوق دارالحکومت نیقیہ تھا۔ اس کے بعد ان کا ارادہ ترکیہ سے گزرتے ہوئے انٹیوچ یعنی انطاکیہ شہر پر حملہ کرنا تھا۔ اس کے بعد ہی وہ آگے بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کر سکتے تھے۔ نیقیہ پر حملہ اصل صلیبی جنگ کا آغاز تھا۔ لیکن صلیبیوں کے مقابلے میں جو سلجوق سلطنت تھی وہ اتنے بڑے لشکر سے نمٹنے کیلئے ابھی پوری طرح تیار نہیں تھی۔

یہی وجہ ہے کہ پھر جو ہوا اس نے گیارہویں صدی، الیونتھ سنچری کی اسلامی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ مائی کیوریس فیلوز مئی1097 کے شروع میں صلیبی فوج نے نیقیہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ ان کے کچھ فوجی دستوں کو راستے میں پیپلز کروسیڈ میں مارے گئے صلیبیوں کی گلی سڑی لاشیں اور ہڈیاں وغیرہ بھی ملیں۔ یہ سب دیکھ کر مسلمانوں کے خلاف ان کا اشتعال بڑھ گیا۔ چودہ، فورٹین مئی کو صلیبیوں نے سلجوق دارالحکومت نیقیہ کا محاصرہ کر لیا۔ دوستو یہ شہر دفاعی لحاظ سے ایک آئیڈیل جگہ پر واقع تھا۔ اس کے مغرب میں ایک بہت بڑی جھیل تھی جسے لیک ایزنیک کہا جاتا ہے۔ اس جھیل کی موجودگی میں مغربی طرف سے شہر کا محاصرہ نہیں ہو سکتا تھا۔ شہر کے باقی تین طرف یعنی مشرق، شمال اور جنوب میں حفاظتی دیوار تھی۔ اس دیوار میں تینوں سمتوں کی طرف تین دروازے کھلتے تھے۔ محافظوں نے یہ کیا کہ تینوں دروازے بند کر کے قلعے کی دیواروں پر پوزیشنز سنبھال لیں۔

جب صلیبی لشکر یہاں پہنچا تو وہ انہی تینوں دروازوں کے سامنے شہر کو گھیر کر بیٹھ گیا۔ اب دوستو نیقیہ شہر تھا تو سلجوقی سلطنت کا دارالحکومت لیکن اس کی حفاظت کیلئے بہت کم فوج موجود تھی۔ سلجوق سلطان قلج ارسلان نے پیپلز کروسیڈ کو ہرانے کے بعد یہ سمجھ لیا تھا کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ اس لئے وہ شہر کی حفاظت سے کسی حد تک غافل ہو گئے تھے۔ حتیٰ کہ جس وقت شہر کا محاصرہ ہوا تو وہ خود بھی شہر میں موجود نہیں تھے۔ وہ شہر سے کافی دور تھے اور جب انہیں دشمن کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی ایمپائر کے دوسرے حصوں سے فوج جمع کرنا شروع کر دی۔ کچھ عرصے بعد وہ فوج لے کر آئے اور نیقیہ کے قریب پہاڑوں میں چھپ گئے۔ وہ دشمن پر پیچھے سے حملہ کرنے کیلئے موقعے کی تلاش میں تھے کہ صلیبیوں کو ان کی آمد کا علم ہو گیا۔ سو وہ لڑائی کیلئے تیار ہو گئے۔ قلج ارسلان نے اپنی فوج کے ساتھ جنوب کی طرف سے صلیبی لشکر پر حملہ کر دیا۔ انہیں اپنی فتح کا اس قدر یقین تھا کہ ان کے سپاہی صلیبیوں قیدیوں کو باندھنے کیلئے بڑی تعداد میں رسیاں بھی ساتھ لائے تھے۔

لیکن ایک تو صلیبی پہلے ہی ہوشیار ہو چکے تھے دوسرا سلطان کی فوج بھی دشمن سے کم تھی۔ اس لئے انہوں نے شکست کھائی اور وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے بعد صلیبیوں نے یہ کیا کہ مارے جانے والے سلجوق سپاہیوں کے سر کاٹے اور انہیں قلعے کے اندر پھینکنا شروع کر دیا۔ بہت سے سروں کو نیزوں پر لٹکا کر قلعے کے سامنے ان کی نمائش بھی کی گئی۔ صلیبی ان طریقوں سے قلعے میں موجود ترک فوج کو خوفزدہ کرنا چاہتے تھے۔ اور دیکھیں کہ وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔ قلعے والے سمجھ گئے کہ اب انہیں قلج ارسلان سے کوئی مدد نہیں ملنے والی۔ اس دوران صلیبیوں کی اتحادی رومن ایمپائر جس کی فوج ان کے ساتھ محاصرے میں شریک تھی اس نے ایک گہری چال چلی۔ رومنز نے سمندر سے بہت سی کشتیوں کو زمینی راستے سے لا کر شہر کے پیچھے موجود جھیل میں پہنچا دیا۔

ان کشتیوں نے مغربی طرف سے بھی شہر کی ناکہ بندی کر دی۔ اب شہر مکمل محاصرے میں تھا چارو طرف سے حصار میں تھا اور شہر کے محافظ سنجیدگی سے ہتھیار ڈالنے پر غور کرنے لگے تھے۔ لیکن وہ یورپ کے صلیبیوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ صلیبی شہر کو برباد کر دیں گے کسی کو زندہ نہیں چھوڑے گے۔ چنانچہ انہوں نے خفیہ طور پر رومن ایمپائر کے کمانڈرز سے مذاکرات شروع کر دیئے جو صلیبی لشکر کے ساتھ قسطنطنیہ سے آئے تھے۔ جو رومن شہنشاہ کے نمائندے بھی تھے۔ ان کمانڈرز نے قلعے والوں کو امان دے دی اور شہر نے سرنڈر کر دیا۔ اس طرح تقریباً ایک ماہ کے محاصرے میں شہر فتح ہو گیا تھا۔ لیکن یہ ایک پُرامن سرنڈر تھا۔ اس سرنڈر سے صلیبی بہت ناراض ہوئے کیونکہ اس طرح شہر کو لوٹنے کی ان کی خواہش ادھوری رہ گئی تھی۔ تاہم رومن کمانڈرز نے شہر کے سرکاری خزانے سے انہیں اچھی خاصی رقم اور تحائف دے کر راضی کر لیا۔

Read More What if there are only three super power countries in the world? اگر دنیا میں صرف تین سپر پاور ممالک ہوں تو کیا ہوگا؟

Similar Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *