History of Crusades and Salahuddin Ayyubi صلیبی جنگوں کی تاریخ اور صلاح الدین ایوبی Part-3
سلجوق دارالحکومت اب ایسٹرن رومن ایمپائر کے قبضے میں جا چکا تھا کچھ عرصے تک رومن ایمپائر نے صلیبیوں کی مدد سے ترکیہ کا خاصا علاقہ سلجوقوں سے چھین لیا۔ اس دوران سلجوق حکمران قلج ارسلان دشمن کے خلاف ایک فیصلہ کُن جنگ کی تیاری کر رہے تھے۔ لیکن جب تک وہ تیار ہوئے دشمن ان کی سطنت میں کافی آگے بڑھ چکا تھا۔ بہرحال انہوں نے اپنی ایک آخری کوشش کی۔ اس کوشش کا نتیجہ تھا ضورلیم کی لڑائی۔ اس لڑائی میں سلطان قلج ارسلان نے اپنا سب سے خاص ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا یعنی تیرانداز گھڑسوار۔ ترک تیرانداز گھوڑوں پر بیٹھ کر درست نشانے لگانے کیلئے مشہور تھے۔ رومنز کے خلاف منزیکرت کی مشہورِ زمانہ لڑائی جو1097 میں ہوئی تھی وہ بھی سلجوقوں نے انہی تیراندازوں کے بل پر جیتی تھی۔ اب یہی گھڑ سوار تیرانداز صلیبیوں پر نشانے لگانے جا رہے تھے۔ تو کیا انہوں نے معرکہ جیت لیا؟
History of Crusades and Salahuddin Ayyubi صلیبی جنگوں کی تاریخ اور صلاح الدین ایوبی Part-3
یکم جولائی1097 کے روز صلیبیوں اور سلجوقوں میں ایک فیصلہ کُن معرکہ ہوا۔ یہ معرکہ قدیم ضورلیم کے مقام پر ہوا جو موجودہ ترک علاقے ’’اسکی شہر‘‘ کے قریب واقع تھا۔ ہوا یہ کہ صلیبی فوج مختلف ٹکڑیوں میں سفر کر رہی تھی۔ ضورلیم کے مقام پر چند ہزار پیدل صلیبی فوجی اپنا کیمپ لگا رہے تھے کہ ترک سلطان اپنے گھڑسوار دستوں کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑے۔ گھڑسواروں نے تیروں کی بارش کر کے صلیبیوں کو سخت جانی نقصان پہنچایا۔ کچھ ہی دیر میں صلیبی اپنے کیمپ میں محصور ہو چکے تھے اور ترک گھڑسوار ان پر چاروں طرف سے تیروں کی بوچھاڑ کر رہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ صلیبیوں کو شکست اب ہوئی کہ اب لیکن پھر وہی ہوا جو اس سے پہلے ہو چکا تھا۔ یعنی ترک سواروں کی تعداد اصل میں صلیبی فوج سے بہت کم تھی۔ کچھ ہی دیر میں صلیبی فوج کی باقی ٹکڑیاں بھی میدانِ جنگ میں پہنچنے لگیں۔ اس دوران ایک صلیبی لشکر ترکوں کے عقب میں نمودار ہو گیا۔ جب قلج ارسلان نے دیکھا کہ ان کے گھڑسوار دستے گھیرے میں آنے والے ہیں تو وہ اپنی فوج کے ساتھ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔
ضورلیم کی اہم ترین جنگ صلیبیوں نے جیت لی تھی۔ اس شکست کے بعد قلج ارسلان کبھی کھل کر صلیبیوں کے مقابلے پر نہیں آئے اور اپنی بچی کھچی سلطنت کو ہی سنبھالنے میں لگے رہے۔ یعنی سلجوقیان روم کی سلطنت باقی تو رہی لیکن یہ پہلے کے مقابلے میں بہت سکڑ گئی تھی جیسا کہ آپ نقشے پر دیکھ رہے ہیں۔ ضورلیم کی فتح سے صلیبیوں کیلئے شام اور فلسطین کا دروازہ کھل گیا تھا۔ وہ ترکیہ میں پیش قدمی کرتے ہوئے شام کی طرف بڑھنے لگے۔ ترکیہ کے جنوب مشرقی علاقے میں ایک مسیحی آرمینیائی ریاست سلیشیا کے نام سے پہلے سے ہی قائم تھی۔ اس ریاست نے بھی صلیبی لشکر کو راستہ دے دیا۔ یوں یہ لشکر پیش قدمی کرتے ہوئے ترکی اور شام کی سرحد کے قریب انطاکیہ شہر کے باہر پہنچ گیا۔
یہ شہر گو کہ قلج ارسلان کی سلطنت کا حصہ نہیں تھا لیکن تھا یہ بھی سلجوقوں کے کنٹرول میں۔ ایک ترک سردار یاغی سیان یہاں کے گورنر تھے۔ وہ شام کے شہر الیپو کے سلجوق حکمران فخرالملک رضوان کے ماتحت تھے۔ انہوں نے صلیبیوں کے آگے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ صلیبیوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ یہ ایک ایسے خون آشام اور طویل معرکے کی شروعات تھی جس نے صلیبیوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ ہو سکتا ہے کروسیڈ یہی ناکام ہو جاتی لیکن ایسا کیا ہوا کہ کروسیڈز یہاں ناکم نہیں ہوئی اور اس محاصرے کی خاص بات تھی کیا؟ مائی کیوریس فیلوز انطاکیہ شہر کا دفاع بہت مضبوط تھا۔ یہ قلعہ نما شہر دو پہاڑیوں کے اوپر تعمیر کیا گیا تھا۔ شہر کی حفاظتی دیوار پہاڑ کی چوٹی تک جاتی تھی۔
سب سے اوپر شہر کا مرکزی قلعہ تھا جو باقی شہر سے ساڑھے سولہ سو فیٹ بلند تھا۔ اتنی بلندی سے شہر پر اور اسے کے گرد بیٹھے دشمنوں پر آسانی سے نظر رکھی جا سکتی تھی۔ شہر کے شمال مغرب میں ایک دریا بھی بہتا تھا جو بحیرہ روم یعنی میڈیٹرینین میں جا کر گرتا تھا۔ اس دریا کے راستے بھی شہر والوں کا بیرونی دنیا سے ایک رابطہ رہتا تھا۔ سو اپنی اسی بہترین اسٹریٹجک لوکیشن کی وجہ سے ترکوں نے محاصرہ کرنے والے صلیبیوں کی خوب خبر لی۔ دشمن جب بھی غافل ہوتا ترک سپاہی اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر شہر سے نکلتے اور قریب سے تیر برسا کر فرار ہو جاتے۔ اگر کوئی صلیبی سپاہی ان کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ اسے شہر میں لے جا کر اذیتیں دے کر مار ڈالتے اور اس کا سر کاٹ کر باہر صلیبی کیمپ میں پھینک دیتے۔ ویسٹرن ہسٹورینز کہتے ہیں کہ ترکوں نے شہر کے سب سے بڑے پادری کو بھی پکڑ لیا۔
وہ اسے روزانہ قلعے کی دیوار سے الٹا لٹکا کر اس کے تلووؤں پر لاٹھیاں برساتے تھے۔ یہ منظر دور کھڑے صلیبی دیکھتے تھے اور بدلے کی آگ میں جلتے رہتے تھے۔ اس دوران الیپو اور دمشق سے سلجوقوں کے دو لشکر بھی شہر کی مدد کیلئے آئے تاہم صلیبیوں نے انہیں مار بھگایا۔ اس کے بعد انہوں نے شہر کا محاصرہ مزید سخت کر دیا۔ صلیبیوں نے سمندر کے قریب ایک ترک قلعے پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس طرح دریا کے راستے انطاکیہ کا سمندر سے رابطہ کاٹ دیا گیا۔ دوسری طرف صلیبیوں کیلئے یہ ایک نئی سپلائی لائن کھل گئی اور انہیں سمندر سے سپلائیز ملنے لگیں۔ لیکن یہ مدد بھی ناکافی ثابت ہوئی اور صلیبی قلعہ فتح نہیں کر سکے۔ جب محاصرے کو کئی ماہ گزر گئے
اور فتح کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو صلیبی بھاگنے لگے۔ ان کے کمانڈر آپس میں لڑنے لگے۔ سمندری راستے سے سپلائیز ملنے کے باوجود لشکر میں خوراک کی بھی شدید قلت ہو گئی۔ بہت سے سپاہی بھوک اور بیماری سے دم توڑ گئے۔ ایک ہزار ستانوے کا موسمِ سرما تو خاص طور پر صلیبیوں پر قیامت بن کر گزرا۔ سردی میں چارے کی کمی سے ان کے جانور بھی مرنے لگے۔ ان حالات میں لشکر کے ساتھ موجود پادریوں نے اعلان کیا کہ لشکر پر یہ مصیبتیں اس وجہ سے آ رہی ہیں کیونکہ سپاہی گناہ کر رہے ہیں۔ چنانچہ صلیبی کیمپ میں موجود تمام خواتین کو مردوں سے الگ کر دیا گیا کہ جیسے گناہ تو صرف خواتین کی وجہ سے ہے۔ اس کے علاوہ سپاہیوں کو روزے رکھنے، خیرات کرنے اور دیگر عبادات کا بھی حکم دیا گیا۔ جو سپاہی کسی عورت کے ساتھ پکڑا جاتا تھا اسے اور خاتون کو برہنہ کر کے ان کے ہاتھ باندھ دیئے جاتے تھے۔ پھر انہیں لاٹھیوں سے پیٹتے ہوئے پورے کیمپ کا چکر لگوایا جاتا تھا۔ ہوتے ہوتے 1098 کا موسمِ گرما آ گیا لیکن نہ تو صلیبیوں نے محاصرہ ختم کیا نہ ترک ہتھیار ڈالنے پر تیار ہوئے۔