Who was Bruce Lee _ بروسلی
وزن تریسٹھ کلوگرام، قد پانچ فٹ سات انچ، پنچ کی طاقت ہیوی ویٹ چیمپئن دی گریٹ محمد علی کے برابر وہ ایک انچ کے فاصلے سے مکہ مارتا تھا اور تختہ توڑ دیتا تھا۔ وہ اپنے فن کا جادوگر تھا۔ وہ مارشل آرٹس کا مائیکل جیکسن تھا۔ اس نے صرف چار فلموں میں مرکزی کردار ادا کیا۔ لیکن اس کے بعد دنیا کی ہر فلم انڈسٹری کا ہر ایکشن ہیرو اس جیسا بننے کی خواہش لے کر سیٹ پر آیا۔ آج کے بڑے بڑے ایکشن ہیروز اس کی فلموں میں ایکسٹرا آیا کرتے تھے۔ وہ صرف بتیس سال جیا اور بھرپور جوانی میں اپنے سارے خواب پورے کر کے اچانک مر گیا۔
Who was Bruce Lee _ بروسلی
آخر اس ساڑھے پانچ فٹ کے انسان میں ایسا کیا تھا کہ چند برس کے کیرئیر میں وہ زمانے پر ایسی دھاک بٹھا گیا کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ہو جو بروسلی کو نہ جانتا ہو۔ میں ہوں فیصل وڑائچ اور دیکھو سنو جانو کی وہ کون تھا سیریز میں ہم آپ کو ہانگ کانگ کے جادوگر مارشل آرٹ کنگ کی کہانی دکھائیں گے۔ بروسلی کو عظمت یونہی نہیں ملی تھی، صرف ان دو باتوں سے اندازہ لگائیں کہ وہ کتنی جان توڑ محنت کرتا تھا۔
ایک یہ کہ وہ پریکٹس کے دوران مارشل آرٹس کا عام پنچنگ بیگ استعمال نہیں کرتا تھا بلکہ اس کا پنچنگ بیگ ہیوی ویٹ باکسرز کے بیگز سے بھی ہیوی ہوتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ باکسنگ چیمپئن محمد علی کلے سے وزن میں بھلے آدھا تھا, لیکن اس کے گھونسے میں طاقت محمدعلی کے پنچ کے برابر ہی تھی۔ دوسری بات یہ کہ وہ ایک ہاتھ کے ایک انگوٹھا اور ایک انگلی کو استعمال کرتے ہوئے پش اپس لگایا کرتا تھا۔ وہ مارشل آرٹس ماسٹر تھا، ہانگ کانگ کا سٹریٹ فائٹر تھا۔ لیکن اس نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا تھا کہ وہ ہالی ووڈ کا سپر ہٹ فنکار بنے گا
اور ایسا فنکار جس کا معاوضہ سب سے زیادہ ہو گا۔ یہ اس کی تمنا تھی اور یہ خواہش اسے ورثے میں ملی تھی۔ کہتے ہیں بچے والدین کی نصیحت پر عمل نہیں کرتے بلکہ انھیں دیکھ کر اپنی عادتیں بناتے ہیں اور شوق پالتے ہیں۔ تو بروسلی کے والد ایک اداکار تھے۔ جو امریکی شہر سان فرانسسکو اداکاری کا خواب پورا کرنے ہی کے لیے آئے تھے۔ لیکن ساری تگ و دو کے باوجود وہ ایک اوسط درجے کے اسٹیج ایکٹر سے زیادہ ترقی نہ کر سکے۔ انیس سو چالیس میں بروسلی کی پیدائش سے صرف تین ماہ بعد وہ سان فرانسسکو کا چائنہ ٹاؤن چھوڑ کر ہانگ کانگ واپس آ گئے۔ لیکن ہانگ کانگ میں بھی اس کا باپ کوئی نام پیدا نہیں کر سکا تھا۔
مگر ہاں باپ کا یہ شوق جلد ہی بروسلی کے دل و دماغ میں سرایت کر گیا۔ وہ اکثر اپنے والد کے ساتھ سیٹ پر چلا جاتا۔ اس جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف چھے سال کی عمر میں بروسلی نے ایک فلم میں اداکاری بھی کر لی۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا اور اٹھارہ سال کی عمر تک وہ تقریباً بیس چائنیز فلموں میں اپنے جوہر دکھا چکا تھا۔ وہ صرف اداکاری ہی نہیں کر رہا تھا بلکہ وہ ڈانس کا بھی رسیا تھا۔ اس نے ہانگ کانگ کے مشہور ڈانس کمپیٹیشن، ’ہانگ کانگ چاچا چیمپئن‘ میں حصہ لیا اور چیمپن بنا بھی۔ بروسلی چھوٹی چھوٹی کامیابیاں سمیٹ رہا تھا لیکن اس کا باپ مطمئن نہیں تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اس وقت کا ہانگ کانگ آج کے ہانگ کانگ کی طرح ترقی یافتہ نہیں تھا۔ دوسری جنگ عظیم ابھی کچھ ہی دیر پہلے ختم ہوئی تھی جس کی تباہ کاریوں نے شہر کا بھرکس نکال دیا تھا۔ غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے چور بازاری اور دنگا فساد معمول کی بات تھی۔
گلیوں میں غنڈوں اور بدمعاشوں کے گینگز گھومتے اور ایک دوسرے سے لڑتے بھڑتے رہتے تھے۔ شاید اسی لیے مارشل آرٹس وہاں کا مقبول ترین کھیل، شوق اور کسی حد تک نوجوانوں کی ضرورت بھی تھا۔ اسے فخر کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ بروسلی بھی اسی سماج کا حصہ تھا، اس کی بھی آئے راز سر پھٹول ہوتی رہتی۔ اسی لیے اس کے والد نے بروسلی کو مارشل آرٹس سکھانے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے اسے ایک ماسٹر کے پاس بھیجا جس کا نام تھا ’اِپ مان‘ یہ مارشل آرٹس کی تکنیک ’ونگ چینگ‘ کا ماہر تھا۔ بروسلی نے مارشل آرٹس کے اولین داؤ پیچ اور باریکیاں اسی سے سیکھی تھیں۔ اِپ مان کے علاوہ ’وونگ شنگ لینگ‘ بھی بروسلی کا استاد تھے۔ ٹرینگ کے ساتھ اب بروسلی کی مہارت بڑھ رہی تھی اور ساتھ میں جھگڑوں کی تعداد بھی۔
کئی بار معاملہ پولیس تک پہنچا۔ ایک بار تو پولیس نے بروسلی کے باپ کو آخری وارننگ دی کہ اب اگر دوبارہ بروسلی کی لڑائی ہوئی تو ہم اس کو گرفتار کر لیں گے۔ بروسلی کے والدین اس موقعے پر واقعی پریشان ہوگئے۔ ان کے خیال میں وہ اپنے بیٹے کو مارشل آرٹس لڑائی کے لیے نہیں، کھیل اور بچاؤ کے لیے سکھا رہے تھے۔ اس لیے انھوں نے سوچا کہ بروسلی کو دنگے فساد کے ماحول سے دور بھیج دینا چاہیے۔ سو انھوں نے بروسلی کو امریکہ میں اپنے ایک عزیز کے پاس ’سیاٹل‘ بھیج دیا، جہاں اس کا ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا۔ بروسلی دن میں تعلیم حاصل کرتا اور شام کو اسی ہوٹل میں کام کرتا۔ وہ امریکہ میں فلسفے اور آرٹ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا تھا لیکن اس کے کلاس فیلوز اس کی تعلیمی قابلیت سے زیادہ اس کے مارشل آرٹس سے متاثر ہوتے۔ چائینیز ’کنگ فو‘ ویسے بھی دنیا بھر میں مقبول تھا۔ تو بہت سے امریکی بروسلی سے ’کنگ فو‘ سیکھانے کی فرمائش کرنے لگے۔ بروسلی اب اتنا سمجھدا ہو چکا تھا
کہ اُس نے اِس آفر کو بزنس میں بدل لیا۔ اس نے تعلیمی اداروں میں کنگ فو سکھانا شروع کر دیا۔ اور ایک ایسے ہی ادارے میں اسے ایک لڑکی ملی۔ یہ لڑکی تھی لنڈا ایمرے۔ لنڈا کو بروسلی اور بروسلی کو لنڈا اتنے پسند آئے کہ دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن راستے میں ظالم سماج حائل ہوگیا۔ وہ یوں کہ لنڈا امریکی تھی اور بروسلی چائنیز۔ چینی والدین امریکہ میں اور امریکی خاندان چینیوں میں رشتہ جوڑنا باپسند کرتے تھے۔ لیکن محبت رسم رواج کہاں دیکھتی ہے، بروسلی اور لنڈا نے کورٹ میرج کر لی، چھپ کر چپ چاپ اور سمجھے کہ کسی کو پتا نہیں چلا۔ لیکن اصل میں کچھ ہی دن بعد سب کو پتا چل چکا تھا۔
وہ یوں کہ قانون کے مطابق جب بھی کوئی کورٹ سے میرج سرٹیفکیٹ لیتا ہے تو عدالت اسے سرٹیفکیٹ دینے سے پہلے ایک دن یہ خبر اخبار میں بھی چھپواتی ہے۔ یہ بات ان دونوں کو نہیں معلوم تھی۔ اس لیے جب انھوں نے میرج سرٹیفکیٹ لیا تو بھانڈا پھوٹ گیا۔ ان کی خفیہ شادی کی خبر اخباروں میں اشتہار کی صورت چھپ چکی تھی۔ اور سارا جہان پڑھ چکا تھا۔ جیسے یہ خبر سب تک پہنچی ویسے ہی لنڈا کے گھر والوں تک بھی پہنچ گئی۔ وہ سخت ناراض ہوئے لیکن اب اس رشتے کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، سو انھوں نے قبول کر لیا۔ لیکن بروسلی کے گھر والے زیادہ ناراض تھے۔ سو وہ چند مہینوں بعد مانے۔ لیکن اب گھر والوں سے کہیں زیادہ اس کے ہم وطن اس سے ناراض ہو گئے۔ مگر ان کی نارضی کی وجہ اس کی شادی نہیں تھی بلکہ ’کنگ فو‘ کی تربیت تھی۔
ہوا یہ کہ بروسلی نے کیلیفورنیا کے شہر آکلینڈ میں بھی کنگ فو کی تربیت دینا شروع کر دی۔ یہاں بہت سے چائنیز رہتے تھے اور وہ اس بات کو بہت برا خیال کرتے تھے کہ ایک چائنیز آرٹ، یعنی کنگ فو، چیائنیز کے علاوہ کسی دوسری قوم کو سکھایا جائے۔ کیونکہ یہ بہت خفیہ ٹیکنیک تھی اور اس کی حفاظت چائنیز کئی صدیوں سے کر رہے تھے۔ انھوں نے بروسلی کو یہ آرٹ سکھانے سے روکنا چاہا، لیکن بروسلی نہیں مانا۔ جس کے جواب میں اسے چینی روایت کے مطابق چیلنج کر دیا گیا۔ اعتراض کرنے والوں نے بروس لی کو چیلنج دیا کہ تم ہمارے سب سے بڑے کنگ فو ماسٹر ’وونگ جیک مین‘ سے مقابلہ کرو۔ اگر تم جیت گئے تو بھلے کنگ فو سکھاتے پھرنا، لیکن اگر ہار گئے تو سب استادی شاگردی بند۔ بروسلی کے لیے تو یہ کھیل تھا، وہ لمحوں میں مان گیا۔ مقابلہ شروع ہوا، بروسلی نے تین منٹ میں اپنے مد مقابل کو پچھاڑ دیا۔ وہ جیت تو گیا لیکن اس فتح پر وہ خوش نہیں تھا، بلکہ کچھ مایوس تھا، پریشان سا تھا۔
اس کے سٹینڈرز بہت ہائی تھے۔ وہ خود کو معاف نہیں کر پا رہا تھا کیونکہ اس کے خیال میں اسے یہ مقابلہ چند سیکنڈ میں جیت لینا چاہیے تھا، ایک سو اسی سیکنڈ تک مقابلہ چلنا اس کی نظر میں کمزوری تھی۔ اپنے خیال کو اس نے عمل کے قالب میں ڈھالا۔ اس نے اس جیت سے وہ سبق سیکھا جو عام طور پر لوگ ہار سے بھی نہیں سیکھتے۔ اس نے خود کو پرفیکٹ کرنے کے لیے مزید محنت شروع کر دی۔ کہتے ہیں کہ دو ہزار مکے، ایک ہزار ککس، آٹھ کلومیٹر کی دوڑ اور چوبیس کلومیٹر کی سائیکلنگ اس کی ڈیلی روٹین تھی۔ بروسلی کی بیوی کے مطابق وہ جنونی ہو گیا
تھا۔ V اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے کھاتے پیتے ہیں وہ ہر وقت جسمانی مشقت میں لگا رہتا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اپنی بیوی کو بھی کوئی چیز تھما کر کھڑا کر دیتا کہ ذرا یہیں رکو مجھے ایک خاص اینگل سے ایک خاص داؤ آزمانا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اتن ا حیرت انگیز نہیں تھا جتنا حیرت انگیز اس کا ون انچ پنچ تھا۔ یہ ون انچ پنچ کیا تھا؟ امریکہ میں لونگ بیچ کراٹے ٹورنامنٹ ہوتا تھا- انیس سو چونسٹھ میں بروسلی نے پہلی بار وہاں جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ یہاں جس چیز سے لوگ دھنگ رہ گئے وہ اس کی دو ناقابل یقین مہارتیں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ دو انگلیوں سے پش اپس لگاتا تھا۔ دوسری چیز ون انچ پنچ تھی۔ بروسلی صرف ایک انچ کے فاصلے سے پنچ مارتا اور ایک اچھا بھلا، تندرست انسان دور جا گرتا۔
اسی طرح وہ صرف ایک انچ کے فاصلے سے مکہ مار کے لکڑی کا تختہ توڑ دیتا تھا۔ یہ ون انچ پنچ بروسلی کی ایجاد تھی اور نہایت ہی حیرت انگیز تھی۔ کیونکہ بظاہر ایک انچ کے فاصلے سے اتنی قوت جمع نہیں جا سکتی۔ فزکس اور ایناٹومی کے ماہرین آج بھی اس کی ایکسپیلنیشنز دے رہے ہیں کہ بروسلی کیسے ایک انچ سے اتنا طاقتور پنچ مار لیا کرتا تھا۔ دراصل وہ پورے جسم سے طاقت جمع کرتا تھا، جس کا آغاز اس کے پاؤں سے ہوتا تھا۔
اور پھر یہ ساری توانائی پریکٹس سے اپنے ہاتھ میں لے آتا۔ ون انچ پنچ کو مارشل آرٹس کی سب سے حیران کن موو کہا جاتا ہے۔ اس وقت بروسلی صرف چوبیس سال کا تھا لیکن اس سے ون انچ پنچ جیسی حیران کن مووز سیکھنے کے لیے ایک دنیا بے تاب ہو چکی تھی۔ مارشل آرٹس کا یہ بے تاج بادشاہ، اپنے کھیل کا اتنا بڑا ماسٹر تھا کہ مارشل آرٹس کے چیمپنز تک بروسلی کے باقاعدہ شاگرد تھے یا وہ اس کے ساتھ ٹریننگ کرتے ہوئے اس سے سیکھتے رہے تھے۔ ان میں سے تین ایکسپرٹ تھے۔ جو لیوئس، چک نورس اور مائیک سٹون۔ بروسلی مارشل آرٹس کی جس فیلڈ کا ماہر تھا اسے ’وِنگ چینگ‘ کہتے تھے۔ کہا جاتا ہے بروس لی نے بےشمار کتابوں اور اپنے تجربات سے ایک نئی مَارشل آرٹس تکنیک نکالی تھی جسے وہ ’جیت کونڈو‘ کہتا تھا۔
اس نئی فیلڈ میں بروس لی نے ریسلنگ، فینسنگ، باکسنگ اور دوسرے بہت سے آرٹس کو اکٹھا کر دیا تھا۔ اور اس نے اپنے تین شاگردوں کو یہ آرٹ سکھانے کی اجازت بھی دی تھی۔ ایسے ہی دوستوں کو فن سکھاتے اور سیکھتے بروسلی کی منزل قریب آ رہی تھی۔ انیس سو پینسٹھ میں اسے ہالی ووڈ کے لیجنڈری ٹونٹیتھ سنچری فوکس سٹوڈیو کی طرف سے کال آئی۔ یہ کال ایڈیشن کے لیے تھی۔ اصل میں ہوا یہ کہ جب لانگ بیچ کراٹے ٹورنامنٹ ہو رہا تھا تو ایک شخص جو ٹونٹیتھ سنچری فوکس سٹوڈیو میں ہیئر ڈریسر تھا وہ بھی وہیں موجود تھا۔ وہ بروسلی کی جادوگری سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے فوکس سٹوڈیو میں اس کے بارے میں بہت باتیں کیں۔ جس سے متاثر ہو کر ایک پروڈیوسر ڈوزئیر نے بروسلی کو آڈیشن کے لیے بلا لیا۔ بدقسمتی سے اس اوڈیشن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، کیونکہ جس سیریز کے لیے اسے بلایا گیا تھا وہ ابھی بہت لیٹ تھی۔
ہاں اتنا ضرور ہوا کہ بروسلی کا چند بڑے پروڈیوسرز اور ایک دو ہالی ووڈ سٹوڈیوز میں ہلکا سا تعارف پھیل گیا۔ جس کا پہلا فائدہ آئندہ سال سامنے آیا۔ ایک سال بعد ایک ٹی وی سیریز ’دی گرین ہارنٹ‘ کے نام سے آ رہی تھی جس میں بروس لی کو سائیڈ ہیرو کا رول مل گیا۔ اس میں بروس لی کے کردار کا نام کیٹو تھا۔ اس دوران دو ایسے مسئلے سامنے آئے جو بروسلی کا کیریئر شروع میں ہی ختم کر سکتے تھے۔ اور دونوں مسئلے بہت دلچسپ اور حیران کن تھے۔ ایک تو یہ تھا کہ بروسلی کی فلم کیمروں سے نہیں بن پا رہی تھی۔ اور بنتی بھی کیسے کہ وہ کیمرے انسانوں کو شوٹ کرنے کے لیے بنے تھے اور بروسلی ٹھہرا ایک چھلاوہ۔
اس کے ایکشن اتنے تیز ہوتے تھے کہ کیمرہ اُن کو فوکس نہیں کر پاتا تھا۔ اس لیے اس کے ایکشنز دھندلے یعنی بلر ریکارڈ ہوتے تھے۔ یہ مسئلہ ڈائریکٹرز کے لیے دردسر تھا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ بروس لی سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنے ایکشنز ذرا کم رفتار سے انجام دیے، مثلا پنچ اور کک کی رفتار تھوڑی کم رکھے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بروسلی کے پنچ اور ککس کی اصل رفتار اس کے فلمی ایکشنز سے کہیں زیادہ تھی۔ دوسرا مسئلہ اس سے زیادہ پریشان کن ثابت ہوا۔ ہوا یوں کہ اسی دوران بروسلی کی ایک دوسرے کریکٹر ’روبن‘ س ے لڑائی ہونا تھی اور سکرپٹ کے مطابق بروسلی کو یہ فائٹ ہارنا تھا۔ بروسلی کو یہ بات کسی طور قبول نہیں تھی کہ وہ ہار جائے، بھلے یہ فلم ہی ہو۔ اس نے یہ سین فلمانے سے انکار کر دیا۔ بلکہ الٹا اس نے روبن کو اصلی لڑائی کا چیلنج بھی دے ڈالا۔ پروڈیوسرز نے بروسلی کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ سکرپٹ کے مطابق چلے لیکن بروسلی جس کے ہالی ووڈ کیرئیر کا ابھی آغاز ہی تھا وہ نہیں مانا۔
آخر کار سکرپٹ کو بدلا گیا اور یہ لڑائی ڈرا پر ختم ہوئی۔ اس سیریز میں بروسلی کے ساتھی اداکار بتاتے ہیں کہ روبن، بروسلی سے حقیقت میں بھی گھبرایا ہوا تھا۔ وہ لڑائی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اس سیریز کی سب سے اہم بات جانتے ہیں کیا تھی۔ وہ یہ کہ یہ سیریز ایک فلاپ سیریز تھی۔ امریکیوں کو پسند نہیں آئی یہ۔ اسی لیے ایک ہی سیزن کے بعد اسے ختم کر دیا گیا۔ بروسلی جسے اپنے خواب کی پہلی جھلک نظر آئی تھی ایک بار پھر بے روزگار ہو گیا۔ بیروزگاری تو ہو گیا لیکن پھر بھی اس کے پاس اب ایک سیریز کا تجربہ تھا، بھلے ناکام ہی سہی لیکن تجربہ تو تھا
اور یہ ثبوت بھی کہ وہ ایک اچھا ایکشن ایکٹر ہے۔ اسی بنیاد پر اس نے نئی فلموں میں ہیرو آنے کیلئے کوشش جاری رکھی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس دور میں ہالی ووڈ کی پروڈکشنز میں کسی ایشین کو سنٹرل رول نہیں ملتا تھا۔ اور اس کی سیدھی سی وجہ تھی ریٹنگ۔ یہاں تک کہ اس وقت ہالی ووڈ نے ایک فلم میں چنگیز خان کا کردار بھی کسی منگول یا چینی اداکار سے نہیں، ایک امریکی سے ہی کروایا تھا۔ تو بروسلی کے لیے دروازے تقریباً بند ہو چکے تھے۔ اور تو اور فلم کے شوق میں اس نے اپنے وہ اسکولز بھی بند کر دئیے جہاں وہ مارشل آرٹس یا کنگ فو سکھایا کرتا تھا۔M
اب مارشل آرٹس کے اس بے تاج بادشاہ کے پاس نہ تو کوئی کام تھا اور نہ جیب میں پیسے۔ حالانکہ اب اس کی ضرورتیں بہت بڑھ چکیں تھیں۔ لنڈا سے اس کے دو بچے ہو چکے تھے، ایک بیٹا برینڈن لی اور چھوٹی بیٹی شین لی۔ ایسے میں اسے ایک سیانے دوست نے مشورہ دیا کہ اگر تم ہالی ووڈ سٹارز کو ٹریننگ دینا شروع کر دو تو کام بن سکتا ہے۔ بروس لی اس وقت تک مارشل آرٹس میں اپنی دھاک بٹھا چکا تھا۔ سو اس نے اسٹارز کی کوچنگ شروع کر دی۔ جیمز کوبرن، سٹیو مک۔وین انھی اداکاروں میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ اسی دوران اس سے اسپورٹس اسٹارز بھی کوچنگ لینے لگے جن میں ایک بڑا نام باسکٹ بال کے سات فٹ لمبے کھلاڑی کریم عبدالجبار کا بھی ہے۔ زندگی کے چار سال مزید گزر گئے۔
و ہ انتیس سال کا ہو چکا تھا۔ اور اسی دوران اسے زندگی کا سب سے بڑا دھچکا لگا۔ وہ صبح کے وقت ایکسر سائز کر رہا تھا، کہتے ہیں اس نے ورم اپ کیے بغیر وزنی باربیل اٹھایا تو کمر کا ایک مہرہ دب گیا۔ جس کی وجہ سے وہ کسی بھی جسمانی مشقت سے معذور ہو گیا۔ ڈاکٹرز نے اسے کہہ دیا کہ اب تم کبھی مارشل آرٹس کی پرفارمنس نہیں دے پاؤ گے۔ لیکن بروسلی نے ڈاکٹرز کی پیش گوئی ایک کان سے سنی اور دوسرے سے نکال دی۔ اس نے کچھ دن آرام کیا اور پھر ہر احتیاط بالائے طاق رکھتے ہوئے، بھرپور ایکسرسائز شروع کر دی جیسے وہ پہلے کیا کرتا تھا۔ .کمر کی تکلیف کے ساتھ یہ مشقت آسان نہیں تھی۔ اسی لیے یہ چند ماہ بروسلی پر بہت سخت گزرے۔ تاہم بروسلی پر بھی جنون سوار تھا اس نے بھی جسمانی مشقت کی انتہا کر دی۔
کہتے ہیں کہ بروس لی انسانی جسم کی انتہا ہی دیکھنا چاہتا تھا۔ اور پھر حیران کن طور پر چند ہی ہفتوں میں وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا۔ بلکہ مارشل آرٹس کے ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بروس لی کی کارکردگی اس کی بیماری کے بعد پہلے سے کہیں بہتر ہو گئی تھی۔ کارکردگی بہتر ہو گئی لیکن ہالی ووڈ میں اسے اچھا کام نہیں مل رہا تھا۔ وہ محض فائٹ انسٹرکٹر کے طور پر ہی جگہ بنا پا رہا تھا۔ مگر ایسے میں بروسلی کے ایک فیصلے نے اسے سپر ہٹ بنا دیا۔ بروسلی وہیں سے سٹار بنا جو اس کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔
پھر وہ دن بھی آیا جب اس نے اپنے ایک ساتھ فنکار کو راہ چلتے کہا شاید اب بروسلی نہ رہے۔ اس نے ایسا کیوں کہا؟ اس کی موت ایک پراسرار اور متنازعہ کہانی تھی جس پر آج بھی سوالات کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ بروسلی کی بائیوگرافی کا اگلا حصہ دیکھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کون تھا جسے دنیا فاشٹ کے نام سے جانتی ہے اور ہٹلر کس کو اپنا گرو مانتا تھا تو یہاں ٹچ کیجئے۔ اور کائنات کے عظیم راز اس وڈیو میں آپ کو نظر آئیں گے۔