History of Crusades and Salahuddin Ayyubi صلیبی جنگوں کی تاریخ اور صلاح الدین ایوبی Part-4
دوستو جانے یہ محاصرہ کب تک چلتا رہتا کہ اچانک صلیبیوں کو انطاکیہ کے ایک غدار سے مدد مل گئی۔ یہ فیروز نامی ایک شخص تھا جس کے متعلق زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم ہسٹورینز کا اندازہ ہے کہ وہ ایک آرمینیائی مسیحی تھا جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ وہ شہر کے محافظوں میں بھی شامل تھا اور سیکیورٹی انتظامات کی تفصیلات سے اچھی طرح واقف تھا۔ کسی وجہ سے وہ شہر کے گورنر یاغی سیان کا دشمن ہو گیا تھا۔ اس نے بدلہ لینے کیلئے کسی طرح صلیبیوں سے رابطہ قائم کیا اور شہر پر قبضے کرانے میں مدد دینے کی پیشکش کی۔ بدلے میں صلیبیوں نے وعدہ کیا کہ وہ اسے مال و دولت دیں گے۔ یوں دونوں میں معاملات طے پا گئے۔ لیکن اس دوران صلیبیوں کو ایک خطرناک خبر ملی۔
خبر یہ تھی کہ موصل کے ترک حکمران کربوغا تقریباً پینتیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ انطاکیہ کے مسلمانوں کی مدد کیلئے آ رہے تھے۔ یہ خاصا بڑا لشکر تھا۔ اس سے پہلے دمشق اور الیپو سے جو لشکر آئے تھے انہیں صلیبیوں نے آسانی سے ہرا دیا تھا کیونکہ وہ چھوٹے لشکر تھے۔ لیکن یہ لشکر ان کی توقع سے بڑا تھا۔ پھر وہ صلیبی فوج جو طویل محاصرے سے بے حال تھی اس کیلئے اس تازدہ دم لشکر کا مقابلہ کرنا اور بھی مشکل تھا۔ ایسے میں اگر کربوغا کی فوج ان پر حملہ آور ہو جاتی اور شہر کے محافظ بھی باہر نکل آتے تو صلیبی لشکر دونوں فورسز میں پس جاتا۔ یہ صورتحال صلیبیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی تھی۔ سو انہیں ہر حال میں کربوغا کی آمد سے پہلے پہلے انطاکیہ فتح کرنا تھا۔ یہ ان کے لیے زندگی موت کا سوال بن چکا تھا۔ تو اب صلیبیوں نے فوری طور پر فیروز سے رابطہ کیا۔ فیروز نے انہیں دیوار کے ایک حصے کے متعلق بتا دیا جہاں سیکیورٹی کم تھی
یا اس دن کم ہونا تھی۔ دو اور تین جون کی درمیانی رات پچاس، ساٹھ صلیبیوں کا ایک گروہ سیڑھیوں اور رسیوں کی مدد سے دیوار کے اس حصے پر چڑھا۔ انہوں نے وہاں موجود گارڈز کو ختم کر کے شہر کا ایک دروازہ کھول دیا۔ اس کے ساتھ ہی صلیبیوں کا ایک بڑا دستہ جو پہلے ہی دروازے کے باہر کھڑا تھا وہ اندر داخل ہو گیا اور دیواروں پر صلیبی جھنڈے لہرانے لگے۔ جب ترکوں نے اپنے شہر کی دیواروں پر صلیبی پرچم لہراتے دیکھے تو وہ گھبرا کر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ اس دوران شہر میں رہنے والے آرمینیائی مسیحیوں نے بھی شہر کے باقی دروازے کھولنا شروع کر دیئے۔ جلد ہی پوری صلیبی فوج ان دروازوں سے شہر میں داخل ہو گئی۔ اس کے بعد قتلِ عام شروع ہو گیا۔ صلیبیوں نے عمر اور جنس کا لحاظ کئے
بغیر شہر کے مسلمانوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا کچھ جگہوں پر مسلمانوں نے مزاحمت کی مگر صلیبی جلد ہی ان پر حاوی ہو گئے۔ چونکہ یہ رات کا وقت تھا اس لئے کچھ مسیحی باشندے بھی مارے گئے شہر کی گلیاں لاشوں سے بھر گئیں۔ کہتے ہیں کہ ان گلیوں سے کوئی شخص بھی لاشوں پر قدم رکھے بغیر نہیں گزر سکتا تھا۔ اتنی زیادہ لاشیں تھیں۔ شہر کے گورنر یاغی سیان نے ایک گھوڑے پر سوار ہو کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ وہ شہر سے نکل بھی گئے لیکن کچھ دور جا کر وہ گھوڑے سے گر پڑے اور بیہوش ہو گئے۔ ان کے ساتھی انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے۔ کچھ دیر بعد ایک آرمینیائی قصاب کو یاغی سیان زخمی حالت میں مل گئے۔
اس نے ان کا سر قلم کیا اور اسے صلیبی سپاہیوں کو پیش کر دیا۔ یوں تقریباً آٹھ ماہ تک صلیبیوں کی مزاحمت کرنے والے یاغی سیان ایک المناک انجام سے دوچار ہوئے۔ تین جون کو انطاکیہ صلیبیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ صلیبیوں کی فتح کے محض ایک روز بعد چار جون کو کربوغا کی فوج شہر کے سامنے پہنچ چکی تھی۔ صرف ایک دن کے فرق سے مسلمانوں کی صلیبیوں پر یقینی فتح کا موقع ضائع ہو چکا تھا۔ کربوغا کے سامنے شہر نہیں شہرِ خموشاں تھا بلکہ شہر مرداں تھا جس کے باشندے ابدی نیند سو رہے تھے۔ کربوغا نے شہر کو گھیر لیا جس کے بعد اب صلیبی شہر کے اندر محصور ہو چکے تھے۔ دوستو صلیبیوں کے نزدیک انطاکیہ کی فتح کسی معجزے سے کم نہیں تھی۔ ان کے خیال میں قدرت نے ان کی مدد کی تھی اور فیروز کو وسیلہ بنا کر انہیں فتح سے ہمکنار کر دیا تھا۔
کئی سپاہیوں کو تو خوابوں، خیالوں میں مقدس ہستیاں دکھائی دینے لگیں جو انہیں فتح کی بشارتیں دے رہی تھیں۔ ایک پادری نے یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ اسے انطاکیہ میں وہ مقدس نیزہ ملا ہے جسے کرائسٹ کو مصلوب کئے جانے کے وقت ان کے جسم میں چبھویا گیا تھا۔ ان سب باتوں سے صلیبیوں کے حوصلے غیرمعمولی طور پر بلند ہو گئے۔ اٹھائیس جون کو انہوں نے شہر سے نکل کر ترک فوج پر اچانک حملہ کر دیا۔ مسلم لشکر کے بڑے حصے کو تو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ جبکہ کربوغا کے ساتھ زیادہ تر وہ فوجی تھے جن کی وفاداریاں مشکوک تھیں وہ بھاگ نکلے۔ یوں کربوغا کو بری طرح شکست ہو گئی۔ اس ہار کے بعد کربوغا فرار ہو کر واپس موصل چلے گئے۔ لیکن صلیبی اب واپس جانے والے نہیں تھے۔ وہ شام میں داخل ہو گئے اور ایک کے بعد ایک شہر فتح کرتے ہوئے بیت المقدس کی طرف بڑھنے لگے۔
راستے میں لبنان کے ایک مسلم شہر طرابلس نے صلیبیوں کے سامنے سرنڈر کر دیا۔ اس نام کا شہر لیبیا کا دارالحکومت بھی ہے لیکن یہاں ہم اس کی بات نہیں کر رہے۔ اس شہر کے حکمران نے تو صلیبیوں کو بیت المقدس کا راستہ دکھانے کیلئے ایک گائیڈ بھی ساتھ دیا۔ طرابلس کے علاوہ کچھ اور شہروں نے بھی سرنڈر کیا۔ کچھ پر بزورِ تلوار قبضہ کر لیا گیا۔ اس دوران مظالم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ شام کے شہر معرۃ النعمان میں تو بہت سے صلیبیوں نے اپنی بھوک مٹانے کیلئے مارے گئے مسلمانوں کا گوشت بھی کھایا۔ یہ اتنا شاکنگ واقعہ تھا کہ بڑے صلیبی لیڈرز بھی حیران رہ گئے۔ سو دوستو اسی سب کے ساتھ صلیبیوں کی پیش قدمی جاری رہی ان کی کامیابی کو کہیں بریک نہیں لگ رہی تھی۔
وہ ٹڈی دل کی طرح بیت المقدس کی طرف بڑھ رہے تھے جو کہ ان کا اصل ٹارگٹ تھا۔ لیکن تب تک ایک تبدیلی آ چکی تھی۔ سلجوقوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر مصر کی فاطمی خلافت نے بیت المقدس کو اپے قبضے میں لے لیا تھا۔ اب بیت المقدس کیلئے صلیبی لشکر کو سلجوقی ترکوں سے نہیں بلکہ مصری فاطمیوں سے لڑنا تھا۔ سو دوستو جب یہ صلیبی لشکر بیت المقدس کے باہر پہنچا تو اندر کے کن لوگوں نے انکی مدد کی؟ فاطمیوں نے صلیبی لشکر کو بیت المقدس سے دور رکھنے کے لیے کیا جنگی حکمت عملی اپنائی؟ کنوؤں میں زہر تھا اور صلیبیوں کے پاس پانی کی قلت تھی ایسے میں پھر بیت المقدس کا محاصرہ کیسے کیا گیا؟ یہ سب آپ کو دکھائیں گے لیکن ہسٹری آف کروسیڈز اینڈ صلاح الدین ایوبی کی اگلی قسط میں مائی کیوریس فیلوز آپ نے صلیبی جنگوں کی داستان کا آغاز دیکھا لیکن اگر آپ اسپین میں مسلمانوں اور صلیبیوں کے درمیان جنگ کی مکمل کہانی جاننا چاہتے ہیں مسلمانوں کا مکمل عروج و زوال دیکھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔ یہاں دیکھئے نپولین بوناپارٹ کے ساتھ واٹر لو میں کیا ہوا؟ اور یہاں جانئے حسین حقان ی کی رائے میں پاکستان کے مسائل کا حل کیا ہے؟