Who was Mussolini? مسولینی کون تھا؟

وہ کسی بھی قیمت پر طاقت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ایک وقت میں وہ یورپ کا سب سے طاقتور لیڈر تھا۔ وہ روم کا ماڈرن جولیس سیزر بننا چاہتا تھا اور اسی کے انداز میں ہاتھ ہلاتا تھا۔ ہٹلر چرچل، روزویلٹ، علامہ اقبال غرض کون تھا جو اس کا دیوانہ نہیں تھا۔ اس کے چاہنے والے اس کے ایک اشارے پر مخالفین کی جان لے لیتے اور پھر چوک میں اسے الٹا لٹکا دیتے تھے۔ پھر وقت نے کروٹ بدلی اور اسی چوک میں اسے بھی الٹا لٹکایا گیا۔ میں ہوں فیصل وڑائچ اور دیکھو سنو جانو کی سیریز وہ کون تھا میں ہم آپ کو ایک فاشسٹ کی کہانی دکھائیں گے۔ مسولینی سکول میں تھا تو بچوں کو چاقو مار دیا کرتا تھا۔ وہ سکول کا بدمعاش بچہ تھا اسی وجہ سے اسے ہر دوسرے اسکول سے نکال دیا جاتا تھا۔ جب جوان ہوا تو وہی ضدی لڑکا جو سب کو ناپسند تھا اس کی شخصیت میں ایک جاذبیت پیدا ہو گئی۔ وجہ تھی اس کی وجیح شخصیت اور پراعتماد گفتگو۔

Who was Mussolini? مسولینی کون تھا؟

لمبے قد اور مضبوط جسم والے اس نوجوان کی باتوں میں ایک نشہ سا تھا۔ یہ جہاں موجود ہوتا جان محفل بن جاتا۔ لیکن وہ خود کارل مارکس کی شخصیت کا اسیر ہو چکا تھا۔ کارل مارکس سے وہ کتنا متاثر تھا، اس کا اندازہ یوں کیجئے کہ جب وہ کام کاج کی تلاش میں اٹلی سے سوئٹزرلینڈ گیا تو اس کی جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی۔ لیکن کارل مارکس کی تصویر ضرور تھی۔ سوئٹزرلینڈ میں پہلے چند ماہ تو وہ چھوٹے موٹے کام کرتا رہا۔ پھر اسے ایک ٹریڈ یونین میں جاب مل گئی۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ ٹریڈ یونین کے حق میں پراپیگنڈہ کرے۔ مسولینی مطالعے کا رسیا تھا اور اسے چکنی چپڑی باتیں کرنا بھی خوب آتا تھا۔ سو اس کا پراپیگنڈہ مقبول ہونے لگا۔ لیکن یہ پروپیگنڈا سوئس حکومت کو پسند نہیں آیا۔ جب سوئٹزر لینڈ نے سوشلسٹوں کے خلاف کارروائی شروع کی تو مسولینی بھی گرفتار ہوا۔ اور پھر جیسا کہ ہوتا آیا ہے وہی ہوا۔ وہ گرفتاری کے بعد زیادہ مشہور ہو گیا۔

اس کے آبائی وطن اٹلی میں بھی اس کی خبریں دھڑا دھڑ چھپنے لگیں۔ جیل سے رہا ہو کرمسولینی اپنے آبائی وطن اٹلی لوٹ آیا اور سکول ماسٹر بن گیا۔ لیکن جیسے وہ اچھا طالبعلم نہیں بن سکا تھا ویسے ہی اچھا استاد بھی نہ بن سکا اور سکول کی ملازمت چھوڑ کر پھرٹریڈ یونینز کیلئے کام کرنے لگا۔ لیکن تب تک اٹلی میں بھی سوئٹزرلینڈ والا مسئلہ کھڑا ہو چکا تھا۔ حکومت ٹریڈ یونینز سے خوش نہیں تھی، چنانچہ وہ اپنے ملک میں بھی ایک دفعہ سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔ انیس سو نو میں جب اسے کچھ عرصے کیلئے آزادی ملی تو وہ اپنے باپ کی سابق محبوبہ کی سولہ سالہ بیٹی کے عشق میں گرفتار ہو گیا۔ مسولینی کا عشق کامیاب رہا اور دونوں جیون ساتھی بن گئے۔ مسولینی کمیونسٹ اخباروں کا جانا پہچانا لکھاری تھا۔ لیکن انیس سو بارہ میں اس نے اپنا اخبار۔۔۔ لا لوٹا ڈی کلاسی۔۔۔ نکال لیا۔ اس کا مطلب بنتا ہے ’’طبقاتی کشمکش‘‘۔ یہ اخبار اس قدر مقبول ہوا کہ سوشلسٹوں نے اسے ایک اوراخبار کا ایڈیٹر بنا دیا جس کا نام تھا اوانتی۔

یعنی فارورڈ یا ترقی پسند۔ مسولینی اتنا زبردست ایڈیٹر تھا کہ اس نے اوانتی کی اشاعت کچھ ہی عرصے میں دوگنی کر دی۔ اب وہ صرف ایڈیٹر ہی نہیں بلکہ سوشلسٹ پارٹی کا سرگرم رکن بھی بن چکا تھا۔ مسولینی ایک بڑا انقلابی بننے کی راہ پر گامزن تھا۔ لیکن اس دوران پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی اور مسولینی کو اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے ایک نئی راہ نظر آ گئی۔ سوشلسٹ جنگ کے خلاف تھے، چنانچہ شروع میں مسولینی نے جنگ کی زبردست مخالفت کی۔ لیکن پھر جب اس نے دیکھا کہ ملک کے امیر طبقے جنگ پر سرمایہ کاری کررہے ہیں تو اس نے پھر یو ٹرن لیا اور جنگ کی حمایت شروع کردی۔ اس کے سوشلسٹ ساتھیوں نے اعتراض کیا کہ جناب ہم تو جنگ کے خلاف ہیں۔

ایسے میں مسولینی نے انھیں کارل مارکس ہی کا ایک جملہ سنایا کہ ’’جنگ کے بعد ہی انقلاب آتا ہے۔‘‘ لیکن سوشلسٹ طبقے نے مسولینی کا جواب قبول نہیں کیا۔ مسولینی سے اخبارات کی ایڈیٹرشپ واپس لے لی گئی اور اسے پارٹی سے بھی نکال باہر کیا گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مسولینی کو سوشلسٹوں سے شدید نفرت ہو گئی۔ لیکن شاید اب اسے ان کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ اسے جنگ کی حمایت کرنے والے سرمایہ دار اتحادی مل گئے تھے۔ یہ وہ سرمایہ دار تھے جو اسلحہ اور دیگر اشیا بیچ کر جنگ کے دنوں میں مال بنا رہے تھے۔ اب مسولینی نے دو کام کیے۔ ایک تو اپنی تقریر کی صلاحیت سے لوگوں میں جنگی جنون پیدا کیا اور دوسرا کام یہ کیا کہ ہتھیار بند ہو کر میدان جنگ میں پہنچ گیا۔

جنگ ختم ہوئی تو اٹلی اور اتحادی جیت چکے تھے۔ مسولینی میدان جنگ سے لوٹا تو اس کا استقبال ایک فاتح کی طرح کیا گیا۔ اس کا قد اب کچھ اور بڑھ چکا تھا۔ لیکن جنگ عظیم کے بعد اٹلی کو اپنے اتحادیوں فرانس اور برطانیہ سے شکایت پیدا ہو گئی۔ وہ یوں کہ فاتح علاقوں میں سے اٹلی کو بہت کم حصہ ملا تھا۔ یعنی آسٹریا اور اردن کا مختصر سا حصہ اٹلی کے حصے میں آیا۔ جبکہ سلطنت عثمانیہ سے چھینے گئے زیادہ ترعلاقے جیسا کہ شام، عراق اور فرانس برطانیہ نے آپس میں بانٹ لیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اٹلی کیلئے جنگ کے دوران پیدا ہونے والا بڑا مالی بحران ایک آفت بن چکا تھا۔ مسولینی نے جنگ سے پیدا ہونے والے مالی بحران کو دیکھا تو اس سے بھی فائدہ اٹھایا۔

اس نے بجائے لوگوں کو یہ بتانے کہ کہ ملک جنگ اور لڑائیوں کی وجہ سے بحران کا شکار ہوتے ہیں، معیشت پر سیاست شروع کر دی۔ اس نے خطرناک کھیل کھیلا اور ذاتی شہرت کیلئے لوگوں کو نظام سے بغاوت پر اکسانا شروع کر دیا۔ اس نے کہا کہ اب اٹلی کو ایک ڈکٹیٹر کی ضرورت ہے جو دنیا میں اٹلی کا وقار بلند کرے۔ کیونکہ موجودہ سسٹم نے اٹلی کو اقوام عالم میں رسوا کر کے رکھ دیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ جس جنگ کے باعث اٹلی اس حال کو پہنچا تھا، اس میں مسولینی کا پورا پورا حصہ تھا۔ لیکن اب یہ اس کی سحر بیانی تھی یا کرشماتی شخصیت، کہ عوام کی ایک معقول اور جذباتی تعداد اس کی پرجوش حامی بن چکی تھی۔ وہ اطالوی قوم پرستی کی برتری کی باتیں کرتا تھا اور اس کے چاہنے والوں کے دلوں پر یہ باتیں اثر کرتی تھیں۔ جنگ کے ایک سال بعد انیس سو انیس میں دو سو سے زائد ایسے ہی سابق فوجی اور سیاسی کارکن اٹلی کے شہر میلان میں جمع ہوئے۔

Read More How was a mentally distorted nation restored? ذہنی طور پر مسخ شدہ قوم کیسے بحال ہوئی؟

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *