Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-17

لیکن یہاں اسے ایسی عبرتناک شکست ہوئی کہ منگول لشکر سر پر پاؤں رکھ کر میدان جنگ سے بھاگ گیا۔ یہ مسلمانوں کے ہاتھوں چنگیز خان کے کسی بھی لشکر کی پہلی ہار تھی۔ اس لڑائی میں بہت سے منگول فوجی قیدی بھی بنائے گئے تھے۔ ان قیدیوں سے جلال الدین کی فوج نے گن گن کر بدلے لیے۔ کئی منگولوں کے کانوں میں کیل ٹھونک دئیے گئے۔ بہت سوں کو غصے میں بھرے شہریوں کے غول کے حوالے کر دیا گیا۔ شہریوں نے منگول قیدیوں کے ٹکڑے اڑا دئیے، کسی کو گھسیٹ گھسیٹ کر مار ڈالا اور کسی کو پیٹ پیٹ کر موت دے دی۔ جلال الدین خوارزم، جو اپنی سلطنت، اپنے باپ اور خواتین کا انجام انھی منگولوں کے ہاتھوں دیکھ چکا تھا اب انھیں بے بسی کی موت مرتا دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-17

یہاں تک کہ اس نے کئی قیدیوں کے سر اپنے ہاتھوں سے قلم کیے۔ اب ٹیبلز ٹرن ہو چکے تھے۔ منگول سپاہیوں کو وہ موت نصیب ہو رہی تھی جو وہ دوسروں کو دیا کرتے تھے۔ منگولوں کی شکست اور ان کے قیدیوں کے قتل عام نے ان کے ناقابلِ شکست ہونے کا بھرم بھی توڑ دیا تھا۔ اور پوری اسلامی دنیا میں ان کے خلاف ایک نیا جوش اور فتح کی امید بھر گئی۔ افغانستان سے ایران اور سینڑل ایشیا تک مسلمانوں نے منگولوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے تھے۔ جن جن شہروں میں منگول گورنر اور سپاہی تعینات تھے وہاں وہاں ان کے خلاف بغاوتیں ہونے لگیں اور کئی جگہوں پر انھیں قتل کیا جانے لگا۔ غرض کہ خوارزمی سلطنت میں چنگیز خان کے خلاف جنگ آزادی شروع ہو گئی۔ اس پر مزید یہ کہ یہ کہ چنگیز خان کے اپنے علاقے منگولیا سے بھی بغاوت کی خبریں آنے لگیں تھی۔ اب چنگیز خان کے براہ راست لیڈ کرنے قیادت کرنے کا وقت تھا۔ اس نے وقت ضائع کرنے کے بجائے فوری انتقام لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ چند دنوں میں انتقام سے کھولتا لشکر لے کر جلال الدین خوارزم شاہ سے مقابلے کے لیے روانہ ہو گیا۔

یہ تعاقب اتنا تیز رفتار تھا کہ منگول لشکر کو اڑتالیس گھنٹے میں کھانے کیلئے صرف ایک بار رکنے کی اجازت ملتی تھی۔ یوں چنگیز خان چند ہی روز میں جلال الدین کے قریب پہنچ گیا۔ لیکن جلال الدین کی فوج جنگ سے پہلے ہی کمزور ہو چکی تھی۔ پروان کی فتح کے بعد اس کے دو جرنیلوں تیمور ملک اور ایک دوسرے سردار میں مال غنیمت کی تقسیم پر جھگڑا ہو گیا تھا۔ جب جلال الدین نے اس جھگڑے میں تیمور ملک کی حمایت کی تو دوسرا جرنیل سردار اپنے تیس ہزار ساتھیوں کو لے کر ان کا ساتھ چھوڑ گیا۔ اب جلال الدین کے پاس پہلے سے کم فوج رہ گئی تھی۔ وہ منگولوں سے بچنے کیلئے افغانستان کے راستے موجودہ پاکستانی صوبے خیبرپختونخوا میں داخل ہوا۔ وہ ہوتے ہوتے کالا باغ کے مقام تک آن پہنچا۔ یہاں اس کی فوج دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کھڑی دریا پار کرنے کی تیاری کر رہی تھی۔ کہ چنگیز خان نے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسے آ لیا۔

اب جلال الدین کے پاس مقابلے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نے فوری طور پر اپنی کشتیاں جلا ڈالی تاکہ اس کے سپاہی بھاگنے کی کوشش نہ کریں۔ پھر اس نے اپنے پاس موجود سونا، چاندی اور ہیرے جواہرات بھی دریائے سندھ میں پھینک دیئے۔ اس کے بعد وہ خود تلوار لے کر میدان میں کود پڑا۔ دوپہر تک دونوں فوجوں میں گھمسان کا رن پڑا۔ جلال الدین کے ساتھی ایک ایک کر کے قربان ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ اس کا وفادار جنرل تیمور ملک بھی جان کی بازی ہار گیا۔ جب جلال الدین نے اپنے لشکر کو ہارتے دیکھا اور بچاؤ کی کوئی صورت بھی سامنے نہیں تھی۔ تو وہ اپنے گھوڑے کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے ایک چٹان پر چڑھ گیا۔ پھر اس نے ساٹھ فٹ، سکسٹی فیٹ کی بلندی سے دریا میں چھلانگ لگا دی۔

دریا کے تیز بہاؤ نے جلال الدین کو اپنے ساتھ بہانا شروع کر دیا۔ جلال الدین باہر نکلنے کیلئے بری طرح ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ چنگیز خان دریا کے اونچے کنارے پر کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس کے تیرانداز جلال الدین کو موت کی نیند سلانے کے لیے نشانہ لے رہے تھے۔ وہ کمانوں میں تیر کھینچ چکے تھے۔ لیکن چنگیز خان نے ہاتھ کھڑا کر کے انھیں روک دیا۔ اس نے جلال الدین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ایسے بہادر بیٹے کا حق تھا کہ اسے زیادہ شاندار باپ ملتا۔ تیراندازوں نے کمانیں جھکا لیں اور جلال الدین گھوڑے سمیت دریا پار کر گیا۔ دریا سے نکل کر اس نے دہلی کے سلطان التتمش سے رابطہ کیا۔ اور چنگیز خان کے خلاف مدد مانگی۔ مگر التتمش پر چنگیز خان کا اتنا خوف طاری تھا کہ اس نے جلال الدین کی مدد سے انکار کر دیا۔ ادھر چنگیز خان نے خود تو دریائے سندھ پار نہیں کیا

مگر جلال الدین کی تلاش کیلئے اپنی فوج آگے بھیج دی۔ منگولوں نے پنجاب سے سندھ تک قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔ منگولوں نے ملتان کا بھی محاصرہ کیا، لیکن اف یہ ملتان کی گرمی۔۔۔ ہر طرح کے موسم کا مقابلہ کرنےو الے منگول ملتان کی گرمی سے گھبرا گئے۔ انھوں نے محاصرہ اٹھایا اور واپس لوٹ گئے۔ چنگیز خان ہندوستان سے گزر کر چین جانا چاہتا تھا۔ لیکن خوارزم میں بغاوت کی وجہ سے وہ اپنا ارادہ ترک کر کے سینٹرل ایشیا واپس چلا گیا۔ جلال الدین، منگول فوج کی پنجاب اور سندھ میں موجودگی کے دوران مختلف جگہوں پر روپوش رہا اور اس کی کئی مقامی قبیلوں سے لڑائیاں بھی ہوئیں اور ایک بار اس کا بازو بھی زخمی ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک کھوکھر سردار کی بیٹی سے شادی کی تھی۔

چنگیز خان کی واپسی کے باوجود جلال الدین دو برس لاہور میں چھپا رہا۔ جب اسے پوری طرح یقین ہو گیا کہ چنگیز خان ہندوستان واپس نہیں آ رہا تو وہ سندھ پہنچا اور ایک بحری جہاز میں بیٹھ کر ایران چلا گیا۔ وہ مرتے دم تک منگولوں کے خلاف جدوجہد کرتا رہا مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ منگولوں کے علاوہ بغداد کا خلیفہ اور کئی دوسرے مسلمان حکمران بھی جلال الدین کے خلاف ہو رہے تھے۔ کیونکہ جلال الدین خوارزم شاہ اپنے باپ کی کھوئی ہوئی سلطنت کو واپس حاصل کرنے کے لیے منگولوں سے لڑ رہا تھا۔ اور اس عمل کو باقی مسلمان حکمران اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے تھے۔ بارہ سو اکتیس میں مسلمانوں کے اس گمنام ہیرو کو ترک علاقے ’دیاربکر‘ کے قریب منگولوں سے آخری شکست ہوئی۔ اس شکست کے بعد وہ ایک بار پھر دربدر پھرنے لگا۔

Read More How did Pakistan become captive of the Deep State and the USA?? پاکستان ڈیپ سٹیٹ اور امریکہ کا اسیر کیسے ہوا؟

Similar Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *