Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-11

تو جب تیروں کی بارش ہو رہی ہوتی منگولوں کے گھڑسوار دستے پہاڑوں کے پیچھے سے گھوم کر دشمن کی گھڑسوار فوج پر عقب سے حملہ کر دیتے۔ اس سے چینی گھڑسوار فوج گھیرے میں آ کر ماری جاتی۔ میدان میں مقابلے کی طرح، چنگیز خان نے اب قلعے فتح کرنے کی بھی ایک زبردست ترکیب ڈھونڈ نکالی تھی۔ اس کے سپاہی پہلے کسی چینی قلعے کا محاصرہ کر لیتے۔ کچھ عرصے بعد وہ اپنا کھانے پینے کا سامان وہاں چھوڑ کر پسپا ہونے کی اداکاری کرتے۔ چینی سپاہی منگولوں کو بھاگتے دیکھ کر شہر کے دروازے کھول کر منگولوں کا چھوڑا ہوا سامان اٹھانے یا ان کے تعاقب کرنے کیلئے باہر نکل آتے۔

Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-11

منگول فوج اس کے لیے پہلے سے تیار ہوتی تھی سو ان کے چھپے ہوئے دستے اور ن کی بھاگنے والی فوج پلٹ کر حملہ کر دیتی۔ اس ترکیب سے چینیوں کو قلعے کا دروازہ تک بندھ کرنے کی مہلت نہیں ملتی تھی۔ اور منگول قلعوں پر قلعے فتح کرتے چلے جاتے تھے۔ لیکن ٹھہرئیے۔۔۔ یہاں آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہونا چاہیے کہ چین نے تو ایک عظیم دیوار، دیوار چین بنا رکھی تھی۔ اور اس دیوار کا اہم ترین مقصد ہی یہ تھا کہ وہ حملہ آورروں کو روکے۔ تو پھر چنگیز خان نے یہ رکاوٹ کیسے پار کی؟ دراصل تاریخ میں اس کے بارے میں دو ورژنز ہیں۔ ایک یہ ہے کہ چنگیز خان نے دیوارِ چین کو بائی پاس کیا تھا۔ یعنی دیوار سے ہٹ کر ایک اور راستہ تلاش کیا تھا۔

یہ بھی مشہور ہے کہ چن سلطنت کی جو فوج چنگیز خان سے لڑنے آئی تھی وہ ایک کرائے کی فوج تھی۔ اور اسی لیے چنگیز خان نے انھیں آسانی سے اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اور بھی کچھ مفروضے اس بارے میں لکھے گئے ہیں۔ مگر تاریخ کا ایک دوسرا مضبوط ورژن بھی ہے جو ذرا زیادہ ریشنل لوجیکل لگتا ہے۔ وہ یہ کہ چنگیز خان کے دور میں دیوارِ چین اتنی بڑی تھی ہی نہیں کہ اسے کراس کرنا ناممکن ہو اور اسے بائی پاس ہی کرنا پڑے۔ اس لئے چنگیز خان تھوڑی سی حکمت عملی کے ساتھ دیوار چین پار کر گیا تھا۔

پھر قلعوں پر قلعے فتح کرتا ہوا چن سلطنت کے مرکز یعنی موجودہ بیجنگ کے پاس پہنچ گیا۔ لیکن یہاں سے جو اس نے دیکھا یہ اس کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی تھا۔ چنگیز خان تو دریاؤں، خیموں، پہاڑوں اور چھوٹے چھوٹے عارضی قصبوں میں رہنے کا عادی تھا۔ اس نے راستے میں چین کے دوسرے شہر بھی دیکھے تھے لیکن وہ بھی کوئی خاص بڑے نہیں تھے۔ جب وہ بیجنگ جیسے دنیا کے عظیم شہر کے قریب پہنچا تو یہ منظر اس کے لیے کہانیوں جیسا تھا۔ اسے اپنے سامنے دور تک پھیلا شہر نظر آیا، میلوں تک پھیلے گھر دکھائی دئیے، اس نے دور سے بڑی بڑی عمارتوں کے ہیولے دیکھے۔

یہ سب دیکھ کر وہ حیرت اور سوچ میں گم ہو گیا۔ کیونکہ یہ شہر جتنا بڑا تھا، اتنا ہی محفوظ بھی تھا۔ اس کی سیکیورٹی بھی اتنی ہی اچھی تھی۔ شہر کے اردگرد تیس میل لمبی اور چالیس فٹ اونچی دیواریں تھیں۔ ان دیواروں پر نو سو ٹاورز تھے جن میں تیر انداز پہرے دار بیٹھتے تھے۔ جبکہ شہر کے بارہ گیٹس تھے۔ شہر کے گرد تین اطراف میں خندق تھیں جس میں پانی بھرا رہتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دارالحکومت کی حفاظت کیلئے شہر کے باہر بھی چار چھوٹے چھوٹے شہر بسائے گئے تھے۔ ان چاروں کے گرد بھی مضبوط دیواریں اور خندقیں موجود تھیں۔

پھر ان چھوٹے شہروں کو زیرزمین راستوں، انڈر گراؤنڈ ٹنلز کے ذریعے دارالحکومت سے ملا دیا گیا تھا۔ اردگرد موجود چھوٹے شہروں میں ہر شہر کے اندر چار ہزار سپاہی تھے۔ جبکہ دارالحکومت کے اندر بیس سے چوبیس ہزار فوجی ہوشیار رہتے تھے۔ یعنی شہر کی کل محافظ فوج کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ جاتی تھی۔ مگر ضرورت پڑنے پر اس فوج میں ایک لخت چار لاکھ کا اضافہ بھی ہو سکتا تھا۔ وہ بھلا کیسے؟ وہ ایسے کہ شہر کی کل آبادی چار لاکھ تھی اور اسے کسی بھی وقت ایک حکم کے نتیجے میں جنگ میں شامل کیا جا سکتا تھا۔ سو ایک خانہ بدوش فوج کے لیے بیجنگ تقریباً ناقابل تسخیر شہر تھا۔

Read More Longevity simply explained لمبی عمر کی وضاحت آسان ہے۔

Similar Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *