Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-16
لیکن منگولوں نے اس قلعے کو ڈھونڈ نکالا اور اس پر قبضہ کر کے ان خواتین اور بچوں کو پکڑ لیا۔ اب سلطان کے پاس اپنے ایک بیٹے جلال الدین خوارزم شاہ اور مٹھی بھر وفاداروں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ بھاگتے بھاگتے وقت کا سلطان اتنا خراب حال ہو چکا تھا کہ اس کے تن پر چیتھڑے جھول رہے تھے اور جیب میں ایک دمڑی تک نہیں تھی۔ بس چند وفادار تھے جو اب تک اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ اپنے وفاداروں کے ساتھ وہ بھاگتا بھاگتا بحیرہ کیسپئن کے کنارے پہنچ گیا۔ منگول سپاہی اس کے پیچھے پیچھے تھے۔
Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-16
وہ ایک کشتی میں بیٹھ کر فرار ہونے لگا کہ منگول سپاہی سر پر آن پہنچے۔ انھوں نے کشتی پر تیروں کی بارش کر دی۔ لیکن اتفاق سے کشتی اور کشتی والے بحفاظت آگے نکل گئے۔ پہلے خوارزم کا سلطان ایک شہر سے دوسرے شہر میں چھپتا رہا تھا۔ اب چنگیز خان کے سپاہوں سے بچتا ہوا ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے میں پناہ لیتا پھر رہا تھا۔ منگول کسی بھی جگہ اسے چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ یہ مسلز، اعصاب اور وقت کی بے رحم جنگ تھی۔ اس جنگ نے سلطان کو نیم پاگل سا کر دیا تھا۔ وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا تھا۔ اس کے بیٹے جلال الدین اور چند وفاداروں کے لیے اسے سنبھالنا ایک مشکل کام ہوتا جا رہا تھا۔ اسی طرح جان بچاتے، بھاگتے اور چھپتے چھپاتے ایک دن سلطان خوارزم کو نمونیہ ہو گیا۔ دس جنوری بارہ سو اکیس کو سلطان دنیا چھوڑ گیا۔
اور وہ بھی اس طرح کہ تدفین کے لیے کفن کا کپڑا تک دستیاب نہیں تھا۔ سو اسے اسی کے تن پر موجود چیتھڑوں میں دفن کر دیا گیا۔ لیکن کیا بس یہی کچھ تھا۔ نہیں ابھی چینگیز خان کے سپاہیوں کی کسر باقی تھی۔ انھیں جب اپنے آقا کا حکم پورے کرنے میں ناکامی ہوئی یعنی چنگیز خان کے سپاہی سلطان کو زندہ اپنے آقا تک نہ پہنچا سکے تو انھوں نے سلطان کی قبر ڈھونڈ نکالی۔ لاش کو باہر نکالا اور اسے آگ لگا دی۔ سلطان کی ماں اور حرم کی خواتین کا جلوس نکالا گیا اور انہیں خوارزمی سلطنت کی تباہی کا ماتم کرنے پر مجبور کیا گیا۔
پھر حرم کی خواتین کو چنگیز خان کے بیٹوں اور جرنیلوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ لیکن اس سب میں یہ ہوا کہ سلطان کا بیٹا جلال الدین خوارزم شاہ جان بچا کر نکل گیا۔ وہ چنگیز خان کے سپاہیوں کے ہاتھ نہیں آیا۔ اس لیے وہی منگولوں کے خلاف مسلمانوں کی جنگ آزادی کی علامت بن گیا۔ جلال الدین جو اپنے باپ کی موت کے بعد منگولوں کے ہاتھ نہیں آ سکا تھا وہ بھی افغانستان پہنچنے کی فکر میں تھا۔ کیونکہ وہاں اس کے ہزاروں حامی غزنی میں جمع ہو رہے تھے۔ غزنی اس وقت تک آزاد تھا اور وہاں ابھی تک منگولوں کا کنٹرول نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ جلال الدین اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ بحیرہ کیسپئن کے علاقے سے نکلا اور ترکمانستان پہنچا۔ ترکمانستان سے اسے افغانستان پہنچنا تھا۔
لیکن راستے میں منگولوں کے فتح کیے ہوئے بہت سے قلعے بھی آتے تھے۔ ان کی ٹولیاں بھی موجود تھیں۔ سو ایسے میں وہ انھیں بھی شکست دیتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ اس نے نیسا کے قلعے پر قابض سات سو منگولوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ منگولوں کے چھوٹے چھوٹے دستوں کو شکست دیتا اور اپنا راستہ صاف کرتا ہوا وہ اسی سال یعنی بارہ سو اکیس میں غزنی پہنچ گیا۔ یہاں خوارزمی سلطنت کے پچاس ہزار سپاہیوں نے اس کی وفاداری کا حلف لیا۔ منگولوں کے خلاف جنگ میں ایک جرنیل تیمور ملک بھی اس کے ساتھ تھا۔ تیمور ملک، سلطان محمد ثانی کے دور میں فرغانہ کے علاقے، خجند کا گورنر تھا۔ یہ علاقہ آج تاجکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔
اس نے ایک ہزار سپاہیوں کے ساتھ ایک جزیرے پر مورچہ بند ہو کر منگولوں کا خوب مقابلہ بھی کیا۔ اس کے بعد وہ منگولوں کا گھیرا توڑ کر افغانستان کی طرف فرار ہو گیا۔ اور جب جلال الدین غزنی پہنچا تو کچھ دیر بعد تیمور ملک بھی تیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ پہنچ گیا۔ یہ سپاہی اس نے راستے سے بھرتی کیے تھے۔ اس کے پہنچنے سے جلال الدین کی قوت اور بڑھ گئی۔ یوں غزنی میں تقریباً اسی ہزار کے قریب فوج منگولوں سے مقابلے کیلئے تیار تھی۔ اس سے پہلے کہ چنگیز خان کا مقابلہ جلال الدین خوارزم سے ہوتا جنگ کی ہولناکیاں چنگیز خان کے گھر تک پہنچنے لگیں۔ اس کا ایک داماد ’توقوچار‘ ایرانی شہر نیشاپور کے محاصرے میں مارا گیا۔ چنگیز خان کے لیے یہ خبر ایک الم ناک حادثہ تھی۔ اس نے اپنے بیٹے تولی خان کو بدلہ لینے کیلئے نیشا پور بھیجا۔ تولی خان نے نیشا پور کو گھیر کر اس کے گرد سینکڑوں منجنیقیں نصب کر دیں۔ پھر شہر پر پتھروں کی بارش کر کے حفاظتی دیوار کے پرخچے اڑا دیئے۔ اس کے بعد منگول فوج شہر میں داخل ہوئی۔
منگول لشکر کے ساتھ چنگیز خان کی بیوہ بیٹی بھی تھی جس کی آنکھوں میں بدلے کا خون تھا اور ہونٹوں پر انتقام، انتقام، انتقام کی صدائیں تھیں۔ وہ فوج کو جوش دلا رہی تھی اور فوج جوش کھا رہی تھی۔ چنگیز خان کے داماد کا انتقام یوں لیا گیا کہ پہلے شہر کی انسانی آبادی کو قتل کیا گیا۔ پھر شہر کے کتوں، بلیوں اور چوہوں تک کو مار دیا گیا۔ ابھی چنگیز خان کی فوج اس کے داماد کا انتقام لے رہی تھی کہ ایک اور واقعہ ہو گیا۔ افغانستان میں بامیان کے قلعے کے باہر چنگیز خان کا چہیتا پوتا ’موگیتوگین‘ بھی تیر لگنے سے مارا گیا۔
اپنے داماد کی موت کے بعد چنگیز خان کیلئے یہ دوسرا بڑا جذباتی صدمہ تھا۔ غصے میں بپھرا چنگیز خان خود فوج لے کر بامیان پہنچا اور بالکل نیشا پور کی طرح بامیان کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ چنگیز خان نے حکم دیا کہ بامیان میں کوئی ایسی چیز باقی نہ بچے جو سانس لیتی ہو۔ سو انسانوں کو قتل کرنے کے بعد تمام جانور حتیٰ کہ کیڑوں مکوڑوں تک کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ختم کر دیا گیا۔ حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کیے گئے، اور بچے نکال کر انھیں کاٹ دیا گیا۔ بامیان یوں برباد ہوا کہ لوگ برسوں تک اسے منحوس شہر کے نام سے یاد کرتے رہے۔ نیشاپور اور بامیان میں کامیابی اور خوف کے جھنڈے گاڑنے کے بعد اب منگولوں کا مقابلہ تھا جلال الدین خوارزم شاہ سے۔ چنگیز خان نے اپنے ایک جرنیل کو چالیس ہزار سے زائد فوج کے ساتھ جلال الدین کے تعاقب میں روانہ کیا۔ افغان علاقے پروان کے قریب جلال الدین اس فوج کے مقابلے میں آیا۔