Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-5

پھر ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے اسے تموجن سے چنگیز خان بنا دیا۔ اسے چنگیز خان کا خطاب کیسے ملا تھا؟ چنگیز خان نے اپنے قریبی دوست سے پہلی بڑی جنگ کیوں کی؟ چنگیز خان نے پوری دنیا فتح کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اور وہ ایسا کیا سمجھنے لگا تھا؟ یہ سب آپ کو دکھائیں گے لیکن چنگیز خان کی منی سیریز کی اگلی قسط میں۔ تموجن کا جگری دوست، بلڈ برادر جموکا اس کے سامنے گرفتار کر کے لایا گیا۔ تموجن نے اسے دوبارہ دوست بن جانے کی پیش کش کی لیکن جموکا نے اسے جو جواب دیا وہ تموجن کے لیے ایک سرپرائز تھا۔ یہ جواب کیا تھا؟

Who was Genghis Khan چنگیز خان کون تھا؟ Part-5

تموجن ایک معمولی سے سردار سے چنگیز خان کیسے بنا؟ اور یہ کٹھن سفر بہت سی بے وفائیوں اور ان گنت خون کے دھبوں سے سرخ ہے۔ لیکن یہ سفر ہے کیا؟ میں ہوں فیصل وڑائچ اور دیکھو سنو جانو کی منی سیریز، چنگیز خان کون تھا کی دوسری قسط میں ہم آپ کو یہی سب دکھا رہے ہیں۔ تموجن کے بچپن میں ایک دوسرا منگول قبیلہ ’’جیدارد‘‘ یا ’’جاڈیراڈ‘‘ہر موسمِ سرما میں تموجن کے قریب آ کر کیمپ لگایا کرتا تھا۔ یہ لوگ تموجن کی طرح شکاری نہیں تھے، بلکہ یہ بھیڑ بکریاں چرانے والے پُرامن خانہ بدوش تھے۔ ان کے تموجن کے قبیلے سے اچھے مراسم تھے۔ وہ ایک دوسرے پر حملے بھی نہیں کرتے تھے۔ اسی قبیلے کے ایک بچے ’جموکا‘ سے تموجن کی گہری دوستی ہو گئی۔

اتنی گہری دوستی کہ دونوں اکٹھے شکار کھیلتے، ایک برتن میں کھانا کھاتے یہاں تک کہ دا سیکرٹ ہسٹری آف دا منگولز، جو چنگیز خان کے بارے میں لکھی گئی سب سے پرانی کتاب ہے۔ اس میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ تموجن اور جموکا ایک ہی بستر میں سوتے تھے۔ یہاں تک کہ بارہ برس کی عمر میں دونوں ایک دوسرے کا خون بھی پی چکے تھے۔ منگولوں میں روایت تھی کہ جب کوئی دو افراد گہرے دوست بنتے، وفاداری کا حلف لیتے تو علامتی طور پر ایک دوسرے کو تحفہ دیتے تھے۔ اس دوران وہ ایک دوسرے کے خون کے چند قطرے بھی پیتے تھے۔ اس رسم کو منگول ’اینڈا‘ کہتے تھے، انگلش میں آپ اسے بلڈ برادرز کہہ سکتے ہیں۔ تو ایک دن جموکا نے شکار کے بعد بچھڑے کے سینگ اکھاڑ لیے۔

ان میں سوراخ کر کے ہار بنایا اور تموجن کو تحفتاً پیش کر دیا۔ تموجن نے بھی جواب میں ایک تیر کا تحفہ جموکا کو دیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خون کے چند قطرے بھی پیئے۔ اب وہ دونوں روایتی طور پر یک جان دو قالب بن چکے تھے۔ اب وہ ایک دوسرے کے لیے جان بھی دے سکتے تھے اور لے بھی سکتے تھے۔ کیونکہ یہ تحفے اور یہ رسم غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی۔ لیکن ظاہر ہے تھے تو وہ خانہ بدوش ہی ناں۔ کبھی اس ندی کے کنارے تو کبھی اُس پہاڑ کے دامن میں۔ تو بچپن کے چند برس ساتھ گزارنے کے بعد دونوں دوست بچھڑ گئے۔ بچھڑ تو وہ گئے لیکن بھولے نہیں۔

وہ آتے جاتے قافلوں سے ایک دوسرے کی خیر خبر لیتے رہتے تھے۔ اسی لیے جب تموجن کی بیوی بورتے اغوا ہوئی تو اسے چھڑوانے کے لیے جو بیس ہزار کا ایک مددگار لشکر آیا تھا وہ جموکا ہی کا تو تھا۔ اور یہ کہانی ہم آپ کو پچھلی قسط میں دکھا چکے ہیں۔ تو بورتے کی واپسی کے بعد سے جموکا اور تموجن ایک ہی کیمپ میں رہنے لگے تھے۔ اس وقت تک جموکا اپنے قبیلے کا سردار بھی بن چکا تھا۔ اور تموجن بھی اپنے گرد بہت سے وفادار جمع کر چکا تھا جن کا کہ وہ اب سردار ہی تھا۔ اب یہ ہوا کہ دونوں دوستوں نے ایک بڑی فوج بنانا شروع کر دی۔

انھوں نے خانہ بدوش منگولوں کو اپنے اردگرد اکٹھا کرنا شروع کیا تاکہ ایک بڑی فوج بنائی جا سکے۔ دونوں نے بڑی فوج تو اکٹھی کرنا شروع کر دی تھی لیکن بات یہ تھی کہ یہی تو مسئلہ تھا۔ کہ دونوں ہی پورے منگولیا پر حکومت کرنا چاہتے تھے۔ اور آپ تو جانتے ہیں کہ منگولیا میں کہاوت تھی کہ جیسے دو سورج نہیں ہو سکتے ایسے ہی منگولوں کے دو سردار بھی نہیں ہو سکتے۔ اور اقتدار کی جنگ میں تو خون کے رشتے پھیکے پڑ جاتے ہیں پھر یہ بلڈ برادرز یا اینڈا کی رسم کے نتیجے میں بنے ہوئے بھائی تھے۔ سو دونوں میں مکمل اقتدار کے لیے رسہ کشی شروع ہو گئی۔

یہ رسہ کشی چھوٹی چھوٹی رنجشوں کی شکل میں ظاہر بھی ہونے لگی تھی۔ جموکا نے تموجن سے شکایت کی کہ وہ فوج میں نیچ ذات کے لوگوں کو کمانڈرز کیوں بنا رہا ہے؟ اور اعلیٰ ذات کے لوگوں کو آخر کیوں نظرانداز کر رہا ہے۔ اس کی یہ شکایت دور نہیں ہوئی تو وہ تموجن سے اکھڑا اکھڑا رہنے لگا۔ ایک روز اس نے تموجن سے کہا تم اپنی گائیوں اور بھیڑوں کے ساتھ دریا کے کنارے کیمپ لگا

لو۔ جبکہ میں اپنے گھوڑوں کو لے کر گھاس کے میدان میں کیمپ لگانے جا رہا ہوں۔ یہ بات تموجن کی بیوی بورتے نے جب سنی تو اس نے اپنے شوہر کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ جموکا تمہاری دوستی سے بیزار ہو چکا ہے۔ اس لئے اسے چھوڑ کر آگے بڑھو اور رات کے وقت سفر کرنا ہوشیار رہنا۔ تموجن نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ تموجن اور اس کے ساتھی جموکا اور اس کے خاندان کو پیچھے چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں کیمپ سے نکل گئے۔ انھوں نے جموکا کے کیمپ سے بہت دور پہنچ کر اپنا الگ کیمپ لگا لیا۔ یوں ڈیڑھ برس اکٹھے رہنے کے بعد دونوں دوستوں کے راستے الگ الگ ہو گئے۔ اب دونوں دوست اپنی الگ الگ فوج بنانے لگے۔

Read More What did Dante’s Divine Comedy change in history? ڈانٹے کی ڈیوائن کامیڈی نے تاریخ میں کیا تبدیلی کی؟

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *