Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-13

دوسرا مقصد یہ بھی تھا کہ چنگیز خان کی فوج کے لیے راشن اور محاصرے سے تنگ آئے فوجیوں کے لیے اپنی ضروریات مہیا کرنے کا ایک سامان ہو سکے۔ تاہم ان ٹولیوں کو نئے شہر فتح کرنے کیلئے پرانی حکمت عملی اب بدلنا پڑی۔ کیونکہ شہروں کو فتح کرنے کیلئے منگولوں کی بھاگنے والی چال اب کام نہیں کر رہی تھی۔ چینی سپاہی اس تکنیک کو سمجھ گئے تھے۔ وہ منگولوں کے بھاگنے کے باوجود قلعوں سے باہر نہیں آتے تھے۔ سو اب چنگیز خان نے بھی اپنی حکمت عملی بدلی۔ منگول فوج نے دیہات سے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر میدان جنگ میں لانا شروع کر دیا۔ ان چینی دیہاتی قیدیوں کو آگے کھڑا کر کے اaنھی کے ذریعے قلعوں کے دروازے توڑے جاتے۔

Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-13

اکثر ایسا ہوتا کہ دیواروں پر کھڑے پہرے دار ان لوگوں کو پہچان لیتے۔۔۔ اور انہیں اپنے لوگ سمجھتے ہوئے ان پر حملہ کرنے سے ہچکچانے لگتے بہت سے تو انکار بھی کر دیتے۔ چنانچہ یہ ترکیب زیادہ کامیاب رہی اور شہروں کے دروازے آسانی سے ٹوٹنے لگے۔ جب دروازہ ٹوٹ جاتا تو منگول فوج شہر میں داخل ہو کر اس پر قبضہ کر لیتی۔ جس کے بعد مفتوح شہر میں بے دردی سے لوٹ مار شروع ہو جاتی۔ غلام اور لونڈیاں بنائی جاتیں۔ سونے چاندی اور ریشم کی لوٹ کے ڈھیر لگائے جاتے اور جاتے ہوئے کھڑی فصلوں کو آگ لگا دی جاتی۔ یہ ساری خبریں چِن شہنشاہ تک پہنچ رہی تھیں۔ وہ زیادہ دیر تک اپنی سلطنت کو برباد ہوتے نہ دیکھ سکا۔ مقابلے کی ہمت تو اس میں نہیں تھی، سو اس نے چنگیز خان سے صلح کی درخواست کی۔

چنانچہ بارہ سو چودہ کے شروع میں صلح کا ایک معاہدہ ہوا۔ معاہدے کی شرائط کے مطابق چِن شہنشاہ کی بیٹی کو چنگیز خان سے شادی کرنا تھی۔ چِن سلنطت منگولوں کو تین ہزار گھوڑے، ایک لاکھ سونے کی پلیٹس اور تین لاکھ گز ریشم بھی ادا کرنے کی پابند بھی ٹھہری تھی۔ معاہدہ تو ہو گیا لیکن اب اس پر عمل بھی ہونا تھا۔ تو عمل سے پہلے چنگیز خان نے یہ کیا کہ کچھ نرمی کر دی اور بیجنگ جانے والے چند راستے کھول دیئے۔ لیکن یہاں پر چینی شہنشاہ نے ایک فاش غلطی کی۔ چینی شہنشاہ نے محاصرے میں نرمی دیکھی تو موقع غنیمت جان کر وہ بیجنگ سے نکل بھاگا اور جنوبی شہر کیفینگ میں چھپ گیا۔

یہ شہر بیجنگ سے بھی زیادہ محفوظ تھا کیونکہ اس کی حفاظتی دیوار 120 میل لمبی تھی۔ جبکہ بیجنگ کی حفاظتی دیوار صرف تیس میل لمبی تھی۔ چنگیز خان کو شہنشاہ کے فرار کی خبر ملی تو وہ آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے شہنشاہ کے فرار کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا اور معاہدہ توڑ دیا۔ اس نے حکم دیا کہ اب بیجنگ کا سخت محاصرہ کیا جائے۔ سو محاصرے میں جو نرمی تھی وہ ختم ہو گئی اور بیجنگ کو جانے والے کھلے راستے بند کر دئیے گئے۔ اس بار محاصرہ اس قدر سخت تھا کہ بیجنگ میں کھانے پینے کا سامان مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ شہر کے لوگ بھوک سے تنگ آ گئے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مردے کھانے لگے۔ فوج کے بڑے بڑے کمانڈرز، جنرلز رات کی تاریکی میں شہر چھوڑ کر بھاگنے لگے۔

بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو تنگ آ کر چنگیز خان کی فوج کا حصہ بن گئے کہ کچھ اور نہ سہی تو پیٹ بھر کھانا تو ملے گا۔ لیکن سبھی محافظ ایسے نہیں تھے۔ ان بدترین حالات میں بھی پہرے داروں نے منگول فوج کے دو بڑے حملے بری طرح پسپا کیے، ناکام بنائے۔ ان ناکام حملوں میں منگول فوج کو بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ تقریباً ایک سال سے طویل محاصرے کے بعد صرف چینی شہری ہی نہیں منگول فوج بھی تنگ آ چکی تھی۔ منگولوں کے پاس بھی خوراک کا ذخیرہ ختم ہو رہا تھا۔ بیماریاں بھی پھیل رہی تھیں، منگول سپاہی مرنے لگے تھے۔ لیکن منگولوں کو یہ فائدہ بہرحال تھا کہ وہ محاصرے میں نہیں تھے اور ان تک کھانے پینے کا سامان پہنچنے کے راستے کھلے تھے۔

اسی دوران منگولوں نے ایک ہزار چھکڑوں کی ایک کھیپ پکڑ لی۔ ان چھکڑوں پر کھانے پینے کا سامان لدا ہوا تھا جو محاصرے میں آئے شہریوں کی مدد کے لیے اس شہنشاہ نے بھجا تھا جو شہر سے فرار ہو چکا تھا۔ منگولوں نے یہ کھیپ لوٹ لی۔ اس خوراک سے انھوں نے اپنا پیٹ تو بھر لیا لیکن ادھر بیجنگ کے خالی پیٹ محافظوں کو جب اس کی خبر ملی تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ لیکن آفرین ہے کہ انھوں نے پھر بھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ اور آخری ہتھیار آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ یہ ہتھیار ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہی تھا لیکن مجبور، لاچار اور مہینوں کے محاصرے سے تنگ پڑے محافظوں کے پاس اس کے علاوہ اور چارہ بھی کیا تھا؟ لیکن یہ ہتھیار تھا کیا؟ چینیوں کے پاس اس وقت ایک ایسا ہتھیار تھا جو دنیا میں شاید ہی کسی اور کے پاس ان دنوں ہو۔ یہ ہتھیار جنگ کا پانسا پلٹ سکتا تھا۔ لیکن چینیوں کی بدقسمتی کہ انھوں نے اس ہتھیار کو بہتر طور پر استعمال کرنے کی کوئی ترکیب نہیں بنائی تھی۔ یہ ہتھیار تھا بارود۔ جی ہاں چینی بارہ سو پندرہ میں بارود بنا بھی چکے تھے اور جنگوں میں توپوں اور بندوقوں کا استعمال بھی کر رہے تھے۔ لیکن چنگیز خان کی خوش قسمتی کہ ابھی ان بندوقوں اور توپوں کا ڈیزائن ابتدائی مراحل میں تھا۔ میچور نہیں ہوا تھا۔ اس لیے ان کے نشانے درست تھے اور نہ ہی یہ اتنی تباہی پھیلا رہے تھے۔

Read More Why is no military coup in India but multiple in Pakistan?

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *