Who was Mussolini? مسولینی کون تھا؟ Part-3

جب ہٹلر انیس سو چونتیس میں اٹلی کے دورے پر آیا تو دونوں کار میں سیر کیلئے نکلے۔ ہٹلر نے مسولینی سے کہا کہ وہ آسٹریا کا علاقہ جرمنی کے حوالے کردے۔ مسولینی نے انکار کیا تو ہٹلر کو غصہ آ گیا۔ دونوں بگڑے منہ گاڑی سے اترے۔ بعد میں جب مسولینی سے پوچھا گیا کہ معاملہ کیا تھا تو اس کا جواب تھا ’’ہٹلر ایک معمولی پاگل مسخرے کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ البتہ کچھ عرصے بعد مسولینی نے آسٹریا کو جرمنی کے حوالے کردیا جس سے دونوں کے تعلقات پھر سے بہتر ہو گئے۔ مسولینی نے اب اٹلی کی سرحدوں سے باہر سوچنا شروع کر دیا تھا۔ انیس سو پینتیس میں اس نے ہٹلر کی مدد سے افریقی ملک ایتھوپیا پر قبضہ کرلیا۔ اس کے چند برس بعد وہ یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک البانیہ پر بھی قابض ہو گیا۔

Who was Mussolini? مسولینی کون تھا؟ Part-3

ادھر مسولینی کا دوست ہٹلر اپنے شدت پسند نظریات کے باعث دوسری جنگ عظیم چھیڑ بیٹھا تھا اور جیت بھی رہا تھا۔ پولینڈ اور فرانس میں اس کی کامیابیوں نے مسولینی کو حسد میں مبتلا کر دیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ہٹلر سارے یورپ کو اکیلا ہضم کر جائے، چنانچہ وہ بھی دوسری جنگ عظیم میں کود پڑا۔ پہلے اسں نے یونان پر چڑھائی کردی۔ یونان اور اٹلی کی جنگ دوسری جنگ عظیم کی دلچسپ ترین لڑائیوں میں سے ایک ہے۔ ایک طرف اٹلی جیسی طاقت اور دوسری طرف یونان جیسا کمزور ملک۔ مسولینی نے یونانی سیاستدانوں اورجرنیلوں کو یہ فراخ دلانہ پیشکش کی کہ اگر وہ یونان کو اس کے حوالے کر دیں تو انہیں مالا مال کر دیا جائے گا۔ یونان اٹلی کی نسبت ایک کمزور ملک تھا لیکن پھر بھی اسے لالچ زیر نہ کر سکا۔ غصے سے بھر اور فتح کے جنون میں جب مسولینی نے یونان پر چڑھائی کی تو یونانی فوج نے چھکے چھڑا دئیے۔

اطالوی فوج الٹے پاؤں بھاگنے پر مبجور ہو گئی۔ اسی پر بس نہیں بلکہ یونانی فوج اطالویوں کا پیچھا کرتے ہوئے البانیہ میں بھی گھس گئی۔ برطانیہ جو یونان کا ساتھی تھا اس نے بھی اٹلی کے جہازوں کو تباہ کرنا شروع کر دیا۔ اب مسولینی کے ہاتھ پاؤں پھولنا شروع ہوئے تو اس نے اپنے اسی دوست کو مدد کیلئے پکارا، جسے کبھی پاگل چھوٹا مسخرہ کہا تھا۔ مدد مانگنے پر ہٹلر نے پہلے تو مسولینی کی خوب کلاس لی کہ اس سے مشورہ کیے بغیر یونان پر چڑھائی آخر کی کیوں تھی۔ مسولینی نے کسی نہ کسی طرح ہٹلر کو ٹھنڈا کر کے مدد کیلئے منا ہی لیا۔ انیس سو اکتالیس میں جرمن فوج مسولینی کی مدد کو آئی، یونان پر حملہ کیا اور صرف تین ہفتوں میں یونان فتح کر کے اپنا پرچم لہرا دیا۔ لیکن یونان کی شکست، مسولینی کی کرشماتی شخصیت میں پہلی دراڈ ڈال گئی۔ اب عوام کا اعتبار اس سے اٹھنے لگا تھا۔ مسولینی کا سحر جب اپنے ملک میں ٹوٹنے لگا تو مدمقابل قوتیں زیادہ طاقتور ہو گئیں۔

تین برس کے اندر اندر مسولینی کی فوجوں کو صومالیہ، ایتھوپیا، شمالی افریقہ اور روس میں عبرتناک شکست ہوئی۔ لیکن اونٹ کی کمر پر آخری تنکا، انیس سو تینتالیس میں گرا جب امریکی اور برطانوی افواج نے اٹلی کے جزیرے سسلی پر حملہ کردیا۔ اور کرشماتی شخصیت والا مسولینی سوائے تماشائی کے کچھ نہ کر سکا۔ اس پر فاشسٹ گرینڈ کونسل کا ایک اجلاس ہوا۔ اجلاس میں طے پایا کہ اگر امریکہ اور برطانیہ کی دشمنی سے بچنا ہے تو مسولینی کو کرسی سے ہٹانا ہو گا۔ چنانچہ مسولینی کو برطرف کردیا گیا۔ مسولینی نے فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ اپنی ذات میں ڈکٹیٹر تھا۔ وہ اب بھی یہی سمجھتا تھا کہ حکومت اسی کی ہے۔ اس لئے وہ پارٹی اور کونسل کے فیصلے کو نظرانداز کرتے ہوئے اگلے روز اپنے دفتر پہنچ گیا۔ لیکن اب اٹلی کا بادشاہ بھی اس کے خلاف ہو چکا تھا اور مسلسل شکستوں کے باعث بلیک شرٹس بھی کمزور ہو چکے تھے۔ بادشاہ کے حکم پر مسولینی کو گرفتار کرکے دارالحکومت سے دور ایک پہاڑی علاقے میں قید کر دیا گیا۔ مسولینی کی گرفتاری کی خبر عام ہوئی تو خوف کا بت دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔

عوام نے ملک بھر میں مسولینی کے مجسمے گرانا اور تصاویر مسخ کرنا شروع کر دیں۔ ایسے میں مسولینی کے کام اس کا وہی پاگل دوست آیا۔ ہٹلر نے کمانڈوز بھیجے جو اسے آزاد کروا کے جرمنی کے شہر میونخ لے آئے۔ پھر ہٹلر کی فوج نے شمالی اٹلی پر قبضہ کیا اور مسولینی کو اس کا حکمران بنا دیا۔ اب دیکھئے کہ وہی مسولینی جو کل تک رومن سلطنت قائم کرنے کے خواب دیکھا کرتا تھا اور خود کو جولیئس سیزز، آگسٹس اور کونسٹنٹائن جیسے فاتحین کے روپ میں دیکھنا چاہتا تھا اب ہٹلر کی کٹھ پتلی بن کر رہ گیا تھا۔ اس پر مسولینی کے سابق مداح چرچل نے پھبتی کسی مسولینی کی حیثیت اب ہٹلر کے طفیلی یا مزارعے جیسی ہے‘‘۔ وقت گزرتا رہا اور انیس سو پینتالیس کا سال آ گیا۔ جرمن جو شروع میں جنگ عظیم دوئم کا سب سے بڑا کھلاڑی ثابت ہوا تھا، اب میدان چھوڑ رہا تھا۔ ہٹلر کی فواج ہر جگہ سے پسپا ہو رہی تھیں اور مسولینی جو زندہ ہی ہٹلر کے کی مدد سے تھا، بے یارومددگار ہوتا جا رہا تھا۔ جب ہٹلر کی شکست یقینی نظر آنے لگی تو مسولینی نے اٹلی سے فرار ہونے کی ٹھانی۔

یہ تصویر جو آپ دیکھ رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ زندہ مسولینی کی آخری تصویر تھی۔ چھبیس اپریل کو جرمن فوجیوں اور عام شہریوں کا ایک قافلہ سوئٹزر لینڈ میں پناہ کیلئے جا رہا تھا تو اس میں ایک عمر رسیدہ جوڑا بھی شامل تھا۔ ایک اکسٹھ سالہ بوڑھا فوجی جس کے سر پر جرمن ائرفورس کا ہیلمٹ اور جسم پر اوورکوٹ تھا۔ اس فوجی کے ساتھ ایک تینتیس سالہ عورت تھی جو بظاہر اس کی بیٹی لگتی تھی لیکن دراصل محبوبہ تھی۔ اگلے روز یعنی ستائیس اپریل کو یہ قافلہ جب سوئٹزلینڈ سے صرف پچیس کلومیٹر دور جھیل کنارے واقعے قصبے ڈونگو پہنچا، تو اسے سوشلسٹوں کے مسلح گروہ نے روک لیا۔ جرمنوں کی شکست کے بعد اب سوشلسٹ طاقتور ہو چکے تھے اور مسولینی کے حامیوں کو چن چن کر قتل کررہے تھے۔ انھیں شدت سے مسولینی کی بھی تلاش تھی کیونکہ انھیں اس سے بہت سے حساب چکتا کرنا تھے۔ قافلے کی تلاشی ہوئی تو کسی نے اس بوڑھے جرمن فوجی کو پہچان لیا۔

یہ بوڑھا، دراصل بینیٹو مسولینی تھا اور اس کے ساتھ اس کی محبوبہ کلاریٹا پٹاشی تھی۔ جس نے مرتے دم تک اس کے ساتھ رہنے کی قسم کھائی تھی۔ سوشلسٹ مسولینی کو گرفتار کر کے خوشی سے دیوانے ہو رہے تھے۔ انھوں نے دونوں کو ایک فارم ہاؤس میں قید کر دیا۔ اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو مسلح افراد نے انہیں فارم ہاؤس سے نکالا اور قریبی گاؤں کی طرف لے چلے۔ وہاں اس جوڑے کو پتھر کی ایک دیوار کے ساتھ کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا۔ مسولینی کو یقین ہو گیا کہ اب اسے زندہ نہیں چھوڑا جائے گا تو اس نے بندوق تانے سوشلسٹ سے کہا دیکھنا نشانہ چوک نہ جائے، سیدھا دل میں لگنا چاہیے’’۔‘‘ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسولینی آخری وقت میں خاموش رہا کوئی بات اس کے منہ سے نہیں نکلی۔ یہی وہ شخص تھا جس نے گن سیدھی کی اور مسولینی کو موت کی نیند سلا دیا۔ مسولینی، اس کی محبوبہ اور دیگر فاشسٹوں کی لاشیں ٹرک میں لاد کر واپس اسی شہر میلان میں لائی گئیں جہاں ابھی کچھ دن پہلے ہی وہ حکمران تھا۔ یہ لاشیں شہر کے چوک میں یوں پھینک دی گئیں جیسے کوڑے کا ڈھیر پھینکا جاتا ہے۔

یہ وہی شہر تھا جہاں مسولینی نے فاشسٹ پارٹی بنائی تھی۔ یہ وہی شہر تھا جہاں ہٹلر کی مدد سے مسولینی نے آخری حکومت بنائی تھی۔ یہ وہی شہر تھا اور یہ وہی چوک تھا جہاں صرف 8 ماہ پہلے مسولینی نے 13 سوشلسٹ کارکنوں کی لاشیں پھینکی تھیں۔ اب اسی شہر کے اسی چوک میں مسولینی اور اس کے ساتھیوں کی لاشیں پڑیں تھیں جنھیں لاکھوں لوگ دیکھ رہے تھے اور بے حرمتی بھی کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ لاشوں کو الٹا لٹکا کر پتھر بھی مارے گئے۔ یہیں پر بس نہیں ہوا، بلکہ مسولینی کے کچھ اور حامیوں کو بھی وہاں لایا گیا اور انہیں مار کے مسولینی کے ساتھ ہی لٹکا دیا گیا۔ ان میں ایک شخص ایشلز سٹاریس بھی تھا۔ اس نے ایک بار مسولینی کو دیوتا قرار دیا تھا۔ اسے خاص طور پر مسولینی کی لاش کے سامنے لایا گیا اور کہا گیا دیکھو اپنے دیوتا کا انجام۔ لیکن ایشلز اپنے نظریات کا اتنا پکا تھا کہ موت سامنے دیکھ کر بھی نہیں گھبرایا، اس نے اپنے مردہ لیڈر کو آخری سلیوٹ کیا۔

پھر اسے بھی گولی مار کرمسولینی کے ساتھ ہی اسے لٹکا دیا گیا۔ مسولینی کی لاش کومیلان شہر کے باہر ایک قبرستان میں دفن کیا گیا لیکن یہ لاش بھی اٹلی کیلئے ایک مسئلہ بن گئی۔ ہوا یوں کہ مسولینی کے مخالفین ان کی قبر پر جا کر اسے ٹھوکریں مارتے اور بے حرمتی کرتے تھے۔ اپریل انیس سوچھیالیس میں مسولینی کے کچھ حامیوں نے ان کی قبر کھود کر لاش نکال لی۔ انہوں نے لاش کو غسل دیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ اور قبر پر ایک نوٹ لکھ کر چھوڑ گئے کہ وہ کمیونسٹوں کے ہاتھوں اپنے لیڈر کی بے حرمتی برداشت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ہمارے لیڈر تم اب ہمارے ساتھ ہو ہم تمہیں پھولوں سے ڈھک دیں گے۔ لیکن تمہاری خوبیوں کی خوشبو ان پھولوں پر بھی غالب آ جائے گی۔

حکومت کو پتا چلا تو لاش کی تلاش شروع ہو گئی۔ کئی ماہ کی کوششوں کے بعد اگست میں حکومت نے میلان شہر کے جنوب میں ایک عبادت گاہ سے مسولینی کی باقیات برآمد کر کے تحویل میں لے لیں۔ برسوں بعد اٹلی میں ایڈون زولی وزیراعظم بنے۔ انہوں نے دائیں بازو کے سیاستدانوں کا تعاون حاصل کرنے کیلئے لاش کی باقیات مسولینی کی بیوہ ڈونا ریچل کے حوالے کردیں۔ انیس سو ستاون میں ان باقیات کو روماگنا میں مسولینی کے خاندانی قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ قبر پر مسولینی کا مجسمہ اور پارٹی نشانات بھی نصب کردیئے گئے۔ وہ جگہ جہاں مسولینی کو گولیوں کا نشانا بنایا گیا تھا وہاں اب ایک سیاہ سلیب نصب ہے۔ مسولینی کا ایک بیٹا رومانو مسولینی اٹلی کا مشہور پیانسٹ اور فلم پروڈیوسر بنا۔

مسولینی کی پوتی ایلازانڈرا مسولینی اٹلی کی طرف سے یورپی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہو چکی ہیں۔ میلان شہرکے ریلوے اسٹیشن میں آج بھی مسولینی کی تصویر آویزاں ہے اگرچہ کسی نے اس تصویر کی آنکھیں نکال لی ہیں۔ آج دنیا میں فاشسٹ نظریہ ایک ناقابل قبول رویہ مانا جاتا ہے۔ جبکہ اٹلی میں ایک طبقہ آج بھی فاشسٹ پارٹی کے بانی مسولینی کو درست مانتا ہے ان کی قبر پر تقریبات منعقد کرتا ہے اور سمجھتا ہےکہ مسولینی کے نظریات کا دور واپس آئے گا تو اٹلی اپنی عظمت رفتہ کی طرف پلٹے گا۔ آپ کے خیال میں مسولینی، ایک ظالم تھا یا ایک ایسا انقلابی جس کا انقلاب ناکام ہو گیا؟ کمنٹس میں ضرور لکھیں۔ اگر آپ اسی دور کے ایک اور انقلاب پسند، چے گویرا کے حالات جاننا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کیجئے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بھٹو کے آخری بیٹے کے آخری دنوں کی کہانی جاننا چاہتے ہیں تو تو یہاں کلک کیجئے۔ اور اگر آپ مسولینی سے بھی بڑے فخاشسٹ ہٹلر کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو ہماری اگلی قسط کا انتظار کیجئے۔

Read More How to debunk conspiracy theories?

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *