Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-15
ہنرمند فنکار، تاجر، معیشت دان اور بہت سے دوسرے ماہرین کے ساتھ وہ اپنی سلطنت کو اب ترقی دینا چاہتا تھا۔ اس کے لیے اس نے اردگرد کے ممالک سے تجارت کے معاہدے کرنا شروع کیے۔ اس نے محمد ثانی کو ایک پیغام بھیجا۔ اس نے کہا میں تمہاری سلطنت پر قبضہ کر کے اپنی سلطنت وسیع نہیں کرنا چاہتا۔ بلکہ پرامن تجارت چاہتا ہوں۔ چنگیز خان نے سلطان کو مخاطب کر کے یہ بھی کہا کہ میں تو چـڑھتے سورج کی سرزمین کا حکمران ہوں اور تم ڈوبتے سورج کی دھرتی کے حاکم۔ سلطان خوارزم شاہ نے خط کا مثبت جواب دیا یعنی وہ چنگیز خان سے تجارت کے لیے تیار تھا۔ چنگیز خان نے فوری طور پر ایک تجارتی قافلہ خوارزم روانہ کیا۔
Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-15
قافلے میں چنگیز خان کے ایک سفیر کے علاوہ 450 مسلمان تاجر اور ایک سو کے قریب منگول پہریدار تھے۔ یہ قافلہ قازقستان کے شہر ‘اورترار‘ پہنچا جو خوارزمی سلطنت کے بارڈر پر واقع تھا۔ یہاں وہ واقعہ ہوا جو خوارزمی سلطنت کی تباہی کا باعث بنا۔ شہر کے گورنر قائر خان نے چنگیز خان کے قافلے پر جاسوسی کا الزام لگا کر سب تاجروں اور محافظوں کو قتل کروا دیا۔ قافلے کا صرف ایک شخص زندہ بچ کر منگولیا پہنچا اور چنگیز خان کو سارا واقعہ کہہ سنایا۔ چنگیز خان ظاہر ہے بہت غصے میں آیا۔ لیکن اسے نے معاملے کی چھان بین کے لیے ایک مسلمان کی سربراہی میں تین رکنی وفد سلطان خوارزم کے پاس بھیجا۔ وفد نے سلطان سے مطالبہ کیا کہ اورترار کے گورنر کو منگولوں کے حوالے کر دیا جائے۔ لیکن ہوا یہ کہ سلطان نے یہ مطالبہ پورا کرنے کے بجائے چنگیز خان کے مسلمان سفیر کو قتل کروا دیا۔۔۔ اور باقی دو منگولوں کے سر اور داڑھیاں منڈوا کر انہیں واپس بھیج دیا۔ جب چنگیز خان کو اپنے سفیروں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا علم ہوا تو وہ آپے سے باہر ہو گیا۔
ایک بار پھر اس نے مقدس پہاڑی برقان قالدون کا رخ کیا۔ اس نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کئے اور اپنے دیوتا کو پکارا۔ اس نے کہا ’’مجھے طاقت دو مجھے انتقام لینا ہے۔‘‘ پھر چنگیز خان نے علاؤالدین کو آخری پیغام بھیجا۔ اس نے کہا تم نے میرے آدمیوں اور تاجروں کو قتل کیا ہے اور میرا تجارتی سامان لوٹ لیا ہے۔ سو تجارت ختم۔ اب تم جنگ کی تیاری کرو کیونکہ میں ایک ایسی فوج کے ساتھ تم پر حملہ آور ہونے والا ہوں جسے تم روک نہیں سکو گے۔ چنگیز خان مئی بارہ سو انیس میں ایک لاکھ بیس ہزار فوج لے کر خوارزم پر چڑھ دوڑا۔ اس کی فوج میں دس ہزار ایغور سپاہیوں کے علاوہ ترک مسلمان اور چینی انجینئرز بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ چنگیز خان کے مقابلے پر سلطان کی
فوج دو گنا سے بھی زیادہ تھی۔ لیکن سلطان نے ایک غلطی کی۔ وہ یہ کہ منگولوں کا براہ راست مقابلے کرنے کے بجائے اپنی فوج کو تقسیم کر کے الگ الگ شہروں کی حفاظت کے لیے بھیج دیا۔ اس کا نتیجہ تباہ کن نکلا کیونکہ منگولوں نے ایک، ایک شہر کو گھیر کر الگ الگ تباہ کرنا شروع کر دیا۔ یوں مسلمان اپنی زیادہ تعداد کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ منگولوں نے اورترار کو پانچ ماہ میں فتح کر لیا۔ پھر اس کے گورنر قائر خان سمیت شہر کی زیادہ تر آبادی کو تہہ تیغ کر دیا۔ اوترار کے بعد بخارا اور سمرقند جیسے عظیم شہر بھی اسی انجام سے دوچار ہوئے۔ چنگیز خان نے یہ شہر اس بری طرح تباہ کیے تھے کہ مدتوں بعد بھی کوئی وہاں سے گزرتا تو اجڑا دیار دیکھ کر اس کے دل سے ہوک سی اٹھتی۔
اس کا اندازہ یوں کیجئے کہ ایک صدی بعد جب مشہور سیاح ابن بطوطہ یہاں سے گزرا تو اسے بھی یہ شہر اجڑی ہوئی بستیاں ہی دکھائی دئیے تھے۔ چنگیز خان بخارا اور سمرقند کو تباہ و برباد کرنے کے بعد سے واپس نہیں لوٹا بلکہ آگے ہی بڑھتا گیا۔ جو اس کے راستے میں آیا وہ اسے تباہ کرتا چلا گیا۔ لیکن اس نے ازبکستان کے مشہور شہر نوراتا کو تباہ نہیں کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس شہر کو تباہ نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں مقدس قبریں تھیں۔ کچھ ہسٹورینز کا خیال ہے کہ خوارزم سلطنت پر حملے کے دوران وہاں کے کچھ مذہبی رہنما درپردہ چنگیز خان سے مل گئے تھے۔ اس لیے چنگیز خان نے ان کو ساتھ رکھنے کی خاطر وہ مقامات چھوڑ دئیے جو ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا سکتے تھے۔
چنگیز خان کا لشکر ایک برس کے اندر، اندر پورے خو`ارزم پر قابض ہو چکا تھا۔ اس تیز رفتار کامیابی کی وجہ یہ تھی سپیڈ۔ منگول فوج سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ ایک ہی دن میں طے کر لیا کرتی تھی۔ اس لئے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ وہ سینٹرل ایشیا، ایران اور افغانستان میں پھیل کر ان علاقوں پر قابض ہو گئے۔ چنگیز خان خوارزم شاہ کی سلطنت تاراج کر چکا تھا لیکن خوارزم شاہ خود کہیں غائب ہو گیا تھا۔ وہ چنگیز خان کے ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ چنگیز خان نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ سلطان محمد ثانی خواہ آسمان پر چڑھ جائے اسے ڈھونڈ کر لاؤ اور جب تک کامیابی نہ ملے مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔ چنانچہ ایک بڑا منگول لشکر شکاریوں کی طرح سلطان کے تعاقب میں لگ گئے۔ سلطان محمد ثانی منگولوں سے بچنے کیلئے ایک شہر سے دوسرے شہر میں چھپتا رہا۔ اس نے اپنے حرم کی خواتین اور بچوں کو ایک قلعے میں چھپا دیا تھا۔